"JDC" (space) message & send to 7575

آہ سید دلاور عباس!

اگلے روز ایک بہت ہی غیر معمولی انسان اور محبِ وطن پاکستانی اچانک اس دارِفانی سے رخصت ہوا۔ سینیٹر دلاور عباس بے شمار دوستوں کو سوگوار چھوڑ گئے۔ میرے وہ گورنمنٹ کالج لاہور کے کلاس فیلو تھے اور یہ تعلق آخر تک قائم رہا۔ دلاور صاحب کو دوستی بلکہ گہری دوستی نبھانے میں مہارت تھی۔ وہ پُرکشش شخصیت کے مالک تھے‘ محفلوں کی جان اور بے حد مہمان نواز۔ جب دوستوں میں بیٹھتے تو قہقہے فراواں ہو جاتے۔ ان کی اکثر دوستیاں لائف لانگ یعنی تاحیات قسم کی تھیں۔ جس شخص سے اچھے وقتوں میں تعلق بنایا‘وہ دوستی بُرے وقت میں بھی قائم رہی۔ ایسے وضع دار اور بے غرض دوست اب خال خال ملتے ہیں۔
سرخ و سپید رنگ والے اس شخص کے چہرے سے مسکراہٹ کم ہی غائب ہوتی تھی۔ ایسی اجلی شخصیت کہ ہر کوئی گرویدہ ہو جاتا تھا۔ دلاور عباس نے چار عشروں سے زائد عرصہ اٹک آئل کمپنی میں گزارا اور صرف 39سال کی عمر میں کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر یعنی سی ای او بنے اور اس اہم بزنس ادارے کو کامیابی سے چلایا۔ 2002ء میں سینیٹر منتخب ہوئے اور چھ سال تک پارلیمنٹ میں متحرک رہے۔ چالیس سال سے زائد ٹینس کھیلی۔ اسلام آباد کلب کے ٹینس کورٹ دلاور کے بغیر اداس اداس لگ رہے ہیں۔ ایسی ہمہ جہت شخصیات بھی اب ناپید ہو رہی ہیں۔
کارپوریٹ کامیابیوں کے علاوہ موصوف کی زندگی کا سوشل پہلو بھی بہت خوبصورت رہا۔ انہیں دوستوں کو جمع کرنے کا شوق تھا۔ ہم نے 1961ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لینے والوں کا اسلام آباد میں ایک مختصر سا گروپ بنایا ہوا تھا۔ سب باری باری کلاس فیلوز کو کھانے کی دعوت دیتے۔ دلاور کی دعوت شاندار ہوتی تھی‘ سب کو اس کا انتظار رہتا تھا۔ جب تک بسنت کی اجازت تھی‘ دلاور شاہ عالمی گیٹ کے ا ندر اپنی حویلی میں دوستوں کو بسنت کی دعوت ضرور دیتے۔ انواع و اقسام کے کھانوں سے دوستوں کی تواضع کی جاتی۔ دوستوں کے چہروں پر مسکراہٹ دیکھ کروہ خوشی محسوس کرتے۔ پولیس کے ریٹائرڈ آفیسر سید محبِ اسد سے دلاور کی دوستی نصف صدی پر محیط تھی۔ یہ دونوں لا کالج لاہور میں کلاس فیلو تھے۔ وہ انہیںNick Name سے پکارتے تھے اور دِ لّو (Dillyo) کہتے تھے۔ میری محب صاحب سے بات ہوئی تو کہنے لگے ''دِلّو سو فیصد لاہوری تھا‘ گرمجوشی اس کی عادت تھی‘ خوش خوراک تھا‘ بہت اچھا سپورٹس مین تھا‘ اس کا دسترخوان بہت وسیع تھا‘ انرجی کے فیلڈ کا ماہر تھا‘ ٹینس میں وہ انٹرنیشنل فیڈریشن کا سینئر وائس پریذیڈنٹ رہا اور پاکستان کا نام روشن کیا۔ وہ دوستوں کا دوست تھا۔ اُس نے کئی خیراتی کام کئے ‘مگر خاموشی سے۔ ہمارا پیارا دِلّو اس جہاں فانی سے رخصت ہو کر ابدی دنیا میں چلا گیا ہے‘ مگر ہماری زندگیوں میں بہت بڑا خلا چھوڑ گیا ہے‘‘۔
دلاور کا معمول تھا کہ ہر سال محرم میں عزاداری کے لئے لاہور ضرور جاتے۔ ہر سال رمضان میں اُن کے گھر بہت بڑی افطاری ہوتی تھی‘ چند سال پہلے ایک معمول کی افطاری پر اپنے کلاس فیلوز کو بھی مدعو کیا۔ گھر کے سامنے لان میں کرسیاں اور میز لگے ہوئے تھے۔ سو سے زائد لوگ مدعو تھے ‘ہم نے افطاری کرلی‘ لیکن چونکہ بے تکلفی تھی‘ لہٰذا چند دوستوں نے بعد میں دلاور سے کہا کہ تم نے ہمیں سیاسی دوستوں کے ساتھ بھگتا دیا ہے‘ ہماری خاص حیثیت ہے؛ چنانچہ چند روز بعد دلاور نے ہمارے گروپ کی علیحدہ سے دعوت کی۔ مہمان نوازی ایک طرح سے اُن کا محبوب مشغلہ تھا۔ لاہور اور اسلام آباد میں ان کے ذاتی گھر تھے۔ دلاور نے عمر بھر شادی نہیں کی‘ لہٰذا خانہ داری خدام کے سپرد تھی۔ اسلام آباد میں ایک بھانجا ساتھ رہتا تھا۔ دونوں گھروں میں ملازمین کو ہدایت تھی کہ دوست اگر غیر حاضری میں آ جائیں تو بھی ان کی خاطر مدارت میں کوئی کمی نہ ہو۔
چند ماہ پہلے میری دلاور سے اسلام آباد کلب میں ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا: شاہ جی ٹینس جاری ہے؟ جواب ملا : باقاعدگی سے کھیل رہا ہوں‘ بلکہ ٹینس کھیلنے کی خاطر تو میں نے گھٹنوں کی سرجری کروائی ہے۔ میں نے مذاقاً کہا : اگر یہ گھٹنے بھی گھس گئے تو کیا ہوگا؟ دلاور ہنس کے بولا: پھر اور گھٹنے لگوا لیں گے۔ کسی قسم کی قنوطیت دلاور عباس کے دور سے بھی نہیں گزری تھی۔
دلاور کا گجرات کے چودھری برادران کے ساتھ خاص تعلق تھا‘ جو سیاسی سے زیادہ ذاتی تھا۔ دلاور کے آباؤ اجداد گجرات میں رہتے تھے ‘شاید گجرات کا کامن لنک اس تعلق کی وجہ ہو‘ لیکن میرے اور دلاور کے مشترکہ دوست فرید الدین کا کہنا ہے کہ یہ تعلق 1980ء کی دہائی میں قائم ہوا جب چودھری برادران اٹک آئل کمپنی مورگاہ میں اپنے ایک دوست کو ملنے آیا کرتے تھے۔دلاور کے گھر کے دروازے ہمیشہ دوستوں کے لئے کھلے رہتے تھے‘ عین ممکن ہے کہ یہ تعلق اسی دوست کے ذریعے بنا ہو۔چودھری شجاعت چند سال پہلے جرمنی علاج کے لئے گئے تو دلاور وہاں تیماری داری کے لئے پہنچے۔ 2002ء میں وہ مسلم لیگ کے ٹکٹ پر سینیٹر بنے۔ سینیٹ میں ان کی نمائندگی بھرپور رہی۔ انرجی ایکسپرٹ ہونے کے ناتے سینیٹ کی پٹرولیم اور قدرتی وسائل کی سٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین ‘ جبکہ دفاع اور دفاعی پیداوار سے متعلق سٹینڈنگ کمیٹی کے ممبر رہے۔ 2004ء میں چودھری شجاعت حسین عبوری حکومت کے وزیراعظم کی حیثیت سے سعودی عرب گئے‘ میں اُن دنوں فارن آفٓس میں ایڈیشنل سیکرٹری مڈل ایسٹ اور افریقہ تھا۔ دلاور عباس اور میں دونوں وفد میں شامل تھے۔ اس وزٹ کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ دلاور چودھری شجاعت حسین صاحب کا بااعتماد دوست بھی ہے اور مشیر بھی۔ 2008 ء میں الیکشن سے پہلے عبوری حکومتیں بنیں تو دلاور عباس کو پنجاب کی کابینہ میں بطور وزیر لیا گیا اور انہیں آبپاشی کا قلمدان سونپا گیا۔
دلاور میں تصنع نام کی کوئی چیز تھی ہی نہیں‘ وہ پنجابی دوستوں سے ٹھیٹھ پنجابی میں بات کرتے۔میں نے دلاور کو کبھی انگریزی بولتے نہیں سنا‘ البتہ جن لوگوں نے سنا ہے وہ کہتے ہیں کہ صاف لگتا تھا ایک پنجابی انگریزی بول رہا ہے‘ لیکن اس لہجے کی انگریزی کے ساتھ انہوں نے اٹک آئل کمپنی اور پاکستان ٹینس فیڈریشن کی دنیا بھر میں فعال نمائندگی کی۔ دو مرتبہ وزیراعظم کے ساتھ بطور انرجی ایکسپرٹ ڈیووس اکنامک فورم میں گئے۔ ایک چیز واضح ہے کہ اس شخص میں بلا کی خوداعتمادی تھی۔ دوستوں کی مدد کرنا اُس کی خوبی تھی‘ جو تمام عمر ساتھ رہی‘ بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ جلا پاتی گئی۔
ڈاکٹر اعظم چودھری ان کے گورنمنٹ کالج اورلاء کالج کے کلاس فیلو ہیں۔ میں نے اعظم سے پوچھا کہ دلاور کا کوئی ایسا قصہ سناؤ جس میں اس کی شخصیت کی عکاسی ہوتی ہو۔ اعظم 1967ء میں لاہور سے لاء کر کے فرانس چلے گئے تھے‘ جہاں انہوں نے قانون میں پی ایچ ڈی کی اور پھر جنیوا میں یو این کے لیگل ایڈوائزر رہے۔اعظم کا کہنا تھا کہ میں 1980کی دہائی میں جنیوا سے پاکستان آیا اور اسلام آباد میں پریکٹس کا پروگرام بنایا۔ آتے ہی مجھے انٹرنیشنل لاء کا ایک بڑا کیس مل گیا۔ اب مجھے ایک دفتر اور سٹاف کی ضرورت تھی۔ میں آفس کی تلاش میں مدد کے لئے بلیو ایریا دلاور عباس کے پاس پہنچا‘ جہاں اٹک آئل کمپنی کا دفتر تھا۔ دلاور سے مدعا بیان کیا کہ آفس کی فوری ضرورت ہے‘ کہنے لگے: میرے برابر والے کمرے میں بیٹھ جاؤ۔ ڈاکٹر اعظم نے اپنے جگری دوست کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اب میں دو تین سٹاف ممبر بھرتی کر کے آپ کے دفتر آؤں گا۔ دلاور نے جواب دیا: جتنے روز چاہو میرے سٹاف سے مدد لے سکتے ہو۔ اعظم کے لئے یہ قصہ ناقابل ِفراموش ہے۔
اسی سال اپریل میں موجودہ حکومت نے دلاور کے انرجی سیکٹر میں تجربے سے فائدہ اٹھانے کے لئے انہیں سوئی ناردرن کا ہیڈ مقرر کیا تھا‘ لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ میں سوچ رہا ہوں کہ فرشتوں نے جنت الفردوس میں دلاور سے اگر پوچھا کہ تمہیں کیا فراہم کیا جائے؟ تو جواب ہو گا بہت سارے دوست اور ٹینس کورٹ۔ کتنا شاندار انسان تھا‘ کتنا مخلص دوست تھا اور کتنا اچھا پاکستانی‘ جو جہان ِفانی سے رخصت ہوا۔
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں