"JDC" (space) message & send to 7575

پنجاب کے دگرگوں حالات

آبادی کے لحاظ سے پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور رقبے کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر۔ زرعی اجناس اس زرخیز صوبے میں انواع و اقسام کی ہوتی ہیں۔ گندم‘ کپاس اور گنے کی پیداوار وافر مقدار میں ہوتی ہے۔ ملتان‘ فیصل آباد‘ لاہور سیالکوٹ‘ گوجرانوالہ انڈسٹری کے مراکز ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ اقتصادیات کے حوالے سے پنجاب پاکستان کا پاور ہاؤس ہے۔ اس بڑے صوبے کا دل بھی بڑا ہے۔ گزشتہ دس پندرہ سال میں لاہور کی پشتون آبادی میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ اب وہاں بھی شنواری ریسٹورنٹ نظر آتے ہیں۔ لاہور پاکستان کی سیاست کا دھڑکتا دل بھی ہے۔ ہر نیشنل لیول کی تحریک کی کامیابی میں لاہور والوں کی شمولیت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی بنیاد بھی لاہور میں رکھی گئی تھی اور پی ٹی آئی کا ٹیک آف بھی لاہور سے ہی ہوا تھا۔
پچھلے ایک سال سے لاہور سے اچھی خبریں کم کم ہی آ رہی ہیں۔ ساہیوال اور اوکاڑہ کے درمیان پولیس کے ہاتھوں معصوم لوگوں کا قتل ہو یا قصور میں پھول جیسے بچوں کے ساتھ درندہ صفت انسانوں کی زیادتی‘ ایک اپاہج قسم کے شخص صلاح الدین کا عمداً قتل ہو یا بوڑھی اماں کے منہ پر پولیس والوں کے طمانچے‘ ہمیں بار بار اپنے غیر مہذب ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ کہاں گئے وہ اعلیٰ و ارفع مقاصد جن کے لئے یہ ملک بنا تھا۔ کہاں گیا وہ رُول آف لا جو پی ٹی آئی کا ماٹو تھا۔
میں نے آج ہی لاہور میں اپنے ایک با خبر دوست سے ڈائریکٹ سوال کیا کہ پنجاب کے دگرگوں حالات کا ذمہ دار کون ہے؟ اُس کا جواب بھی ڈائریکٹ اور تیکھا تھا اور وہ تھا: وزیر اعظم عمران خان۔ میں تین مرتبہ تحریک انصاف کو ووٹ دے چکا ہوں‘ اس لئے مجھے عمران خان پر تیکھی تنقید اب بھی چبھتی ہے لہٰذا میں نے دوبارہ پوچھا کہ پنجاب کی بیڈ گورننس کا ذمہ دار کپتان کیسے ہوا؟ الٹا مجھے تلخ سوال سننا پڑا کہ پنجاب پر عثمان بزدار کو مسلط کس نے کیا ہے؟ یہ بات تو زبان زد عام ہے کہ عثمان بزدار سے معاملات چل نہیں رہے۔
پنجاب کی حکومت کو احسن طریقے سے چلانا آسان کام بھی نہیں۔ پاکستان کو عمومی طور پر اور پنجاب کو خاص طور پر سٹرانگ حاکم ہی چلا پائے ہیں۔ یہاں نواب کالا باغ‘ غلام مصطفی کھر یا شہباز شریف جیسے سخت گیر حاکم کامیاب ہوئے ہیں۔ عثمان بزدار کو سنا ہے کہ پنجاب بیوروکریسی کے چند شاطر افسر فرفر انگریزی بول کر شیشے میں اتار لیتے ہیں لہٰذا وسیم اکرم پلس کی اب تک پرفارمنس ویسی ہی ہے جیسی عمر اکمل کی حالیہ ٹی ٹونٹی میچوں میں تھی۔ ایسی صورت حال میں گیارہ کروڑ کے صوبے کا اللہ ہی حافظ ہے۔ تو پھر چہ عجب کہ پنجاب میں مسلم لیگ کی مقبولیت ختم نہیں ہوئی‘ باوجود اس کے کہ ان کے دامن پر دھبوں کی تعداد بھی بڑھ گئی ہے۔ لوگ صاف کہتے ہیں کہ کھاتے تھے مگر کام بھی کرتے تھے۔
شنید ہے کہ پنجاب حکومت میں اس وقت چار گروپ ہیں‘ ایک گروپ چودھری پرویز الٰہی کا ہے اور دوسرا چودھری سرور کا۔ تیسرا دھڑا جہانگیر ترین کا ہے اور چوتھا عثمان بزدار کا۔ یہ بھی سنا ہے کہ موخرالذکر گروپ سب سے کمزور ہے۔ اگر بات اس سے الٹ ہوتی تو کام چل سکتا تھا‘ لیکن نا معلوم وزیر اعظم نے کلب لیول کے ایک اناڑی پلیئر کو پنجاب جیسے مشکل صوبے کی کمان کیوں دے دی ہے؟ اگر عثمان بزدار کی بجائے چودھری پرویز الٰہی یا چودھری محمد سرور پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہوتے تو نظم و نسق کہیں بہتر چلتا کہ دونوں تجربہ کار ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی پنجاب کی وزارت عالیہ کی ایک کامیاب اننگز کھیل چکے ہیں‘ گو کہ ان کے صاحبزادے اور وہ خود بھی الزامات کی زد میں رہے۔ چودھری سرور کا پلس پوائنٹ یہ بھی ہے کہ برطانیہ کے پارلیمانی تجربے کے علاوہ ان کی شہرت بہت اچھی ہے۔ ان کا عمومی تاثر صادق اور امین والا ہے‘ لیکن شاید ہمارے متعصب اور حاسد معاشرے میں ایسے اچھے اور نیک نیت انسان کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ وہ اپنی گورنری کے پہلے دور میں صحت اور صاف پانی کے لئے بہت کام کرنا چاہتے تھے‘ لیکن اس وقت شہباز شریف کی پنجاب میں حیثیت ایسی تھی جیسے فیصل آباد میں گھنٹہ گھر کی ہے۔ ان کے علاوہ کوئی اور شخص کسی اچھے کام کا کریڈٹ کیسے لیتا؟ تنگ آ کر سرور صاحب گورنری سے کنارہ کش ہو گئے۔
اب بھی حالات زیادہ مختلف نہیں۔ پنجاب اب بھی برادریوں کے تعصبات میں گرفتار ہے۔ چودھری سرور دو تین ماہ پہلے امریکہ گئے اور پاکستانی کمیونٹی سے صاف پانی فاؤنڈیشن کے لئے مالی امداد مانگی‘ لوگوں نے فراخدلی سے آفرز کیں۔ ایک لاکھ ڈالر میری ہمشیرہ مسز ثمینہ احمد نے دینے کا وعدہ کیا‘ وہ لوگ فوری طور پر پیسے بھیجنے کو تیار ہیں‘ لیکن اب چودھری صاحب خاموش ہیں۔ میرا اندازہ ہے کہ یہ منصوبہ بھی سیاست کی نذر ہو گیا ہے کہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا محبوب پاکستانی مشغلہ ہے اور پنجابی تو اس کھیل میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ چودھری صاحب کو چاہئے کہ گورنری کو لات ماریں اور خدمت خلق میں ہمہ تن مصروف ہو جائیں‘ تحریک انصاف سے جڑے رہیں‘ پارٹی کے لئے گراس روٹ لیول پر کام کریں۔ صاف پانی کے لئے فلٹریشن پلانٹ عام کر کے پنجاب سے یرقان کا صفایا کریں۔ پنجاب کو اس وقت ایک ایدھی کی اشد ضرورت ہے‘ یہاں عوام کے زخم بڑے گہرے ہیں۔
جب ملک میں قانون کی حکمرانی نہ ہو‘ حکمران کرپٹ ہوں تو مافیا کو پھلنے پھولنے کا خوب موقع ملتا ہے۔ کراچی میں بھتہ مافیا پیپلز پارٹی کے عہد میں پھلا پھولا تو پنجاب میں مسلم لیگی دور میں قبضہ مافیا نے پر ہی نہیں نکالے بلکہ شرفا کی نیندیں حرام کرنے پر بھی دسترس حاصل کر لی۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی پاکستان میں جائیدادیں اور پلاٹ اس مافیا کا محبوب ہدف ہیں۔ جہاں مناسب ہو وہاں کورٹ کیس کر دیتے ہیں‘ بصورت دیگر پنجاب پولیس کو اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں۔ بے چارہ پلاٹ مالک اچھا خاصا تاوان ادا کر کے اپنی ہی جائیداد کو ان کے چنگل سے آزاد کراتا ہے۔
میں اپنی بات کو لاہور سے ایک حقیقی مثال دے کر واضح کروں گا۔ ڈاکٹر فیصل سلمان حسن برطانیہ میں مقیم پاکستانی ہیں۔ ان کے والد نے 1980ء میں تیس مرلے کا ایک پلاٹ لاہور میں نہر کے کنارے ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میں خریدا تھا۔ والد کی وفات کے بعد 2009ء میں اس پلاٹ کا انتقال ڈاکٹر فیصل کے نام ہوا۔ تمام واجبات ادا ہو چکے تھے۔ 2016 میں سوسائٹی نے پلاٹ کا قبضہ ڈاکٹر فیصل کو دے دیا۔ 2018ء میں ڈاکٹر صاحب نے چار دیواری بنوانے کے لئے بنیادیں کھدوائیں تو لاہور کے بدنام زمانہ قبضہ گروپ نے اپنے غنڈے بھجوا دیئے۔ اطلاع ملنے پر پولیس خاموش تماشائی بنی رہی‘ کام رک گیا۔ ڈاکٹر فیصل کا برطانیہ میں پڑھے لکھے پاکستانیوں میں وسیع حلقۂ احباب ہے‘ وہ ذاتی تلخ تجربے کی بنا پر تمام دوستوں کو کہتے ہیں کہ پاکستان میں سرمایہ کاری سوچ سمجھ کر کرنا۔ میں نے مندرجہ بالا کہانی اپنی ذاتی معلومات کی بنا پر لکھی ہے۔ ڈاکٹر فیصل میرے گورنمنٹ کالج لاہور کے کلاس فیلو مسٹر مقصود احمد کے داماد ہیں۔
ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر میرا اندازہ ہے کہ پنجاب کی چالیس فیصد بیوروکریسی مفلوج ہے۔ اس کی ایک وجہ احتساب کا خوف بھی ہے۔ چالیس فیصد نوکر شاہی کرپٹ ہے اور یہ زیادہ تر ان اضلاع میں ہے جو احتساب ادارے کی نگاہ سے ذرا دور ہیں۔ بیس فیصد افسر کھڈے لائن لگ کر آرام سے بیٹھے ہیں۔ شہباز شریف ایس پی خود پوسٹ کرتے تھے تو بزدار صاحب تھانیدار بھی خود لگاتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کا لگایا ہوا تھانیدار بھلا ایس پی کی بات کیوں مانے گا؟ چین آف کمانڈ ٹوٹ چکی ہے۔ حکومت کسی افسر کو معطل کرتی ہے تو وہ اگلے روز سٹے آرڈر لے آتا ہے‘ گویا اندھیر نگری ہے اور چوپٹ راج‘ اور پنجاب کے عوام کہہ رہے ہیں:
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں