"JDC" (space) message & send to 7575

کورونا وائرس اور عالمی تعاون

کورونا وائرس جیسی مہلک وبا دنیا میں پہلی مرتبہ نہیں آئی۔ شنید ہے کہ 1918ء کا ہسپانوی انفلوائنزا اس سے کہیں زیادہ شدید اور خطرناک نوعیت کا تھا۔ تب میڈیکل کے میدان میں انسان کی ایسی وبائوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی کم تھی‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت دنیا گلوبل بستی نہیں بنی تھی۔ ہوائی سفر کم تھا۔ وائرس اتنی تیزی سے منتقل نہیں ہوتا تھا۔ آج کی وبا برق رفتاری سے دنیا بھر میں چھلانگیں لگاتی ہے۔ یہ سب ہم دیکھ چکے ہیں۔
مشہور طبیب بو علی سینا کا زمانہ آج سے ہزار سال پہلے کا تھا۔ اس بات کا دستاویزی ثبوت موجود ہے کہ بو علی سینا جنہیں ہم ابن سینا بھی کہتے ہیں‘ اس قسم کے مرض سے واقف تھے۔ ان کے زمانے میں ایسی ہی وبا پھیلی اور انہوں نے بخارا کے حاکم سے کہا کہ بازار بند کرا دیئے جائیں اور تاجر اپنا سامان گھروں کو لے جائیں‘ وہاں سے خرید و فروخت کریں اور یہ کہ لوگ بیماری سے ڈرنے کی بجائے طہارت کا خاص خیال رکھیں‘ صاف ستھرے کپڑے پہنیں یعنی ایک ہی لباس زیادہ دیر تک زیب تن نہ کریں‘ نمازیں گھروں میں ادا کی جائیں۔ ابن سینا کے زمانے میں عالمی تعاون مفقود تھا اور اس لحاظ سے ہم خوش قسمت ہیں۔
سرد جنگ کا زمانہ تھا۔ امریکہ اور سوویت یونین ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی پے در پے کوششیں کر رہے تھے۔ جاسوسی کے پیشے پر اربوں ڈالر خرچ ہو رہے تھے۔ دنیا بھر میں پولیو کی بیماری لاکھوں بچوں کو معذور کر رہی تھی۔ ایسے میں ان دو دشمن ممالک نے فیصلہ کیا کہ دونوں طرف کے سائنس دانوں کو اکٹھا کیا جائے اور انہیں پولیو کی ویکسین تیار کرنے کا ٹاسک دیا۔ اسی تعاون کے نتیجے میں پولیو کے قطرے تیار ہوئے اور آج دنیا تقریباً پولیو فری ہے۔
2003ء میں سارس (SARS) کی وبا چین سے شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں پھیلنے لگی۔ چینی اور امریکی حکومتوں کے مابین عالمی لیول کی وبائوں کی روک تھام کا مشترکہ لائحہ عمل وضع کرنے کے لیے بات چیت شروع ہوئی اور یہ لائحہ عمل 2005ء میں فائنل کر کے اس پر دستخط ہوئے۔ بد قسمتی سے کورونا وائرس جیسی موذی عالمی وبا پھیلی تو عالمی تعاون کا ماحول سازگار نہ تھا۔
لمحۂ حاضر میں ہمیں قدم قدم پر عالمی تعاون کی ضرورت ہے۔ اسی تعاون سے کورونا کو روکنے کی ویکسین بن سکتی ہے۔ اس موذی مرض سے عالمی تجارت اور معیشت پر جو خطرے منڈلا رہے ہیں ان کا علاج بھی انٹرنیشنل تعاون سے ہی ہو سکتا ہے۔ جب یہ وبا چین میں پھیلی تو صدر ٹرمپ نے اسے چائنا وائرس کہا۔ چین نے کورونا وائرس کے بارے میں تمام ضروری معلومات امریکہ کو فراہم کر دیں تا کہ ریسرچ کا کام جلد شروع ہو سکے۔ امریکہ نے شکریہ ادا کرنے کے بجائے چین سے تمام پروازیں بند کر دیں۔ دنیا کے سات بڑے ترقی یافتہ ممالک‘ جن کے گروپ کو جی سیون کہا جاتا ہے‘ کا اجلاس ہوا تو آخر میں حسب روایت مشترکہ اعلامیہ ایشو ہونا تھا۔ امریکہ اجلاس کی صدارت کر رہا تھا اور اس بات پر مصر تھا کہ کورونا وائرس کی بجائے ووہان وائرس کی اصطلاح استعمال کی جائے۔ چین کو اس بات پر سخت اعتراض تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہ ہو سکا۔
ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) کے سربراہ کا کہنا ہے کہ اس وبا کی وجہ سے عالمی معیشت کساد بازاری (Depression) کا شکار ہو جائے گی۔ اس تنظیم کے اندازے کے مطابق اس سال کی پہلی سہ ماہی میں عالمی تجارت ایک تہائی کم ہوئی ہے۔ فرانس کے بارے میں تخمینہ ہے کہ اس کی اکانومی پچھلے تین ماہ میں چھ فیصد سکڑی ہے۔ جرمنی کی معیشت یورپ میں سب سے بڑی ہے اور کہا جا رہا ہے جرمن اکانومی اس سال دس فیصد شرنک کرے گی۔ ہمارے لئے پریشانی کی یہ بات ہے کہ پاکستان کی بیشتر تجارت مغربی دنیا کے ساتھ ہے‘ لہٰذا اگر یہ صورت حال قائم رہی تو پاکستانی برآمدات پر لامحالہ منفی اثر پڑے گا‘ لہٰذا اشد ضروری ہے کہ عالمی معیشت کی صحت یابی کے لیے اقوام متحدہ کی سربراہی میں جامع پلان بنایا جائے۔
سترہویں صدی کے نامور شاعر اور ناول نگار جان ڈن (John Donne )نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب کا نام No man is an island رکھا تھا یعنی کوئی شخص تن تنہا کچھ حاصل نہیں کر سکتا۔ بڑے بڑے کام اجتماعی کوششوں اور تعاون سے ہوتے ہیں۔ ایک اور زاویئے سے دیکھیں تو جو خوراک ہم روزانہ کھاتے ہیں وہ نباتات اور حیوانات سے حاصل ہوتی ہے۔ اگر نباتات نہ ہوں تو حیوانات کیا کھائیں گے۔ اچھی ہریالی اور پھلوں، سبزیوں کے لیے زرخیز زمین، سورج کی روشنی اور پانی درکار ہے۔ زمین کو زرخیز بنانے میں حشرات الارض کا اہم رول ہے، یعنی زمین پر رہنے والے تمام ذی روح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ بابائے اکنامکس آدم سمتھ (Adam smith) نے کہا تھا کہ تقسیمِ کار (Division of labour) سے قوموں کی دولت میں اضافہ ہوتا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ فرد صرف ربط ملت سے قائم ہے‘ تنہا کچھ نہیں ہے‘ لہٰذا اگر امریکہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ ہم تن تنہا کورونا وائرس یا دوسری وبائوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں تو یہ درست نہ ہو گا۔ اگر امریکہ ، چین، یورپی ممالک اور ڈبلیو ایچ او کے ساتھ مل کر کام کرے تو بہتر نتائج کم وقت میں حاصل ہو سکتے ہیں اور انسانیت کی فلاح کے لیے یہ تعاون ضروری ہے۔
امریکہ کے سرجن جنرل جیروم ایڈمز (Jerome Adams) نے خبردار کیا ہے کہ مستقبل قریب امریکہ کے لیے خطرناک وقت ہو گا۔ سرجن جنرل نے اسے Prearl harbor moment سے تشبیہ دی ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب جاپان نے جنگ عظیم میں امریکہ پر حملہ کیا تھا۔ سرجن جنرل نے یہ بھی کہا کہ کورونا کا حملہ نائن الیون کے حملے جیسا ہے۔ اموات کے اعتبار سے اس وقت امریکہ پہلے نمبر پر ہے۔ اللہ کی قدرت دیکھئے کہ چین کے شہر ووہان میں زندگی نارمل ہو گئی ہے۔ شاید اس سے صدر ٹرمپ سمجھ جائیں کہ بڑا بول بولنا اور دوسروں پر پھبتی کسنا درست فعل نہیں۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ کورونا وائرس سے کچھ واضح فوائد بھی ہوئے ہیں۔ فضا صاف شفاف ہے۔ آسمان پر ستارے بڑے شہروں میں بھی نظر آ رہے ہیں۔ سڑکوں پر ٹریفک جام نہیں ہو رہے۔ صبح دم پرندوں کے چہچہانے کی آوازیں آتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اپنے ماحول کو بہت بگاڑ لیا تھا اور اس ماحول کو صحت مند رکھنے کے لیے بھی عالمی تعاون درکار ہے۔ آپ کو علم ہوگا کہ لاہور کی سالانہ سموگ میں انڈیا کا بھی حصہ ہے۔
یہ جو سمارٹ فون میرے اور آپ کے ہاتھ میں ہے اس کے کچھ پارٹ امریکہ کے ہیں چند ایک چین کے اور باقی ماندہ کوریا کے۔ یہ گلوبلائزیشن کی ایک مثال ہے اور تقسیم کار کی بھی۔ یہ بات طے ہے کہ کورونا کے موجودہ حملے کے بعد عالمی معیشت کا نقشہ بدل جائے گا۔ یہ جو تیل اور کوئلہ ہم بے دریغ جلا رہے ہیں اس کی بجائے صاف ستھری انرجی کا استعمال ناگزیر ہو گیا ہے۔
اگلے دس بیس سال میں ہم دیکھیں گے کہ کرّہ ارض پر طرز زندگی بدل جائے گا۔ اس تبدیلی کے عمل سے امیر اور ترقی یافتہ ممالک تو بخوبی نمٹ لیں گے لیکن ترقی پذیر ممالک کا کیا ہوگا؟ اس سارے عمل کو سلیقے سے سر انجام دینے کے لیے بھی عالمی تعاون ضروری ہے۔ دنیا کو دو مکھی جنگ کا سامنا ہے ایک کوررونا وائرس کو مکمل طور پر کنٹرول کرنا، دوسرے عالمی معیشت کو در پیش خطرات کا تدارک۔ ایسے میں عالمی تعاون ناگزیر ہو گیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں