"JDC" (space) message & send to 7575

باتیں ظہیرالدین بابر کی … (2)

بابر جیسی ہفت پہلو شخصیت کے بیان کے لیے کئی کالم بھی کافی نہیں‘ لیکن کچھ اور موضوعات بھی ذہن میں گردش کر رہے ہیں‘ لہٰذا آج اس عظیم شخص کا بیان ختم کرتے ہیں۔ جب عمر شیخ مرزا کا اچانک انتقال ہوا تو بابر کی عمر گیارہ سال تھی۔ سینتالیس سال کی عمر میں مغلیہ سلطنت کے بانی کا انتقال ہوا۔ 36 سالہ عملی زندگی میں بابر نے تقریباً تیس جنگیں لڑیں‘ جن میں سے چند خاصی طویل تھیں۔ اس کی زندگی مسلسل جدوجہد سے عبارت تھی۔ لیکن جب بھی اسے جنگوں سے فراغت ہوئی اس نے زندگی کو خوب انجوائے کیا۔ بابر نامہ میں دریائے کابل‘ دریائے سندھ اور دریائے جہلم میں کشتی رانی کا ذکر ہے۔ رقص و سرود کی محفلیں بھی مذکور ہیں۔ اکثر سمجھا جاتا ہے کہ جو شخص شمشیر و سناں کا ماہر ہو گا‘ وہ طائوس و رباب کی طرف راغب نہیں ہو گا‘ لیکن بابر میں یہ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں‘ گویا بڑی متوازن شخصیت ہے۔
کابل بابر کے چچا الغ بیگ مرزا کے زیر تسلط تھا۔ الغ بیگ کی وفات کے بعد محلائی سازشیں شروع ہو گئیں اور ایک وزیر شیرم ذکر Sherim Zikr نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ بابر حصار کے راستے کابل کی طرف بڑھا۔ حصار کا تاریخی قبضہ آج بھی تاجکستان میں آباد ہے۔ بابر لکھتا ہے کہ حصار سے نکلے تو اس کے ساتھ چند سو سپاہی تھے اور بیشتر کے پائوں میں جوتے بھی نہ تھے۔ راستے میں مزید سپاہی اور سامانِ حرب ملتا گیا۔ 1504 میں بابر نے کابل فتح کیا۔ یہاں کا موسم اور انگور بابر کو بہت اچھے لگے۔ وہ لکھتا ہے کہ گرمیوں کی راتوں میں بھی کابل میں سوتے وقت بھیڑ کی کھال سے بنا ہوا کوٹ پہنتے ہیں‘ ورنہ سردی لگتی ہے۔
بابر کو مختلف پودوں کا عام طور پر اور پھل دار درختوں سے بڑا شغف تھا۔ اس نے سنٹرل ایشیا سے آلو بخارے کی قلمیں لا کر افغانستان میں لگائیں‘ جو کامیابی سے چلیں۔ بابر کو کابل کا بیدانہ انگور بہت بھایا۔ کابل کی وائین یعنی نبیذ کا ذکر کرتے ہوئے بابر لکھتا ہے کہ یہ بہت نشہ آور ہے۔ بابر کو کابل کا موسم سرما اچھا لگا کیونکہ یہاں سنٹرل ایشیا سے کم سردی پڑتی ہے۔ کابل میں مختلف ممالک سے لایا ہوا انواع و اقسام کا مال بکتا تھا۔ شہر میں بارہ زبانیں بولی جاتی تھیں۔ کابل پر حملے سے چند ماہ پہلے بابر نے زندگی میں پہلی مرتبہ حجام سے شیو بنوائی۔ میرے زیر مطالعہ بابر نامے کا مولف دلیپ ہیرو لکھتا ہے کہ اکیس سال عمر میں بابر نے زندگی کا اتنا تجربہ حاصل کر لیا تھا جو عام لوگوں کو پچاس سال میں بھی نہیں ملتا۔ فتح کابل کے بعد بابر نے چار شادیاں کیں۔ اس کی بیویوں کے نام تھے: ماہم بیگم، معصومہ سلطان بیگم، گل رخ بیگم اور دلدار بیگم۔ ہندوستان کا اگلا بادشاہ یعنی ہمایوں ماہم بیگم کا بیٹا تھا۔ دلیپ ہیرو یہ بھی لکھتا ہے کہ بابر کا بس چلتا تو وہ اپنی سلطنت کا نام خاندان تیموریہ رکھتا کیونکہ وہ نسلاً مغل نہیں تھا اور نسل باپ سے چلتی ہے۔
1523ء میں بابر نے لاہور فتح کیا اور پھر دیپالپور۔ حملے کی دعوت اسے پنجاب کے صوبیدار دولت خان لودھی نے دی تھی جو ابراہیم لودھی سے تنگ آیا ہوا تھا۔ دولت خان کی خام خیالی تھی کہ بابر پنجاب کو اپنی سلطنت میں شامل کر کے اُس کے حوالے کر دے گا اور خود کابل واپس چلا جائے گا۔ اس سے پہلے بابر کو میوار کے حاکم رانا سانگھا نے پیغامات بھیجے تھے کہ وہ ہندوستان پر حملہ کرے۔ رانا سانگھا کا پلان تھا کہ بابر پہلے حملہ آوروں کی طرح دہلی فتح کر کے واپس چلا جائے گا۔ رانا سانگھا نے بابر کو پوری امداد کا بھی یقین دلایا تھا۔ پلان یہ بنا کہ جونہی بابر دہلی پر قبضہ کرے گا رانا سانگھا آگرہ پر حملہ آور ہو جائے گا۔ رانا سانگھا نے وعدے کی پاسداری نہیں کی‘ اور اس وجہ سے بابر اُس سے سخت ناراض تھا۔ بابر نے انڈیا میں رہ کر حکومت کرنے کا فیصلہ کیا اور اس طرح دولت خان لودھی اور رانا سانگھا دونوں کے لاہور اور دہلی کے تخت پر بیٹھنے کے خواب چکنا چور ہو گئے۔
رانا سانگھا کی راجستھان کے علاقے میوار پر حکومت تھی۔ مشرقی انڈیا میں اب بھی افغان حکمران تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے عزیز ابراہیم لودھی کو بابر نے پانی پت میں شکست دی تھی۔ رانا سانگھا نے افغانوں کو ساتھ ملا کر بہت بڑی فوج تیار کر لی۔ بابر کے بقول رانا سانگھا کی فوج دو لاکھ تھی لیکن مورخین لکھتے ہیں کہ یہ فوج پچاس ہزار تھی۔ بہر حال بابر کی فوج مقابلتاً بہت کم تھی۔
اب اس عظیم جرنیل نے سوچا کہ اپنے سپاہیوں کا عزم اور حوصلہ بلند کرنا چاہئے۔ اُس نے فوج کو جمع کرنے کا حکم دیا۔ شراب کی بوتلیں اور جام منگوائے۔ سپاہیوں کے سامنے اعلان کیا کہ میں آج سے شراب نوشی ترک کر رہا ہوں۔ بوتلیں اور جام توڑ دیئے گئے۔ تمام سپاہیوں نے عزم کیا کہ وہ کنواحہ کی جنگ میں یا غازی ہوں گے یا شہید۔ بابر کی فوج اس قدر پُرجوش تھی کہ عددی برتری کے باوجود رانا سانگھا کو شکست ہوئی۔ یہ جنگ مارچ 1527ء میں ہوئی۔
جب انڈیا میں مغلیہ حکومت قائم ہوئی تو بابر کی عمر تقریباً چالیس سال تھی۔ وہ اب بھی دو آدمیوں کو دونوں جانب اٹھا کر قلعے کی دیوار پر تیز تیز چلتا تھا۔ ایسا طاقت ور ذہین و فطین شخص ہی اتنی بڑی سلطنت کی بنیاد رکھ سکتا تھا۔ انڈیا کی اچھائیوں کے بارے میں بابر لکھتا ہے کہ یہ وسیع و عریض ملک ہے‘ مال و دولت کی فراوانی ہے۔ برسات کے موسم میں دن میں کئی مرتبہ بارش ہوتی ہے۔ خشک دریا بھر جاتے ہیں۔ یہاں گرمی بلخ اور قندھار کے مقابلے میں کم ہے؛ البتہ گرمیوں میں آندھیاں بہت چلتی ہیں۔ ہندوستان کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہاں ہر قسم کے کاریگر بڑی تعداد میں ملتے ہیں۔ ایک ذات کے لوگ ایک ہی کام کرتے ہیں اور بیٹا وہی پیشہ اختیار کرتا ہے جو اُس کے باپ کا تھا۔ بابر نے مختلف علاقوں سے مالیہ کی وصولی کو تفصیل سے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے۔ پورے ہندوستان میں سب سے زیادہ مالیہ لاہور، دہلی اور بہار کے صوبوں سے آتا تھا۔ لاہور کا صوبہ دریائے ستلج سے لے کر دریائے چناب تک تھا۔ بھیرہ اُس زمانے میں بڑا خوش حال شہر تھا؛ البتہ بابر کو انڈیا میں خامیاں زیادہ نظر آئیں۔ وہ لکھتا ہے ''یہاں کے لوگ خوش شکل نہیں اور نہ ہی انہیں ملنے ملانے کے آداب سے آشنائی ہے۔ دست کاری اور صنعت میں تناسب نہیں۔ یہاں نہ ہی اچھے گھوڑے ملتے ہیں اور نہ کتے۔ یہاں کے فروٹ بشمول خربوزہ اور انگور عام سے ہیں۔ بازاروں میں اچھا پکا ہوا کھانا اور عمدہ نان نہیں ملتے۔ یہاں نہ ہی حمام ہیں اور نہ کالج۔ مشعلیں‘ شمع دان اور موم بتیاں ناپید ہیں۔ موم بتی کے بجائے یہ لوگ عام مٹی کا بنا ہوا دیا استعمال کرتے ہیں‘ جس میں تیل ڈال دیا جاتا ہے اور موٹی سی روئی کی بتی۔ روشنی کرنے کا یہ خاصا گندا اور بھونڈا طریقہ ہے۔ دریائوں اور آبی نالوں کے علاوہ یہاں پانی نظر نہیں آتا۔ عام کسان اور ادنیٰ طبقے کے لوگ تقریباً برہنہ پھرتے ہیں۔ کئی لوگ صرف لنگوٹ پہنتے ہیں۔ کچھ لوگ کمر کے گرد ایک کپڑا باندھ لیتے ہیں‘ جسے لنگی یا دھوتی کہا جاتا ہے۔ عورتیں اپنے بدن کے گرد کپڑا لپیٹتی ہیں جسے ساڑھی بولتے ہیں‘‘۔
بابر کی زندگی عمل یعنی ایکشن سے بھرپور نظر آتی ہے۔ اُس میں بے شمار جنگیں ہیں، جدوجہد ہے۔ سچائی اس سوانح عمری کا بنیادی عنصر ہے۔ بابر نے شراب ترک کر دی‘ لیکن معجون سے آخری وقت تک لطف اندوز ہوتا رہا۔ معجون، افیم یا بھنگ سے بنایا گیا مرکب تھا جسے پیس کر خوشبو دار دودھ میں ملایا جاتا تھا۔ بابر‘ ابراہیم لودھی اور رانا سانگھا کے مقابلے میں امور حرب سے زیادہ آشنا تھا۔ وہ انسانی نفسیات کو خوب جانتا تھا۔ کنواحہ کی جنگ سے پہلے اس کا سپاہیوں سے پُر جوش خطاب اس امر کی واضح دلیل ہے۔ وہ واقعی اسم با مسمیٰ یعنی شیر تھا۔ بابر کی وصیت کے مطابق اُسے کابل میں دفن کیا گیا۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں