"JDC" (space) message & send to 7575

عرب سپرنگ قصہ ٔپارینہ؟

عرب سپرنگ یا بہار نوجوانوں کی تحریک تھی جو بظاہر ختم ہو چکی ہے۔ یہ نوجوان تعلیم یافتہ تھے لیکن ان میں سے اکثر بے روزگار تھے۔ وہ اپنی آرا کا آزادی سے اظہار کرنا چاہتے تھے لیکن بوجوہ ایسا ممکن نہ تھا۔ پاکستان میں ہم اپنے دل کی بھڑاس آزاد میڈیا کے ذریعے اور اپوزیشن کے راستے نکال لیتے ہیں لیکن عرب دنیا میں حکمرانوں نے حزب اختلاف کو پنپنے نہیں دیا۔ ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ عرب دنیا کی حالت ایک پریشر ککر والی تھی جہاں لاوا اندر ہی اندر پک رہا تھا مگر بھاپ کے باہر نکلنے کے راستے محدود تھے۔ دسمبر 2010ء میں تیونس میں ریڑھی پر سبزی بیچنے والے محمد بو عزیزی پر پولیس نے تشدد کیا تو اس نے خود سوزی کر لی اور پھر یہ آگ آناً فاناً پورے ملک میں پھیل گئی۔ ایک ماہ کے اندر زین العابدین بن علی کو ملک چھوڑ کر سعودی عرب میں پناہ لینا پڑی۔
عرب سپرنگ کا اولین مقصد سیاسی آزادی اور جمہوری اقدار کا فروغ تھا۔ عرب ممالک کی کل تعداد تقریباً بیس ہے۔ ویسے تو عرب لیگ کے ممبران کی تعداد بائیس ہے لیکن ان میں سے دو تین ایسے ہیں جہاں عربی زبان نہیں بولی جاتی۔ ان تمام ممالک میں سے صرف تیونس میں جمہوریت آئی ہے‘ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ عرب سپرنگ کی کامیابی صرف پانچ فیصد ہے جبکہ باقی عرب ممالک میں یا تو اس تحریک کو سختی سے دبا دیا گیا یا نوجوانوں کو سخاوت سے بے روزگاری الاؤنس دے کرخاموش کرا دیا گیا۔
عرب سپرنگ کے آغاز کو آٹھ سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ اُس وقت بھی جب کبھی میں عرب سفارت کاروں کے ساتھ بات چیت میں ''الربیع العربی‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتا تھا تو ہنس دیتے تھے۔ ان میں سے کئی یہ کہتے تھے کہ یہ مغربی ممالک کا چھوڑا ہوا شوشہ ہے جو دیرپا نہیں ہوگا اور بلبلے کی طرح پھٹ جائے گا ۔مصر میںعرب سپرنگ کو بری طرح دبا دیا گیا۔ وہاں کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ جمہوری حکومت کو ایک سال سے زیادہ برداشت نہ کر سکی اور آج کے مصر میں صدر حسنی مبارک کے عہدِ حکومت سے زیادہ پابندیاں ہیں۔ ملک سیاسی طور پر غیر مستحکم ہے۔ اقتصادی حالات بھی اتنے اچھے نہیں۔ مصر عرب دنیا میں اپنا مرکزی مقام کھو چکا ہے۔ شام میں جو تباہی ہوئی ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ 23ملین کے ملک میں گیارہ ملین بے گھر ہیں۔ لاکھوں مارے گئے کئی شہر ملبے کا ڈھیر لگتے ہیں۔ بے چارے شامی بڑی تعداد میں ترکی سے لے کر جرمنی تک دربدر پھر رہے ہیں لیکن بشار الاسد آرام سے اپنے تختِ اقتدار پر بیٹھا ہوا ہے۔ اس خاندان کو حکومت کرتے ہوئے پچاس سال ہونے کو ہیں لیکن وہ لیلیٰ اقتدار کا ہجر برداشت کرنے کو تیار نہیں۔
عرب سپرنگ کی ایک بڑی وجہ بھی یہی تھی کہ یہاں ڈکٹیٹر حکومت پر قبضہ تو کر لیتے‘لیکن جانے کا نام نہیں لیتے تھے۔ کرنل قذاقی نے لیبیا پر بیالیس سال حکومت کی‘ حسنی مبارک تیس سال مسندِ صدارت پر براجمان رہے‘ کچھ ایسی ہی صورت حال یمن میں بھی تھی۔ یہ سب لوگ جب اقتدار میں آئے تو ان کے نعرے بڑے ہی دلفریب تھے۔ کسی نے کہا کہ میں فلسطین کو آزاد کراؤں گا‘ کچھ حکمرانوں کا دعویٰ تھا کہ ہم معاشرے میں معاشی انصاف لائیں گے‘ عوام کو مقتدر کریں گے‘ قانون کی حکمرانی ہوگی لیکن ان میں سے زیادہ وعدے تشنہ تکمیل ہی رہے۔ شام میں حافظ الاسد نے وفات پائی تو ان کے بیٹے بشار الاسد نے اقتدار سنبھال لیا۔ مصر میں صدر حسنی مبارک اپنے بیٹے جمال مبارک کو اپنے جانشین کے طور پر تیار کرنے لگے۔ لیبیا میں سیف الاسلام قذافی کراؤن پرنس کا رول ادا کرنے لگے۔
نوجوانوں نے سوچا ہوگا کہ یہ حکمران پرامن طریقے سے اقتدار نہیں چھوڑیں گے‘ لہٰذا مظاہرے اور دھرنے ضروری ہیں لیکن آج کا ہمارا سوال یہ ہے کہ عرب سپرنگ قصہ‘پارینہ بن چکا ہے یا نہیں؟ یہ تو ہم دیکھ چکے کہ اکثر ممالک میں عرب سپرنگ کو سختی سے دبا دیا گیا ہے۔ شام اور مصر کے شہروں میں گلی کوچوں میں بہت لوگ مارے گئے۔ آج کے مڈل ایسٹ میں کئی جگہ قبرستان والی خاموشی ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس خاکستر میں کچھ چنگاریاں اب بھی موجود ہیں مثلاً سوڈان کو لے لیں‘ وہاں کئی سالوں سے جنرل عمر البشیر حکومت کر رہے تھے۔ جب سوڈان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے محسوس کیا کہ عمر البشیر غیر مقبول ہو چکے ہیں تو انہیں کوئی دو تین ماہ قبل اقتدار چھوڑنے کو کہا گیا اور وہ حکمرانی چھوڑنے پر آمادہ ہو گئے۔ مصر میں بالکل ایسا ہی 2011ء میں صدر حسنی مبارک کے ساتھ ہوا تھا۔ جب قاہرہ کے میدان التحریر میں نوجوانوں کے مظاہرے تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے تو داخلی سکیورٹی کے چیف جنرل عمر سلیمان نے انہیں مشورہ دیا کہ آپ اقتدار سے علیحدہ ہو جائیں۔ کئی مرتبہ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ مائنس ون کا فارمولہ استعمال کرتی ہے لیکن جمہوریت پھر بھی نہیں آتی۔ یادش بخیر پاکستان میں جنرل یحییٰ خان نے صدر ایوب خان کے ساتھ کچھ ایسا ہی سلوک کیا تھا۔
بات سوڈان کی ہو رہی تھی۔ عمرالبشیر اقتدار سے علیحدہ ہوئے تو جنرل عبدالفتاح البرھان نے عنانِ حکومت سنبھال لی مگر خرطوم میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ محدود مدت کے لئے ایک عبوری حکومت بنائی جائے اور اس عبوری حکومت کا سربراہ سویلین ہونا چاہئے۔ کئی ہفتے گزر گئے مگر کوئی قابلِ عمل فیصلہ نہ ہو سکا۔ پچھلے دنوں مظاہرے پرتشدد ہو گئے۔ سکیورٹی فورسز اور مظاہرین میں جھڑپیں ہوئیں۔ دریائے نیل کا پانی خون سے سرخ ہو گیا۔ اب مظاہرین یہ بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ جنرل عمرالبشیر پر کرپشن کا مقدمہ چلایا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سوڈان کے عوام کا موجودہ سیاسی شعور بڑی حد تک عرب سپرنگ کی بدولت ہے۔ کئی عرب حکمران یہ بھول رہے تھے کہ وہ اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں ۔اب الجزیرہ ٹی وی کئی معاملات پر کھل کر بحث کرتا ہے۔ لندن سے مشہور عرب جرنلسٹ عبدالباری عطوان ''القدس العربی‘‘ کے نام سے روزنامہ شائع کرتے ہیں جس میں عرب حکمرانوں کی کرپشن کے قصے اکثر موضوعِ سخن ہوتے ہیں۔ عرب میڈیا پر کتنی ہی حکومتی پابندیاں کیوں نہ ہوں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے تازہ ترین خبریں لوگوں تک آتی رہیں گی۔
اور اب چلتے ہیں الجزائر جہاں اس سال کے آغاز میں صدر عبدالعزیز بوطفلیقہ نے فیصلہ کیا کہ وہ پانچویں مرتبہ صدارتی انتخاب لڑیں گے۔ اس اعلان کے بعد بہت سے لوگ سڑکوں پر آ گئے اور کھل کر اس فیصلے کی مخالفت کی۔ نتیجہ یہ ہے کہ الجزائر سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو گیا۔ عرب عوام کی اکثریت سیاسی عدم استحکام نہیں چاہتی کیونکہ سیاسی عدم استحکام اقتصادی صورت حال پر بھی لامحالہ منفی اثرات چھوڑتا ہے۔ عرب عوام یہ بھی جانتے ہیں کہ بغاوت کا ذرا سا تاثر بھی حکومتی غیظ و غضب کو دعوت دیتا ہے‘ بیرونی مداخلت کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں جیسا کہ ہم نے لیبیا میں دیکھا اور آج کے شام میں تو روس ‘ایران‘ امریکہ‘ ترکی سمیت سب ملوث نظر آتے ہیں۔ لیبیا عملاً تقسیم ہو چکا ہے اور یمن کی آدھی آبادی مناسب خوراک سے محروم ہے۔ سب سے زیادہ نقصان فلسطین کے تنازعہ کا ہوا ہے جو ان حالات کی وجہ سے طاقِ نسیان میں چلا گیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ آیا عرب سپرنگ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو چکا یا اس کے دوبارہ ظہور کے امکانات ہیں؟ میرے اندازے کے مطابق اگر عرب دنیا میں بتدریج مناسب سیاسی اور اقتصادی اصلاحات نہ ہوئیں تو باشعور عوام دوبارہ کھڑے ہو سکتے ہیں۔ آج نہیں تو کچھ سالوں کے بعد۔ عرب حکمرانوں کو چاہئے کہ نوشتۂ دیوار پڑھ لیں اور متبادل قیادت کو آنے دیں۔ اگر اپوزیشن کے لوگ جمہوری انتخابات کے ذریعے پارلیمان تک آئیں گے تو وہ مین سٹریم میں داخل ہو جائیں گے‘ پرتشدد کارروائیوں سے گریز کریں گے۔
پچھلے دنوں ایک سیمینار میں مجھے اسی موضوع پر بولنے کی دعوت دی گئی۔ لیکچر ختم ہوا تو ایک صاحب بولے کہ عرب سپرنگ سو فیصد مغربی سازش تھی ‘میں نے جواب دیا کہ میں اس رائے سے متفق نہیں ‘وہ بولے کہ کرنل قذافی کو تو قتل کرا دیا گیا لیکن خلیجی حکمرانوں کو چھوا تک نہیں گیا۔ یہ ریمارک میرے ذہن میں کئی سوال چھوڑ گیا۔ اس پر مفصل گفتگو پھر کبھی سہی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں