"JDC" (space) message & send to 7575

سدا بہار سفارت کار

چند روز پہلے حکومت نے ریٹائرڈ سفیر منیر اکرم کو اقوام متحدہ میں پاکستان کا مستقبل مندوب متعین کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ ڈاکٹر ملیحہ لودھی کی جگہ لے رہے ہیں۔ منیر اکرم پاکستان کے اُن لیڈنگ سفارت کاروں میں سے ایک ہیں جن کی تربیت آغا شاہی مرحوم نے خود کی تھی۔ 1967ء میں فارن سروس میں آئے اور 2007ء میں ریٹائر ہوئے۔ ان کی ٹوٹل چالیس سالہ سفارتی سروس میں سے پینتیس سال ملٹی لیٹرل سفارت کاری میں صرف ہوئے۔ یعنی وہ نیو یارک، جنیوا اور اسلام آباد فارن آفس میں اقوام متحدہ اور دیگر عالمی تنظیمات سے متعلق رہے۔ اس طرح سے انہیں ملٹی لیٹرل سفارت کاری کا گرو کہا جا سکتا ہے۔
موصوف ایک عرصے سے پاکستان کے ایک انگلش روزنامہ میں کالم لکھ رہے ہیں۔ شنید ہے کہ کئی حکومتیں ان سے سفارتی مشورے لیتی ہیں۔ اپنے کالموں میں وہ لگی لپٹی نہیں بلکہ صاف اور سیدھی بات کرتے ہیں۔ عالمی، سیاسی منظر نامے پر ان کی گہری نظر رہتی ہے۔ سٹریٹیجک تھنکر ہیں یعنی آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں اپنی رائے دیتے رہتے ہیں۔ پاک چین دوستی کی افادیت کے قائل ہیں۔ پاک انڈیا تعلقات کے حوالے سے ڈٹ جانے کے قائل ہیں۔ امریکہ اور دیگر اہم ممالک سے بنا کر رکھنے کا بھی پاکستانی حکام کو اکثر مشورہ دیتے ہیں۔ چونکہ ایک عرصے سے امریکہ میں رہ رہے ہیں لہٰذا وہاں کی سیاست کو خوب سمجھتے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ وزیر اعظم عمران خان جب جولائی میں امریکہ گئے تھے تو ایمبیسیڈر منیر اکرم سے خصوصی طور پر ملے تھے۔
مجھے پندرہ سولہ سال پہلے کا زمانہ یاد آ رہا ہے۔ منیر اکرم تب بھی نیو یارک میں دائمی مندوب تھے پاکستان کے۔ اقوام متحدہ کی اصلاحات کا موضوع تب زبان زد خاص و عام تھا۔ کئی طرح کی اصلاحات زیر غور تھیں لیکن پاکستان کے لیے تشویش ناک پہلو یہ تھا کہ انڈیا سلامتی کونسل کا دائمی ممبر بننے کے لیے سر توڑ کوشش کر رہا تھا۔ انڈیا کے علاوہ جرمنی، جاپان اور برازیل بھی دائمی رکنیت کے امیدوار تھے۔ یہ چاروں ممالک اپنے مشترکہ مؤقف کا بھرپور پرچار کر رہے تھے کہ آج کی دنیا 1945ء سے مختلف ہے۔ کئی نئے ملک پوری قوت کے ساتھ عالمی منظر نامے پر ابھرے ہیں۔ عالمی تنظیم اگر ان کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے تو زیادہ مضبوط ہو جائے گی۔ انڈیا نے امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی حمایت بھی حاصل کر لی تھی۔ عام خیال تھا کہ ووٹنگ ہوئی تو روس کا ووٹ بھی انڈیا کے پلڑے میں جائے گا۔ صرف چین کو انڈیا کے حوالے سے تحفظات تھے۔ لیکن برملا اظہار چین نے بھی نہیں کیا تھا۔
ان نا مساعد حالات میں ایمبیسیڈر منیر اکرم نے پاکستان کا کیس بڑی ذہانت اور محنت سے لڑا۔ سب سے پہلے ہم خیال ملکوں کو اکٹھا کیا گیا۔ ان ممالک میں اٹلی، سپین، جنوبی کوریا، پاکستان اور ارجنٹائن وغیرہ شامل تھے۔ یہ سب وہ ملک تھے جو چار امیدوار ممالک کی دائمی رکنیت کے حوالے سے تحفظات رکھتے تھے۔ اس گروپ کو پہلے کافی کلب کا نام دیا گیا۔ بعد میں اسے ہم خیال اتحاد (Uniting for Consensus) کہا جانے لگا۔ اب اس گروپ میں کئی اور ممالک بھی شریک ہو چکے ہیں۔
اس گروپ کا استدلال خاصا قوی رہا ہے۔ ان ممالک کا یہ بیانیہ تھا کہ اقوام متحدہ میں پہلے ہی مساوات کی کمی ہے۔ پانچ ممبر ممالک کے پاس ویٹو پاور ہے‘ جس کی وجہ سے وہ امتیازی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ ویٹو پاور ایک طرح سے فیصلہ سازی میں بڑی رکاوٹ بھی ہے کیونکہ جب تک یہ پانچ ممالک کسی تجویز پر اتفاق رائے نہیں کر پاتے‘ بات آگے بڑھ ہی نہیں سکتی۔ اگر ان امتیازی حیثیت والے ممالک میں چار مزید ملک شامل کر دیئے جائیں تو تنظیم خاصی غیر جمہوری ہو جائے گی۔ دوسری دلیل یہ تھی کہ اصلاحات کا معاملہ خاصا حساس ہے۔ اس کے لیے مکمل اتفاق رائے ضروری ہے۔ پاکستان کی اضافی دلیل یہ تھی کہ انڈیا نے کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہیں کیا‘ لہٰذا اسے اس تنظیم میں اعلیٰ مقام تفویض کرنا بہت غیر منطقی بات ہو گی۔ انڈیا کی سلامتی کونسل کی دائمی رکنیت کی تڑپتی خواہش کو اب تک پورا نہ ہونے دینا پاکستانی سفارت کاری کی کامیابی ہے اور اس میں سب سے اہم رول منیر اکرم صاحب کا ہے۔
جیسے ہی منیر اکرم صاحب کا نام اناؤنس ہوا ایک مخصوص لابی حرکت میں آ گئی۔ سوشل میڈیا پر شور مچ گیا۔ ایک پرانا سکینڈل جھاڑ پونچھ کر پھر سے اجاگر کیا گیا۔ مجھے یقین ہے کہ اس تمام پروپیگنڈا کے پیچھے انڈین لابی ہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ منیر اکرم جب یو این میں چارج سنبھالیں گے تو کشمیر کے لئے آوازیں پھر سے بلند ہوں گی۔ منیر اکرم صاحب کو بھارتی سفارت کاروں کو دفاعی پوزیشن میں لانے کے گُر آتے ہیں۔ وہ ماضی میں بھی انہیں پریشان رکھتے تھے اور اب تو مقبوضہ کشمیر کے حالات دگرگوں ہیں اور عالمی سطح پر اس بات کا ادراک بھی ہے‘ لہٰذا منیر اکرم کا کام اور بھی آسان ہو جائے گا۔ مجھے اس بات کا ذاتی طور پر علم ہے کہ بھارتی سفارت کار اُن سے مرعوب بھی تھے مگر نام احترام سے لیتے تھے۔ میں نے معروف سابق بھارتی سفارت کار مانی شنکر ایّار سے منیر صاحب کے بارے میں تعریفی جملے سنے ہیں۔
لیکن یہ گمان کرنا بھی خام خیالی ہو گی کہ منیر صاحب اقوام متحدہ میں کشمیر پر کوئی بڑا فیصلہ کروا پائیں گے۔ اقوام متحدہ نے فلسطین اور کشمیر کے بارے میں کچھ نہیں کیا اور اگر ماضی میں کچھ کرنے کی کوشش بھی کی تو تجویز کو ویٹو کر دیا گیا۔ دو ماہ پہلے کشمیر پر بلایا گیا اجلاس بڑی پیش رفت یوں تھی کہ تقریباً پچاس سال بعد اقوام متحدہ میں کشمیر کے مسئلے پر بحث ہو رہی تھی‘ لیکن یہ ساری بات چیت غیر رسمی تھی۔ اجلاس کے بعد کوئی اعلامیہ بھی جاری نہیں ہوا۔ اقوام متحدہ کی پرفارمنس اگر کچھ ہے تو انٹرنیشنل اقتصادی تعاون کے فروغ کے حوالے سے ہے یا امن فوج کے مختلف شوریدہ حالت کے ممالک میں دستوں کے حوالے سے۔ باقی یہ ڈیبیٹنگ کلب (Debating Club) ہے جہاں تقریریں خوب ہوتی ہیں۔ منیر صاحب بھی بڑی مدلل اور شاندار تقریریں کرتے ہیں اور لوگ انہیں پورے انہماک سے سنتے ہیں‘ لیکن اقوام متحدہ میں ہر مندوب ووٹ اپنی حکومت کی ہدایات کے مطابق ہی دیتا ہے۔ لہٰذا پاکستان کو پوری دنیا میں سفارت کاری کو فعال بنانا ہو گا۔ 
نیو یارک سے سبکدوش ہونے والی پاکستانی مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے اپنا کام پوری محنت سے کیا ہے۔ وہ پاکستان کا سوفٹ امیج اجاگر کرنے میں خاصی کامیاب نظر آئیں‘ ورنہ انڈیا والے ہر ملک کو باور کرانے میں لگے ہوئے تھے کہ پاکستانی صرف دہشت گردی کی سرپرستی کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ اور منیر اکرم صاحب میں پرانی دوستی ہے اور احترام کا رشتہ بھی۔ وہ جب 2014 میں نیو یارک میں متعین ہوئیں تو ملٹی لیٹرل سفارت کاری سے نا بلد تھیں اور منیر اکرم صاحب کو کنسلٹ کرتی رہتی تھیں۔ ان کی موجودہ رخصتی کے حوالے سے مجھے جو بات ناگوار گزری وہ حکومت کی ٹائمنگ تھی۔ اقوام متحدہ کا سالانہ اجلاس ستمبر سے دسمبر تک چلتا ہے۔ سربراہان کی تقاریر کے بعد مختلف کمیٹیوں کے اجلاس ہوتے ہیں‘ جو ہفتوں چلتے ہیں‘ اگلے سال کا لائحہ عمل تیار کیا جاتا ہے۔ حکومت کو معلوم ہونا چاہئے کہ ٹیسٹ میچ کے دوران کپتان کو بدلا نہیں جاتا۔
منیر اکرم صاحب مجھ سے ایک سال بڑے ہیں۔ اس عمر میں ہم کالم لکھ سکتے ہیں‘ گولف بھی کھیل سکتے ہیں‘ اللہ اللہ بھی کر سکتے ہیں لیکن کوئی بڑی ذمہ داری بھاری لگتی ہے۔ مجھے تشویش اس بات کی بھی ہے کہ حکومت کو وزارت خارجہ میں ایک بھی مناسب افسر نہیں ملا‘ جسے نیو یارک بھیجا جا سکے۔ جناب آغا شاہی نے اپنے زمانے میں متعدد افسر ٹرین کئے تھے۔ سب ایک سے ایک بہتر۔ وزارت خارجہ میں اب نوجوان منیر اکرم کیوں پیدا نہیں ہو رہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں