"JDC" (space) message & send to 7575

مصنوعی ذہانت

توقع ہے کہ تین سال بعد یورپ اور امریکہ میں بلا ڈرائیور چلنے والی گاڑیاں استعمال ہونے لگیں گی۔ گاڑی کا مکمل کنٹرول کمپیوٹر کے پاس ہو گا۔ آپ کو لندن یا نیویارک کی ٹریفک کے رش میں پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہو گی آپ اخبار پڑھتے رہیں یا ٹی وی دیکھتے رہیں‘ اپنے لیپ ٹاپ پر دفتر میں ہونے والی میٹنگ کی تیاری کریں، کار خود بخود آپ کو منزلِ مقصود پر پہنچا دے گی۔ آپ کو ڈرائیور رکھنے کی ضرورت بھی نہیں رہے گی ۔
مصنوعی ذہانت کی اصطلاح پہلی مرتبہ 1956ء میں استعمال ہوئی گو کہ کمپیوٹر ایجاد ہوئے کئی سال گزر چکے تھے۔ پاکستان میں کمپیوٹر کا استعمال 1960ء کی دہائی میں شروع ہوا۔ اُس وقت قد آدم بڑے بڑے کمپیوٹر استعمال ہوتے تھے۔ آغاز میں بڑے بڑے بینکوں نے یہ کنگ سائز کمپیوٹر خریدے۔ ابھی پرسنل کمپیوٹر یعنی PC مارکیٹ میں نہیں آئے تھے۔ 1966ء کی بات ہے میں بی اے آنرز فائنل میں تھا۔ ایک روز میں اپنے ایک دوست کو ملنے ان کے آفس گیا، وہ ایک بڑے بینک میں کمپیوٹر سیکشن کے انچارج تھے۔ اُس وقت تک ہمارے ذہن میں تھا کہ کمپیوٹر حساب کتاب بہت تیزی سے کرتا ہے لہٰذا بینکوں کی ضرورت بن گیا ہے۔ میں نے اپنے دوست سے کہا کہ اکائونٹنگ کے علاوہ بھی کمپیوٹر کوئی کام کر سکتا ہے؟ وہ کہنے لگے کہ آپ کو ابھی دکھا دیتے ہیں چنانچہ انہوں نے ٹائپ کر کے کمپیوٹر سے پوچھا کہ 29 فروری 1965ء کو کیا دن تھا۔ ایک سیکنڈ میں جواب آیا Sorry, 1965 was not a leap year. یعنی 1965ء لیپ کا سال نہیں لہٰذا میں جواب دینے سے قاصر ہوں۔
1972ء میں سٹین فورڈ یونیورسٹی کے میڈیکل سکول نے ایک کمپیوٹر پروگرام ایجاد کیا۔ جس کے ذریعے خون سے متعلق مختلف بیماریوں کی تشخیص اور ادویہ کی تجویز کمپیوٹر کے ذریعے ممکن ہو گئی۔ کمپیوٹر میں مریض کے کوائف اور مرض کی علامتیں فیڈ کر دیئے جاتے تھے۔ اگر مرض عام سا ہو تو کمپیوٹر ایک سیکنڈ میں دوا اور اسکی ڈوز تجویز کر دیتا تھا اگر کیس پیچیدہ ہو تو کمپیوٹر کہتا کہ فلاں بلڈ ٹیسٹ کرائیں اور اس کے نتائج بتائیں۔ اس کمپیوٹر پروگرام کے ذریعے 78 فیصد مریضوں کا علاج کامیاب رہا اور یہ شرح اعلیٰ پائے کے ڈاکٹروں کے سکسیس ریٹ Success Rate سے کم نہ تھی۔
اب تک یہ خیال تھا کہ کمپیوٹر سیدھے سادے پرابلم کا حل نکال سکتا ہے لیکن پیچیدہ پرابلم کے بارے میں سوچ نہیں سکتا۔ 1990ء کی دہائی میں روس کے گیری کاسپروف Garry Kasparov دنیا کے شطرنج کے چیمپئن تھے۔ 1996ء میں نیویارک میں ان کا میچ کمپیوٹر سے کرایا گیا، گیری نے کمپیوٹر کو مات دے دی۔ لوگ بڑے خوش ہوئے کہ شطرنج کی چالیں سوچنے میں انسان کا مقابلہ دشوار ہے۔ اگلے سال یعنی 1997ء میں گیری کا مقابلہ پھر کمپیوٹر سے کرایا گیا اور اس مرتبہ فتح کمپیوٹر کی ہوئی۔ مصنوعی ذہانت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ترقی کر رہی ہے۔
کمپیوٹر کے استعمال سے ہماری زندگی میں بے شمار آسانیاں آئی ہیں اور آئندہ مزید آئیں گی مثلاً آپ ٹریفک جام میں پریشان حال ہو کر سٹیرنگ ویل پر نہیں بیٹھیں گے۔ مغربی ممالک میں اب کوئی بجلی‘ پانی اور گیس کے بل ادا کرنے بینک نہیں جاتا یہ تمام ادائیگیاں آن لائن ہوتی ہیں۔ امریکہ میں اکثر کاروں کے مالک ٹول ٹیکس کے لیے نہیں رکتے ان کی گاڑی میں ایک الیکٹرانک چپ لگی ہوتی ہے، ٹول پلازہ کا کیمرہ کار کی نمبر پلیٹ کی تصویر لیتا ہے اور چپ میں سے ٹول ٹیکس منہا ہو جاتا ہے۔ بینک کیشئر کو آپ نے متعدد بار نوٹ گنتے دیکھا ہو گا، یہ بہت ہی بورنگ کام ہے اور ہر وقت فوکس کا متقاضی ہے۔ اب نوٹ گننے کے لیے الیکٹرانک مشینیں آ گئی ہیں، کیشئر حضرات کا کام خاصا آسان ہو گیا ہے۔ پاکستان میں بھی اب پڑھے لکھے لوگ یوٹیلٹی بل آن لائن ادا کر رہے ہیں۔ اے ٹی ایم مشین نے بھی بینک والوں کا کام خاصا آسان کر دیا ہے۔ آپ پاکستانی ویزہ کارڈ پر دنیا بھر میں شاپنگ کر سکتے ہیں۔ یہ پلاسٹک کارڈ بذات خود بڑی انقلابی تبدیلی تھی اب سنا ہے کہ کرپٹو منی (Crypto Money) آ رہی ہے جو ایک قدم آگے ہو گی۔ ای میل کی وجہ سے ہاتھ سے خط لکھنا بہت کم ہو گیا ہے۔ اے ٹی ایم کی وجہ سے بار بار چیک لکھنے کی ضرورت نہیں رہی۔
اب دیکھتے ہیں کہ مصنوعی یا مشینی ذہانت سے کون کون سے پیشے خطرے میں ہیں: ڈرائیور کا پیشہ تو پاکستان میں بھی دس پندرہ سال کا مہمان ہے۔ کمپیوٹر ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کر سکتے ہیں لیکن زیادہ مشکل اور پیچیدہ ترجمہ کرنے سے قاصر ہیں۔ اب کمپیوٹر صاحب مرزا غالب کی شاعری کا انگریزی میں ترجمہ تو کرنے سے رہے۔ البتہ روزمرہ کے ترجمے جو پاکستان میں سفارت خانوں کے لیے ہوتے ہیں مثلاً نکاح نامہ یا برتھ سرٹیفکیٹ‘ یہ کام کمپیوٹر کے لیے بے حد آسان ہے۔ میرے ایک دوست دو ماہ پہلے امریکہ سے سرجری کرا کے آئے ہیں اور یہ آپریشن روبوٹ نے کیا، لہٰذا میڈیکل پروفیشن پر کسی حد تک اثر پڑے گا۔ اسی طرح اکائونٹنٹ کے بہت سارے کام اب کمپیوٹر کرے گا، عین ممکن ہے کہ ریسٹورنٹ میں سروس پر روبوٹ مامور ہوں بلکہ یہ بھی ممکن ہے پیزا چین والے آپِ کو گھر پر ڈیلیوری ڈرون کے ذریعہ کریں۔ 
گلوبل پوزیشننگ سسٹم کے ذریعہ آج بھی دنیا بھر میں لاکھوں ڈرائیور اپنا راستہ آسانی سے پا لیتے ہیں ۔اب آپ کو بار بار رک کر اجنبی ایڈریس کا صحیح مقام اور راستہ تلاش کرنے کی ضرورت نہیں‘ کار میں بیٹھے نہ صرف آپ کو صحیح راستے کی نشاندہی ہوتی رہے گی بلکہ کمپیوٹر آپ کو یہ بھی بتا سکتا ہے کہ اس وقت کون سی سڑکوں پر رش زیادہ ہے اور کہاں کم۔ 
کمپیوٹر زبانیں سمجھنے لگ گئے ہیں‘ ترجمہ کر سکتے ہیں آپ کو گھر بیٹھے بٹھائے مختلف مضامین کے لیکچر دے سکتے ہیں۔ اس سال ٹوکیو میں ہونے والی اولمپکس میں انسان جاپانی زبان میں مختلف اعلانات کریں گے جبکہ باقی اہم زبانوں میں فوری ترجمہ کمپیوٹر کریں گے۔
کیمرہ اور کمپیوٹر کے باہمی تعاون سے گھر کی سیکورٹی بے حد آسان ہو گئی ہے، آپ اپنے سمارٹ فون پر دور بیٹھے اپنے گھر کے باہر اور اندر حرکات کو دیکھ سکتے ہیں۔ ایک کمپیوٹر سوفٹ ویئر الیکسا (Alexa) کے نام سے متعارف ہوا ہے جسے میں نے دو ماہ پہلے لندن میں اپنے بھائی کے گھر دیکھا۔ الیکسا کو آپ ڈیکوریشن پیس کی طرح اپنی سائیڈ ٹیبل پر رکھ سکتے ہیں۔ انگلستان میں لوگ صبح سویرے الیکسا سے موسم کے بارے میں پوچھتے ہیں اور کمپیوٹر آپ کو الیکسا کی نسوانی آواز میں موسم کی تفصیل بتا دیتا ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ الیکسا ایک ہی وقت میں لاکھوں لوگوں کو جواب دیتی ہے میں نے الیکسا سے پاکستان کا قومی ترانہ بھی سنا تھا۔
مشہور سائنس دان سٹیفن ہاکنگ کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی ترقی انسانی تاریخ کا بدترین باب بن سکتی ہے۔ ہاکنگ محتاط رہنے کی نصیحت بھی کرتا ہے۔ اُسے ڈر ہے کہ ایک دن روبوٹ انسانوں کی جگہ لے کر ہماری کرہ ارض سے چھٹی کرا سکتے ہیں۔ وہ دن آ سکتا ہے جب روبوٹ حضرت انسان سے زیادہ طاقتور اور سمارٹ ہوں گے کئی دیگر سائنس دان ہاکنگ سے مختلف رائے رکھتے ہیں‘ وہ یہ کہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت بہت سارے انسانی مسائل کا حل تلاش کرنے میں معاون ثابت ہو گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں