"JDC" (space) message & send to 7575

انڈین الیکشن، ہندتوا اور پاکستان

انڈین نیشنل الیکشن آئندہ اپریل اور مئی میں ہوں گے۔ جوں جوں الیکشن قریب آ رہے ہیں بی جے پی خاص طور پر اور کانگریس عام طور پر ہندتوا کے استعارے استعمال کر رہی ہے۔ ماڈرن انڈیا میں سیاست میں مذہب کے ہتھیار کا استعمال گاندھی جی نے رائج کیا تھا۔ ستم ظریفی بھی ملاحظہ ہو کہ گاندھی جی خود ایک ہندو انتہا پسند کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ ان کا جرم یہ تھا کہ وہ مشترکہ اثاثوں میں سے پاکستان کا جائز حق دینے کی حمایت کر رہے تھے۔ گاندھی جی کا قاتل نتھو رام گودسے آر ایس ایس سے تعلق رکھتا تھا اور یہی راشٹریہ سیوک سنگھ بی جے پی کی روحانی ماں ہے۔ اب نریندر مودی کی مشکل یہ بھی ہے کہ اس کی ریٹنگ یا مقبولیت خاصی نیچے چلی گئی ہے‘ لہٰذا ہندتوا کا سیاسی استعمال اس کی مجبوری بن گیا ہے۔
ہندتوا دراصل ہندو نیشنلزم کا دوسرا نام ہے اور ہندو نیشنلزم روایتی طور پر اعلیٰ ذات کے ہندوؤں یعنی برہمن سماج کے زیر اثر رہا ہے۔ یہ لوگ مسلمانوں اور کرسچین آبادی کے بارے میں کہتے ہیں کہ دونوں مذاہب والے انڈیا میں فارنر یا اجنبی ہیں‘ ان کے مقدس مقامات سب کے سب انڈیا سے باہر ہیں۔ بات یہیں نہیں رک جاتی ہندوتوا کے نزدیک دلت یعنی نیچی ذات والے بھی واقعی نیچ ہیں۔ گویا کہ انڈیا میں حکم صرف برہمنوں کا چلنا چاہئے جو کل آبادی کا بیس فیصد ہیں۔ یہ سوچ جواہر لعل نہرو کی آرا سے بہت مختلف ہے‘ ابوالکلام آزاد کے افکار سے بہت دور ہے‘ حتیٰ کہ انڈین دستور میں دیئے گئے اصولوں سے بھی دور ہے۔ گویا کہ پچھلے ستر سالوں میں انڈیا نے سیاسی افکار اور حقائق کے حوالے سے خاصی معکوس ترقی کی ہے۔ اجتماعیت (Pluralism) جمہوریت کی جان ہے یعنی سب برابر کے سیاسی حقوق رکھتے ہیں‘ رنگ و نسل اور مذہب ان سیاسی حقوق کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتے۔ آج کے انڈیا پر ہندوتوا کا بھوت سوار کیا جا رہا ہے اور اگر انڈیا میں مختلف پارٹیوں کا ووٹ بینک دیکھا جائے تو پچھلے دو عشروں میں بی جے پی کا ووٹ بینک بتدریج بڑھا ہے۔
پاک بھارت تعلقات میں کارگل کی جنگ اور ممبئی کا 2008 کا واقعہ پاکستان مخالف لابی کو مضبوط بنانے میں مددگار ثابت ہوئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پچھلے تین انتخابات میں پاکستان میں انڈیا مخالف نعرے سننے میں نہیں آئے‘ جبکہ انڈیا میں پاکستان مخالف نعرہ ووٹوں میں اضافہ کرتا ہے۔ صورت حال خاصی پیچیدہ ہے اور اسے سمجھنے کے لئے خاصی کوشش درکار ہے۔
میں خود انڈیا کے ساتھ امن کا حامی رہا ہوں۔ اب جنگوں کا زمانہ گیا۔ یہ دور تجارت ترقی اور تواصل (Connectivity) کا زمانہ ہے۔ سی پیک کی راہداری کے علاوہ ایک اور راہداری روس اور یورپ تک بن سکتی ہے۔ اس سے برصغیر کے عوام کو بہت فائدہ ہو گا۔ تجارت جنگوں کو روکتی ہے اور امن کے امکانات کو مضبوط بناتی ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ پٹھان کوٹ ہو یا پلوامہ انڈیا فوراً بغیر کسی ثبوت کے الزام پاکستان پر لگا دیتا ہے۔ پاکستان کو عالمی برادری میں تنہا کرنا انڈیا کا واضح نصب العین ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ پاکستان میں انڈیا کی خاصی بڑی لابی ہوتی تھی۔ یہ لوگ کہتے تھے کہ انڈیا خطے میں امن چاہتا ہے‘ مگر مودی سرکار کے آنے سے حالات بدل گئے۔ اب امن کی آشا والے بیک فٹ پر چلے گئے ہیں۔ میں خود اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ انڈیا خطے میں امن ضرور چاہتا ہے‘ مگر اپنی شرائط پر۔ اگر آج پاکستان کشمیر کو بھول جائے اور انڈیا کی ہر بات پر یس سر کہنا شروع کر دے تو معاملات بڑی حد تک ٹھیک ہو جائیں گے۔ انڈیا چاہتا ہے کہ پاکستان بنگلہ دیش اور بھوٹان بن جائے‘ لیکن اُس صورت میں پاکستان کو اپنا ایٹمی پروگرام بھی رول بیک کرنا ہو گا اور سی پیک پر بھی نظرثانی کرنا ہو گی اور ایسا ممکن نہیں ہو سکتا۔ وہ جو انڈیا کی حمایت کرنے والے بڑے ہی اعتماد سے کہا کرتے تھے کہ خطے میں امن دشمن صرف پاکستان ہے‘ ان کا بیانیہ خاصا کمزور پڑ گیا ہے۔ اب وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں: آپ ایک قدم ہماری طرف آئیں‘ ہم دو قدم آپ کی طرف آئیں گے۔ مگر انڈیا کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہیں آتا۔
پلوامہ کے واقعے کے بعد بھارتی انتہا پسندوں کا چہرہ میں نے خود قریب سے دیکھا ہے۔ یہ لوگ بغیر کسی ثبوت کے اس حملے کا پورا ملبہ پاکستان پر ڈال رہے ہیں۔ جاوید اختر اور شبانہ اعظمی نے کراچی کا وزٹ منسوخ کر دیا۔ یہ جوڑا خود انتہا پسند نہیں‘ مگر انہیں پتا ہے کہ اگر پاکستان گئے تو بھارت میں کوئی جینے نہیں دے گا۔ نوجوت سنگھ سدھو نے کہہ دیا کہ اگر پاکستان میں چند دہشت پسند موجود ہیں تو کیا ہم سارے دیش کو بُرا کہہ دیں؟ اتنی بات کرنی تھی کہ پورا انڈین میڈیا سدھو کا دشمن ہو گیا۔ ایک ٹی وی چینل نے اُسے اپنے کامیڈی شو سے نکال دیا۔ پاکستان کی دو رکنی شوٹنگ ٹیم نے عالمی مقابلوں کے سلسلے میں دہلی جانا تھا‘ انہیں ویزے نہیں دیئے گئے۔
فاروق عبداللہ نے کہہ دیا کہ کشمیر کا مسئلہ بندوق سے حل نہیں ہو گا اور ہم ہر بات کا الزام پاکستان پر نہیں دھر سکتے‘ تو پورا میڈیا ان کے پیچھے پڑ گیا۔ کچھ ایسی ہی صورت حال محبوبہ مفتی اور برکھا دت کے ساتھ بھی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں حق بات کہنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ میں نے خود ٹویٹر پر کشمیریوں کے حقوق کی بڑے سلیقے سے بات کی‘ اور بارڈر کے اُس طرف سے بے نقط سننا پڑیں۔ مثلاً میں نے لکھا کہ کشمیر کشمیری عوام کا ہے‘ وہی اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ جواب ملا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے‘ باقی تمام ریاستوں کی طرح کشمیر پر پہلا حق انڈین یونین کا ہے اور بعد میں کشمیری عوام کا۔ ایک صاحب بولے کہ کشمیری کھاتے بھی انڈیا کا ہیں اور گالیاں بھی انڈیا کو دیتے ہیں۔ انڈیا میں متعدد یونیورسٹیوں میں کشمیری طلبا پر حملے ہوئے ہیں۔ کئی ایک نے سکھ گردواروں میں چھپ کر جان بچائی۔ جے پور کی جیل میں ایک پاکستانی قیدی کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ جب قیدی کو مارا گیا تو جیل کا عملہ کہاں تھا؟ صاف ظاہر ہے کہ پاکستان مخالف جرائم میں انڈین حکومت شامل اور شریک ہے۔ بی جے پی کو ہر صورت میں الیکشن جیتنا ہے۔ اسے دسمبر 2018 میں صوبائی انتخاب میں پانچ ریاستوں میں ہونے والی مکمل شکست کا سوچ کر خوف آ رہا ہے۔ 
بی جے پی نے 2014 میں سرتوڑ کوشش کی کہ کشمیر میں اسے اکثریت مل جائے‘ اور وہ چند ہم خیال پارٹیوں کو ساتھ ملا کر انڈین آئین کے آرٹیکل 370 میں ترمیم کر سکے‘ لیکن بی جے پی کا یہ خواب ادھورا ہی رہا۔
پلوامہ کے واقعے کے بعد امریکہ اور فرانس نے فوراً انڈیا کے بیانیے کی تائید کی۔ بصورتِ مجموعی بھارت پاکستان کو تنہا نہیں کر سکا؛ البتہ پاکستان نے بھارت کو عالمی برادری میں تنہا ضرور کر دیا ہے۔ انڈیا میں موجود سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے صاف کہا کہ جب تک واضح ثبوت نہ ہو پاکستان کو اس واقعے کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ پلوامہ واقعہ کے بعد لوگ ایک دوسرے سے یہ سوال پوچھ رہے تھے کہ نریندر مودی اپنی سبکی مٹانے کے لئے اور ووٹ حاصل کرنے کے لئے کیا پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے؟ میرا جواب نفی میں تھا کیونکہ میرے خیال میں کوئی بھی سرجیکل سٹرائیک بھارت کو الٹی بھی پڑ سکتی تھی۔ بھارتی طیاروں کی جانب سے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزیوں اور اس کے نتیجے میں سامنے آنے والی صورتحال نے میرا موقف سچ ثابت کر دکھایا ہے۔ پھر اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ دونوں ممالک ایٹمی ہتھیار رکھتے ہیں۔ اگر محدود جنگ بھی ہوئی تو بیرونی سرمایہ کار انڈیا سے بھاگنے کا سوچے گا۔ ویسے بھی روایتی جنگ کچھ آؤٹ آف فیشن ہو گئی ہے۔ اب چومکھی غیر روایتی جنگ کا زمانہ ہے‘ جسے ففتھ جنریشن وار بھی کہتے ہیں۔ اس قسم کی جنگ میں معاشی اور ثقافتی ہر قسم کے حربے استعمال کئے جاتے ہیں۔ یہ جنگ نفسیاتی سطح پر بھی لڑی جاتی ہے اور سوشل میڈیا پر بھی۔ بھارت پاکستان کے خلاف آبی جارحیت بھی کر سکتا ہے‘ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بھارت پاکستان آنے والے تمام دریاؤں کا پانی روک سکتا ہے وہ زمینی حقائق سے واقف نہیں۔ اگر بھارت جہلم اور چناب کا پورا پانی روکتا ہے تو جموں اور کشمیر زیر آب آ جائیں گے؛ البتہ بھارت مارچ میں پاکستان کے پانی میں کمی کر سکتا ہے‘ جب گندم کی فصل کو آخری پانی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں