"JDC" (space) message & send to 7575

ایک عظیم امن پسند

20 اگست کو ایک عظیم امن پسند اپنے چاہنے والوں کو داغِ مفارقت دے گیا۔ اس کے خیالات اسرائیلی حکومت اور متعدد شہریوں کے لیے نا پسندیدہ تھے۔ بلکہ دائیں بازو کی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے بعض اسرائیلی شہریوں نے اس کی وفات پر خوشی کا اظہار بھی کیا۔ مشہور امریکی جرنلسٹ مارک سٹینر (Mark Steiner) کے مطابق یوری دہریہ تھا اور اس کی خواہش کے مطابق اس کے جسدِ خاکی کو جلایا گیا اور راکھ سمندر کی نذر کر دی گئی۔
یوری ایونیری 1923 Uri Avneryء میں جرمنی میں ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوا۔ اس نے ہوش سنبھالی تو جرمنی میں نازی حکومت آ گئی۔ ہٹلر کی نازی حکومت کے یہودیوں پر مظالم تاریخ کا حصہ ہیں۔ مشہور مڈل ایسٹ ایکسپرٹ اور کالم نگار رابرٹ فسک (Robert Fisk) نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ہٹلر کو سکول کے بچے سلامی پیش کر رہے تھے‘ مگر یوری نے ہٹلر کو سلیوٹ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس وقت اس کی عمر دس سال سے کم ہی رہی ہو گی کیونکہ 1933ء میں یوری کی فیملی نازی جرمنی میں یہودیوں کے مستقبل سے مایوس ہو کر فلسطین منتقل ہو گئی تھی۔
1938ء میں پندرہ سالہ یوری صہیونی (Zionist) افکار سے متاثر ہوا اور اس نے انتہا پسند تنظیم ارگن (Irgun) جوائن کر لی۔ یوری بعد میں اپنی تنظیم کے دیگر ممبران کے ساتھ مل کر فلسطینی آبادیوں پر حملے کرنے لگا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ یہودی قوم کا فریڈم فائٹر ہے۔ وہ 1948ء تک انتہا پسند کارروائیوں میں شریک رہا۔ 1948ء میں اس تنظیم نے ایک فلسطینی بستی پر حملہ کر کے اُس پر قبضہ کر لیا۔ بستی کے عرب باشندے جان بچانے کے لیے بھاگ گئے۔ قبضے کے بعد یوری نے دیکھا کہ کچھ گھروں میں چولہے ابھی جل رہے تھے‘ اور کھانا پک رہا تھا۔ حملہ اچانک کیا گیا تھا۔ بستی کے مکین ظاہر ہے بہت جلدی میں ہر چیز چھوڑ چھاڑ کر بھاگے تھے۔ اب یوری کے افکار بدلنے لگے۔ اس کے ذہن میں سوال اٹھنے شروع ہوئے کہ بے چارے فلسطینیوں کا کیا قصور تھا؟ انہیں کس جرم کی سزا ملی ہے؟ ہزاروں برس سے فلسطین میں رہنے والے عربوں کو اپنے وطن سے کیوں نکالا گیا؟ بعد میں متعدد بار یوری نے اس بات کا اقرار کیا کہ وہ اس زمانے میں دہشت پسند کارروائیوں میں شریک رہا۔ ایک امریکن جرنلسٹ کو انٹرویو میں یوری نے چند ماہ پہلے کہا تھا کہ ارگن ایک دہشت پسند تنظیم تھی جو یہودیوں کے حقوق کے حصول کی خاطر فلسطینیوں کے حقوق پامال کر رہی تھی۔
ایک مرتبہ یوری ایونیری سے سوال کیا گیا کہ یہودیوں نے یورپ میں بالعموم اور جرمنی میں بالخصوص بڑے ظلم سہے۔ مظلوم انسان کے گناہ یہودی عقیدے کے مطابق دھل جاتے ہیں‘ وہ پاک صاف ہو جاتا ہے۔ تو پھر فلسطین میں آ کر یہودی خود ظالم کیسے بن گئے۔ یوری کا جواب تھا کہ اصولاً تو مظلوم انسان کو ظلم سے دور رہنا چاہئے لیکن حقیقی زندگی میں ضروری نہیں کہ ایسا ہی ہو۔ حقیقی زندگی میں عین ممکن ہے کہ آج کا مظلوم کل کا ظالم بن جائے۔ اور فلسطین میں ہم نے یہ اپنی آنکھوں سے ہوتے دیکھا ہے۔
1948ء کے بعد کا یوری بہت مختلف ہے۔ وہ باقی ماندہ عمر امن کا پرچارک رہا ۔ وہ فلسطین کے دو ریاستی حل کا سپورٹر تھا، اور اس کے ساتھ ساتھ اس چیز کا بھی داعی تھا کہ اسرائیلی ریاست کے اندر عربوں کو برابری کی بنیاد پر حقوق ملنے چاہئیں۔ وہ اس بات کا سخت مخالف تھا کہ اسرائیل صرف یہودیوں کے لیے بنایا گیا ہے۔ 1964ء میں یوری نے اپنی سیاسی پارٹی بنائی اور پارلیمنٹ کا ممبر منتخب ہوا۔ وہ بارہ سال تک اسرائیلی کنیسٹ (Knesset) کا ممبر رہا۔ امن کے پرچار کی پاداش میں یوری پر متعدد قاتلانہ حملہ ہوئے مگر وہ ہر دفعہ بچ نکلا۔ اس کی پارٹی Gush Shalom یعنی 'امن کا بلاک‘ نے ہمیشہ مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیوں کے قیام کی مخالفت کی۔
یوری کی اصل پہچان بطور صحافی تھی۔ اس نے چالیس سال سے زائد عرصہ ایک سیاسی میگزین شائع کیا۔ اس میں تازہ ترین سیاسی گپ شپ کے علاوہ کرپشن کے سکینڈل بھی افشا کئے جاتے تھے۔ یوری کی کالم نگاری ساٹھ سال سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ اس کے کالم ایک پاکستانی انگریزی روزنامہ میں بھی تواتر سے چھپتے رہے۔ بعض لوگوں کو اعتراض تھا کہ یوری اپنے میگزین کی سرکولیشن کو بڑھانے کے لیے خواتین کی بولڈ قسم کی تصویروں کا سہارا لیتا ہے‘ جبکہ یوری کا کہنا تھا کہ اس کا اصل مقصد لوگوں کو رسالے کی سیاسی آراء کی طرف لانا ہے۔ یہ مقبول رسالہ چالیس سال سے زائد عرصے تک چلا اور اس کے ذریعے یوری نے نوجوان صحافیوں کی ایک کھیپ بھی تیار کی۔
یوری کو جنگ سے نفرت تھی۔ لیکن ایک مرتبہ اردن کے بارے میں اس نے بڑی جارحانہ تجویز دی۔ اس کا کہنا تھا کہ فلسطینی آبادی اردن کی ٹوٹل آبادی کا ستر فیصد ہے۔ فلسطینیوں کو چاہئے کہ وہ اردن میں بادشاہت کو ختم کرنے کی تحریک چلائیں اور جب بادشاہت ختم ہو جائے تو اردن اور اسرائیل کی فیڈریشن بنا دی جائے۔ لیکن میرے خیال میں یہ تجویز قابل عمل نہ تھی۔ میں 1980ء کی دہائی میں دو سال اردن میں رہا ہوں۔ وہاں کنگ حسین خاصے پاپولر تھے۔ وہ لوگوں کے ساتھ رابطہ مسلسل رکھتے تھے۔ دوسرے فلسطینی آبادی میں اسرائیل مخالف جذبات عام تھے کیونکہ یہ وہی لوگ تھے جنہیں 1948ء اور 1967ء میں اپنا وطن چھوڑنا پڑا تھا۔
1956 میں اسرائیل‘ فرانس اور برطانیہ نے مل کر مصر پر فضائی حملے کئے تھے۔ یوری ایونیری نے اس جارحانہ قدم کی کھل کر مخالفت کی۔ دراصل یہ برطانیہ کا سویز کینال کو قومیانے کے مصری فیصلے پر رد عمل تھا۔ لیکن یوری جمال عبدالناصر جیسے عرب قوم پرستوں کو علاقائی امن کے لیے خطرہ بھی سمجھتے تھے۔ اس کا خیال تھا کہ قوم پرستی جلد ہی فاشزم کا روپ دھار لیتی ہے‘ جیسا کہ یورپ میں ہوا اور نتیجہ دو عالمی جنگوں کی صورت میں نکلا۔ 
آپ کو یاد ہو گا‘ 1982 میں اسرائیل نے بیروت میں صابرا اور شاتیلا کے فلسطینی مہاجر کیمپس پر حملہ کیا تھا۔ ہزاروں فلسطینی جنرل شارون کی جارحیت کا شکار ہوئے تھے۔ یوری ایونیری اس ظالمانہ کارروائی سے بہت آزردہ تھے۔ وہ خاص طور پر یاسر عرفات کو ملنے بیروت گئے۔ یاسر عرفات کا انٹرویو کرنے والے وہ پہلے اسرائیلی صحافی تھے۔ دونوں کو یوں محسوس ہوا کہ برسوں کے آشنا ہیں۔ دونوں کو شطرنج کا شوق تھا۔ انٹرویو ختم ہوا تو شطرنج کی بازی شروع ہو گئی۔ انہی دنوں اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد نے یاسر عرفات کو قتل کرنے کا پلان بنایا۔ یاسر عرفات سکیورٹی خطرات کے پیش نظر اپنے ٹھکانے بدلتے رہتے تھے۔ یوری ایونیری مسلسل یاسر عرفات کے پاس جانے لگے تو موساد نے پلان بنایا کہ دونوں کو ایک ساتھ ہی قتل کر دیا جائے یعنی ایک تیر سے دو شکار۔ یاسر عرفات کے گارڈز کو بر وقت اطلاع ہو گئی اور یوں یہ منصوبہ ناکام ہو گیا۔ لیکن موساد والوں نے کوششیں جاری رکھیں۔ عرب آج بھی یقین سے کہتے ہیں کہ فلسطینی لیڈر کی وفات کا سبب وہ زہر تھا جو موساد نے کسی طرح ان کی خوراک یا دوائیوں میں شامل کرائی تھی۔
بات موضوع سے ذرا ہٹ گئی۔ یوری ایونیری نے تقریباً 95 سال کی عمر پائی اور تمام عمر امن کی جنگ لڑتا رہا۔ وہ اسرائیل کو مذہبی ریاست بنانے کے سخت خلاف تھا۔ اس نے وائٹ چیف آف سٹاف کا نظریہ بھی پیش کیا۔ سفید رنگ امن کا رنگ ہے۔ یوری کا کہنا تھا کہ فوج کا کام محض جنگ لڑنا نہیں بلکہ امن کی حفاظت بھی ہے لہٰذا فوجی افسروں میں امن کے پرچارک ہونا ضروری ہیں۔ یوری کی زیادہ عمر امن کی تلاش میں گزری۔ وہ امن اور آشتی کی دیوی کا دیوانہ تھا۔ اس کی اپنی زندگی میں تو فلسطین میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ یوری کی جدوجہد بالکل بے کار گئی۔ آج نہیں تو کل‘ کل نہیں تو پرسوں امن کی فاختائیں حضرت یوسفؑ کی سرزمین پر ضرور اتریں گی۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں