"JDC" (space) message & send to 7575

کردستان‘ امریکہ اور ترکی

پچھلے ہفتے ترک فوجی دستے شمالی شام کے قصبے عفرین میں داخل ہوئے تو دنیا کی ریڈار سکرین پر کرد مسئلہ پھر سے چند روز کے لیے نمایاں ہوا۔ عفرین کے اردگرد کرد آباد ہیں اور ترک حکومت کا خیال ہے کہ یہاں سے بارڈر کے پار ترکی کے اکراد (کرد کی عربی جمع) کی علیحدگی پسند جماعت Kurdish Workers Party (PKK) کی مدد ہوتی ہے۔ امریکی افواج بھی اس علاقے میں موجود ہیں اور ان کا واپسی کا فی الحال کوئی ارادہ نہیں۔ امریکی لیڈر شپ کا اندازہ ہے کہ جلد بازی میں افواج کا انخلا اسلامک سٹیٹ (داعش) کو پھر سے پنپنے کا موقع فراہم کرے گا۔ 
کرد لوگ چار ممالک میں آباد ہیں‘ ان کی ٹوٹل آبادی تقریباً 35 ملین یعنی ساڑھے تین کروڑ ہے۔ ان میں سے سب سے بڑا حصہ یعنی ڈیڑھ کروڑ اکراد ترکی میں رہتے ہیں جو کہ ترکی کی کل پاپولیشن کا بیس فیصد حصہ بنتا ہے۔ ترکی کے علاوہ اکراد ایران‘ عراق اور شام میں بھی موجود ہیں۔ اگر ان چاروں ممالک کے کرد آباد حصوں کا زمینی رقبہ نکالا جائے تو یہ پانچ لاکھ مربع کلومیٹر بنتا ہے۔ چاروں ممالک کے بعض کرد گروپ عرصے سے دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ نیشنلسٹ جذبات چاروں ممالک کی کرد اقلیتوں میں پائے جاتے ہیں لیکن پھر بھی آزاد کردستان کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کے کوئی آثار ہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر جب سلطنتِ عثمانیہ تحلیل ہو رہی تھی تو مغربی فاتح اقوام نے اکراد کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ انہیں علیحدہ اور آزاد ریاست ملے گی لیکن یہ وعدہ پورا نہ ہو سکا۔ اس پورے خطے میں سب سے زیادہ اٹانومی عراق کے اکراد نے انجوائے کی ہے۔ عراق کے کرد صدام حسین کے مقہور سمجھے جاتے تھے۔ امریکہ اور مغربی ممالک چونکہ صدام مخالف تھے لہٰذا ان کی ہمدردیاں عراقی اکراد کے ساتھ تھیں اور پھر صدام حسین نے اپنے پائوں پر خود کلہاڑی ماری اور کویت پر حملہ کر دیا۔ مغربی ممالک کی افواج نے نہ صرف صدام کی افواج سے کویت کو آزاد کرایا بلکہ کردوں کی حمایت ظاہر کرنے کے لیے شمالی عراق کو نو فلائی زون قرار دے دیا یعنی عراقی ایئرفورس کے طیارے اب اپنے ہی شمالی یعنی کرد اکثریت والے علاقے پر پرواز نہیں کر سکتے تھے۔
2003ء میں امریکہ نے عراق میں فوجی مداخلت کی تو پھر اکراد کو فائدہ ہوا۔ شمالی کرد علاقوں کو اٹانومی ملی۔ ان کی اپنی پارلیمنٹ ہے‘ آہستہ آہستہ ان کی اپنی علیحدہ آرمی بھی بن گئی۔ اسے پیش مرگہ کہا جاتا ہے۔ 2014ء میں اسلامک سٹیٹ (داعش) بنی‘ ابوبکر بغدادی نے خلیفہ ہونے کا اعلان کیا تو پیش مرگہ امریکہ کی چہیتی فوج بن گئی کہ اسلامک سٹیٹ کے خلاف اسے امریکہ نے ہر اول دستے کے طور پر استعمال کرنا تھا۔ عراقی اور شامی کرد ایک عرصے سے امید لگائے بیٹھے تھے کہ امریکہ ان کی علیحدہ ریاست کی حمایت کرے گا۔ ستمبر 2017ء میں عراقی کردستان ریجن میں ریفرنڈم کرایا گیا۔ ریجن کے منتخب صدر مسعود برزانی آزادی کے پرجوش حامی ہیں۔ ترکی اور ایران نے انہیں بہت منع کیا کہ ریفرنڈم نہ کرائیں مگر وہ اپنی بات پر ڈٹے رہے۔ ریفرنڈم میں ناخبین سے جو سوال پوچھا گیا وہ یہ تھا ''کیا آپ کردستان ریجن اور وہ کرد علاقے جو ریجن سے باہر ہیں‘کو آزاد ریاست بنانے کے حق میں ہیں‘‘ یعنی غور فرمائیں یہاں عراقی اکراد سے نہ صرف اپنے مستقبل کے بارے میں پوچھا گیا بلکہ ایک طرح سے گریٹر کردستان کی بات کی گئی۔ نوے فیصد ناخبین نے آزاد کرد ریاست کے حق میں ووٹ دیا لیکن آزاد کرد ریاست کا قیام آج بھی دور دور تک نظر نہیں آتا۔ ذیلی سطور میں اس کی وجوہات پر غور کیا جائے گا۔
سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ آزاد کردستان کے بارے میں امریکی موقف مبہم ہے۔ اندر خانے امریکہ کی یہ خواہش رہی ہے کہ عرب ریاستوں کو کمزور کیا جائے تاکہ وہ اسرائیل کے سامنے سر نہ اٹھا سکیں۔ لیکن عراق اور شام جو ایک زمانے میں طاقتور ملک تھے آج انتہائی لاغر ہیں لہٰذا امریکہ کو انہیں مزید کمزور کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ خطے کے دو مضبوط ممالک یعنی ترکی اور ایران آزاد کردستان کے شدید مخالف ہیں۔ ریفرنڈم کے دنوں میں ایران نے اعلان کیا تھا کہ ایران کے راستے کوئی ہوائی جہاز اربیل نہیں جائے گا۔ یاد رہے کہ اربیل کا شہر عراقی کردستان ریجن کا دارالحکومت ہے۔ ادھر ترکی نے اعلان کیا کہ ہم ایسے اقدام کریں گے کہ کردستان کی آزاد حکومت خود بخود ختم ہو جائے گی۔ عراقی کردستان ریجن روزانہ چھ لاکھ بیرل تیل پیدا کرتا ہے۔ اس میں سے بڑا حصہ ترکی کے راستے برآمد کیا جاتا ہے۔ ترکی نے دھمکی دی کہ آزادی کی صورت میں کردستان کا تیل ترکی نہیں آ سکے گا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ کرد ریجن اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے جو ترکی پر انحصار کرتا ہے‘ آزادی کی صورت میں ترکی غذائی اجناس کی ایکسپورٹ بند کر دے گا۔ ایران اور ترکی کردستان کے معاملے میں یکسو ہیں۔
اسلامک سٹیٹ (داعش) کے خلاف لڑائی شام اور عراق میں لڑی گئی‘ اکثر کرد پہاڑوں میں رہتے ہیں اور مردان کوہ عموماً بہادر ہوتے ہیں۔ کردوں کی بڑی اکثریت مسلمان ہے اور مسلک کے لحاظ سے اسلامک سٹیٹ والوں سے مختلف نہیں لیکن کلچرل‘ لسانی اور نسلی لحاظ سے کرد عربوں سے علیحدہ شناخت رکھتے ہیں لہٰذا امریکہ نے انہیں اسلحہ پیسہ اور دیگر ترغیبات سے آئی ایس کے خلاف خوب استعمال کیا۔ آئی ایس کی شکست کو ممکن بنانے میں کرد پیش مرگہ کا کلیدی رول رہا ہے۔ آج سے تقریباً دو سال پہلے شامی کردوں نے بھی اٹانومی کا اعلان کر دیا تھا۔ کرد اس لحاظ سے بھی امریکہ کو پسند تھے کہ اُن میں انتہا پسندی بہت کم ہے۔ پیش مرگہ میں ایک خاطر خواہ تعداد کرد خواتین سولجرز کی بھی ہے۔
ترکی کو امریکہ کی کرد علاقے میں مداخلت پر تحفظات رہے ہیں۔ ترکی کو ڈر تھا کہ امریکہ درپردہ کردوں کی آزادی کی حمایت کر رہا ہے۔ ترکی کے اس خوف کو دور کرنے کے لیے امریکہ نے عراقی کرد ریجن کے نتائج کی مخالفت کی اور کہا کہ ہم عراق کے بارڈر چینج کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ شمالی شام کے کرد علاقوں میں ترکی اور امریکہ کی افواج چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ دونوں کے اہداف مختلف ہیں لیکن امریکہ نے کرد شامی علاقے میں ترکی عسکری مداخلت سے اغماض برتا ہے‘ امریکہ کردوں کی خوشنودی بھی چاہتا ہے اور دوسری جانب نیٹو کے ایک اہم ملک کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتا۔
ادھر ترک عسکری مداخلت کو روس کی مکمل حمایت حاصل ہے‘ روس نہیں چاہتا کہ شام کے شمالی کرد علاقے دمشق کی حکومت سے آزاد ہو جائیں۔ روس کی حمایت نے بشارالاسد کی حکومت کو 2014ء میں نئی زندگی بخشی تھی اور وہ حمایت جاری ہے لہٰذا اس وقت آزاد کرد ریاست کے امکانات تقریباً معدوم نظر آتے ہیں۔ دمشق‘ بغداد‘ تہران‘ انقرہ اور ماسکو سب ہی آزاد کرد ریاست کے خلاف ہیں۔ مغربی ممالک چپ سادھے ہوئے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ جب ملکوں کے بارڈر بدلتے ہیں تو قتل و غارت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور اگر بیرونی مداخلت بھی اس عمل میں شامل ہو جائے تو معاملات زیادہ بگڑ جاتے ہیں۔ مہاجروں کا جم غفیر ہر طرف نظر آنے لگتا ہے اور پھر مہاجرین کے اثرات ترقی یافتہ ممالک تک بھی جاتے ہیں۔ اندریں حالات شام‘ عراق‘ ترکی اور ایران کے اکراد کو اپنے اپنے ملک میں رہتے ہوئے اپنے حقوق کی بات کرنی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں