"JDC" (space) message & send to 7575

افغان امن کو درپیش مسائل

آج کل افغان امن پروسیس تعطل کا شکار ہے۔ قطر میں دس ماہ کے عرصے میں مذاکرات کے نو راؤنڈ ہوئے۔ اس سے نہ صرف طالبان کی امریکہ سے براہ راست مذاکرات کی دیرینہ خواہش پوری ہوئی بلکہ کئی اصولی نکات پر سمجھوتہ بھی ہو گیا۔ طالبان نے امن کے لئے رضا مندی کا اظہار کیا اور امریکی اپنی بیشتر فوج واپس بلانے پر تیار ہو گئے۔ طالبان نے اس بات کی بھی ضمانت دی کہ آئندہ القاعدہ یا داعش کی طرح کی کسی تنظیم کو افغانستان میں پناہ نہیں ملے گی۔
8 ستمبر کو طالبان کے وفد اور صدر ٹرمپ کے مابین کیمپ ڈیوڈ میں ایک خفیہ میٹنگ ہونا تھی۔ اس میٹنگ سے ایک روز قبل کابل میں خود کش حملہ ہوا۔ بھرے بازار میں بارود بھری کار ایک امریکی ٹرک سے جا ٹکرائی اور امریکہ کی انٹیلی جنس کا ایک سارجنٹ موقع پر ہی مارا گیا۔ طالبان نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ صدر ٹرمپ نے خفیہ ملاقات منسوخ کر دی۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ جو لوگ اب ایسی حرکتیں کر رہے ہیں وہ بعد میں کیا کریں گے۔ بالکل ایسے ہی خدشات کا اظہار امریکی عسکری ادارے بھی کر رہے ہیں اور بار بار صدر ٹرمپ سے کہہ رہے ہیں کہ افغانستان سے فوج نکالنے میں جلدی نہ کریں مگر امریکی صدر کا خیال ہے کہ فوج کے انخلاء سے انہیں 2020 کے الیکشن میں فائدہ ہو گا کیونکہ امریکی ووٹر اس لا متناہی جنگ سے تنگ آ چکے ہیں۔
ماضی قریب میں افغانستان میں طالبان کی قوت اور اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا ہے۔ اب وہ رعب اور دبدبے کے ساتھ کابل حکومت کے ساتھ فائنل مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنی ٹویٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ طالبان دہشت گردی کے ذریعے اپنی مذاکراتی پاور بڑھانا چاہتے ہیں۔
کابل حکومت نے اگلے روز ایک عجیب بیان دیا۔ حکومتی ترجمان صدیق صدیقی کا کہنا تھا کہ قطر سے افغانستان میں دہشت گردی کرائی جا رہی ہے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ کابل حکومت نے بہت پہلے امریکی لیڈر شپ سے کہہ دیا تھا کہ طالبان سے بات کرنے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہو گا۔ اس بیان کا کوئی سر پیر نظر نہیں آیا تھا۔ قطری حکومت ایک عرصے سے افغانستان میں امن کے لئے کوشش کر رہی ہے۔ وہ بھلا دہشت گردی کیوں پھیلائے گی۔ یا کسی اور کو ایسا کیوں کرنے دے گی۔
مجھے اُسی شام ایک عربی چینل نے اس موضوع پر مباحثے کے لئے دعوت دی۔ میں نے کہا کہ یہ ایک الزام ہے جس کا کوئی ثبوت ہمارے سامنے نہیں آیا۔ دوسرے حکومت کابل نے خود ہی کہہ دیا ہے کہ وہ شروع سے دوحہ مذاکرات کے بارے میں تحفظات رکھتی تھی۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ بات چیت میں موجودہ تعطل سے خوش ہے۔ اس کے علاوہ مجوزہ معاہدے کے چند پوائنٹس جو انٹر نیشنل میڈیا نے معلوم کئے ہیں ان کے مطابق کابل میں ایک عبوری حکومت کا قیام معاہدے میں شامل ہے اور یہی عبوری حکومت اگلا الیکشن بھی کرائے گی۔ چنانچہ اگر اس معاہدے پر دستخط ہو جاتے ہیں تو اشرف غنی کے دوبارہ منتخب ہونے کا چانس ختم ہو جائے گا۔ لہٰذا اس معاہدے کا جنم سے پہلے ہی اسقاط کرانا یا اسے ختم کروا دینا کابل حکومت کو سوٹ کرتا ہے۔
ظاہر ہے کہ واشنگٹن میں افواج کے جلد انخلا پر اختلافات ہیں۔ اسی طرح کابل میں اس سلسلے میں کوئی یکسوئی نہیں۔ اشرف غنی حکومت اور طالبان اس معاملے میں دو مختلف آرا رکھتے ہیں۔ بلکہ مجھے تو لگتا ہے کہ طالبان کے فوجی کمانڈر اور مذاکرات کنندگان کی پالیسی بھی الگ الگ ہے‘ ورنہ کیمپ ڈیوڈ ملاقات سے ایک دن قبل کابل میں خود کش حملہ نہ ہوتا۔
کابل حکومت کے بیان کی ایک تاویل یہ بھی آئی ہے کہ مذاکرات میں شامل طالبان دوحہ قطر سے حملوں کے آرڈر بھی ایشو کر رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ملا عبدالغنی برادر اور ان کے ساتھی ڈبل گیم کھیل رہے ہیں۔ میں اس رائے سے متفق نہیں ہوں۔ عرب ممالک میں مخابرات کا نظام خاصا فعال ہے۔ اگر دوحہ میں بیٹھے طالبان ایسی حرکت کرتے تو قطری حکومت انہیں بیک بینی و دو گوش اپنے ملک سے فارغ کر دیتی۔ بس یوں سمجھ لیں کہ کابل حکومت کا بیان سخت جھنجھلاہٹ کا نتیجہ ہے۔
زلمے خلیل زاد افغان مصالحتی مشن کے لئے امریکی حکومت کے سپیشل نمائندے ہیں۔ وہ افغان نژاد امریکی ہیں لہٰذا اس مسئلے پر ان کی نظر گہری ہے۔ وہ سفارت کاری کا وسیع تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ دوحہ میں مذاکرات کے نو راؤنڈ بھی انہی کی زیر نگرانی ہوئے۔ اب امریکی حکومت نے طالبان سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں واشنگٹن واپس بلا لیا ہے۔ زلمے خلیل زاد اُس وقت بھی طالبان سے مذاکرات کے حق میں تھے جب 1996 میں طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تھا۔ ان کے مخالف کہتے ہیں کہ زلمے خلیل زاد طالبان کے بارے میں خوش فہمی کا شکار ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ طالبان بڑے نیک نیت مجاہدین ہیں اور گزشتہ سالوں میں ان کی سوچ میں واضح تبدیلی آئی ہے جبکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ طالبان اب بھی پرانی سوچ رکھتے ہیں۔ وہ افغانستان سے بھی ڈکٹیٹر شپ لائیں گے اور ڈنڈے کے زور پر اپنے دقیانوسی افکار پورے ملک پر لاگو کریں گے۔ میرے خیال میں حقیت بین بین ہے۔ مثلاً اب طالبان کی اکثریت تعلیم نسواں کے خلاف نہیں؛ البتہ اگر وہ حکومتی کنٹرول سنبھالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو بھی مخلوط تعلیم کی اجازت نہیں دیں گے۔
حال ہی میں میری ملاقات افغان امور کے ایک ماہر سے ہوئی جو اکثر وہاں جاتے رہتے ہیں۔ ان کی رائے میں کابل حکومت کی رٹ بہت کمزور ہے‘ اکثر وزرا اور مشیروں کے خاندان دوسرے ممالک میں ہیں کیونکہ یہ دوہری شہریت کے حامل ہیں۔ افغان اشرافیہ کے اقتصادی مفادات وار اکانومی سے جُڑے ہوئے ہیں۔ کابل میں ان لوگوں کے پاس مختلف اشیا کی سپلائی کے ٹھیکے ہیں۔ کئی لوگوں نے اپنے بڑے بڑے گھر فارنرز کو دیئے ہوئے ہیں اور فارن کرنسی میں کرایہ وصول کر رہے ہیں۔ یہ لوگ افغانستان میں تبدیلی کے خلاف ہیں۔
افغانستان کے مستقبل کی یوں تو کئی صورتیں ہو سکتی ہیں لیکن دو ممکنہ سیناریو پاکستان کے لئے اچھے نہیں ہوں گے۔ ایک تو یہ ہے کہ موجودہ صورت حال کچھ عرصہ ایسے ہی چلے اور پھر مزید بگڑ کر خانہ جنگی کی طرف چلی جائے۔ اس صورت میں مزید افغان مہاجرین پاکستان آئیں گے۔ پاک افغان تجارت پر منفی اثر پڑے گا۔ دوسرا ممکنہ سیناریو افغانستان پر دوبارہ طالبان کی حکومت ہے۔ ایسی صورت میں ٹی ٹی پی دوبارہ فعال ہو سکتی ہے اور یہ پاکستان کے لئے موجودہ حالات میں اچھا نہیں ہو گا۔
افغانستان میں امن تب آئے گا جب تمام دھڑوں کو اقتدار میں حصہ بقدر جُثہ ملے گا اور ایسا جمہوریت ہی میں ممکن ہے جیسا کہ پاکستان میں تحریک انصاف مرکز اور دو صوبوں میں اقتدار میں ہے جبکہ پیپلز پارٹی ایک صوبے میں حکومت کر رہی ہے اور مسلم لیگ ایک پاور فل اپوزیشن پارٹی ہے۔ اسی قسم کی جمہوری پاور شیئرنگ افغانستان میں چل سکتی ہے۔
افغان امن کو کئی مسائل درپیش ہیں۔ اس پر کئی ایک سوالیہ نشان ہیں۔ 24 ستمبر والے الیکشن ہوں گے کہ نہیں۔ صدر اشرف غنی کا مستقبل کیا ہے۔ امریکہ اور طالبان کے مابین مذاکرات دوبارہ کب شروع ہوں گے۔ کھوئے ہوئے اعتماد کی بحالی میں بہرحال وقت لگے گا۔ میری رائے ہے کہ آخری یعنی 7 ستمبر والا خود کش دھماکہ ایک کی غلطی تھی۔ دوحہ میں حاصل کئے گئے فوائد اور محنت پر فی الوقت پانی ضرور پھر گیا ہے۔ خدا کرے کہ امریکہ طالبان مذاکرات جلد بحال ہوں اور افغانستان میں امن آئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں