"JDC" (space) message & send to 7575

پاک ایران تعلقات کا تازہ جائزہ …(2)

پچھلے کالم میں پاک ایران تعلقات کے زیرو بم کا ذکر آیا تھا۔ چند موٹی موٹی وجوہات بیان کی گئی تھیں جن کی وجہ سے باہمی اعتماد کو ٹھیس پہنچی۔ آج چند اور وجوہات ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر پر ایران نے عمومی طور پر پاکستانی مؤقف کی تائید کی ہے اور ایران کی یہ پوزیشن تا ہنوز قائم ہے۔ 1994ء میں او آئی سی کا وزرائے خارجہ لیول کا اجلاس تہران میں ہوا اور وہاں من جملہ دیگر فیصلوں کے کشمیر رابطہ گروپ بھی بنایا گیا۔ ایران کا نام رابطہ گروپ میں شامل نہیں تھا۔ ایران اسلامی ممالک کے جی ایٹ گروپ کا حصہ ہے۔ اس گروپ کے چند چیدہ چیدہ ممالک ممبر ہیں اور بنیادی مقصد تجارتی اور اقتصادی تعاون کا فروغ ہے۔ 2007ء کے آغاز میں جی ایٹ کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا مگر ایران کو نہیں بلایا گیا۔ شاید اسی وجہ سے ایران کو یہ بد گمانی رہی ہے کہ پاکستان کا عمومی جھکائو اس کے علاقائی حریفوں کی جانب ہے۔
پاک ایران بارڈر کے مسائل ایک عرصے سے مشکلات کا شکار ہیں۔ 917 کلو میٹر لمبا یہ بارڈر دشوار گزار اور کم آبادی والے علاقے میں واقع ہے۔ دونوں جانب بسنے والے قبائل میں عزیز داری ہے اور انہیں آنے جانے کے حقوق Easement rights ایک زمانے سے حاصل ہیں۔ اب یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سرحد سے ڈرگ سمگلنگ بھی ہوتی ہے اور ہیومن سمگلنگ بھی ۔ ایرانی پیٹرول اور ڈیزل بھی اسی راستے سے غیر قانونی طور پر پاکستان لایا جاتا ہے لیکن سب سے بڑا مسئلہ اس سرحد کے دونوں جانب انتہا پسند گروہوں کا وجود رہا ہے۔
سب سے بڑی خوش آئند بات یہ ہے کہ ایران اور پاکستان کے مابین کوئی سرحدی تنازعہ نہیں۔ ایرانی اور پاکستانی بلوچستان میں گاہے بگاہے مسئلے مسائل چلتے رہتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ایرانی بلوچستان کے اپنے ٹھوس مسائل ہیں۔ یہ لوگ مسلکی اور لسانی لحاظ سے سواد اعظم سے مختلف ہیں۔ ایک اور خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہاں چھوٹے سے چھوٹا کارندہ تہران کی مرضی سے ہی پوسٹ ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستانی بلوچستان میں خاص خود مختاری ہے۔ لیکن نان سٹیٹ ایکٹرز پر ہمارا کنٹرول ایران کے مقابلے میں کمزور ہے۔ کچھ سال پہلے ہمارے علاقے سے جنداللہ نام کی انتہا پسند تنظیم ایران میں کارروائیاں کرتی تھی۔ جب اس تنظیم پر حکومت پاکستان نے پابندی لگائی تو اس نے اپنا نام بدل کے جیش العدل رکھ لیا۔ ایران کا مؤقف ہے کہ یہ تنظیمیں ایران دشمن ممالک سے مالی امداد حاصل کرتی ہیں۔
2019ء کے آغاز میں ایرانی بلوچستان میں دہشت گردی ہوئی اور ایک بس میں سوار پاسداران کے 27 اہلکار شہید ہوئے۔ ایرانی حکومت نے انگلی پاکستان میں موجود جیش العدل پر اٹھائی۔ اس کے بعد پاکستان کی پیرا ملٹری بارڈر فورس پر ایران کی جانب سے حملہ ہوا۔ پاکستان سے گئے چند غیر حکومتی لوگوں نے ایران کے کچھ بارڈر گارڈ یرغمال بنا لئے، جنہیں حکومت پاکستان نے رہا کرایا۔ یہ مسئلہ سنجیدہ نوعیت کا ہے اور ایران نے اپنی جانب بڑی حد تک آہنی باڑ لگا لی ہے۔ پاکستان کو بھی اپنی جانب فینسنگ کرنی چاہیے تاکہ تمام بارڈر موومنٹ ریگولیٹ ہو سکے۔
انڈیا نے پاک ایران تعلقات میں بدگمانیوں سے خوب فائدہ اٹھایا۔ اور وہ خاصی حد تک ایران کو اپنا سٹریٹیجک حلیف بنانے میں کامیاب بھی رہا۔ 1990ء کی دہائی میں افغانستان کے بارے میں انڈیا اور ایران دونوں میں ریگولر مشاورت ہوتی رہی۔ دونوں شمالی اتحاد کے حامی تھے‘ لیکن چند سال بعد انڈیا اور امریکہ کی پینگیں بڑھنے لگیں‘ مگر انڈیا نے افغانستان اور سنٹرل ایشیا کی منڈیوں تک رسائی کے لیے چاہ بہار پورٹ کی ڈویلپمنٹ میں حصہ لیا۔
انڈیا ایران تعلقات پر گہری نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ مشکل حالات میں ایران کا ساتھ چھوڑتا بھی رہا ہے۔ ایران، عراق جنگ میں انڈیا کا جھکائو واضح طور پر عراق کی جانب تھا۔ 2009ء میں ویانا میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) میں امریکہ نے قرارداد پیش کی جس میں ایران کو اپنے ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے کا کہا گیا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی ڈیمانڈ تھی کہ ایران فی الفور قُم میں بنایا گیا خفیہ ایٹمی پلانٹ بند کر دے۔ ایران نے بڑی کوشش کی کہ انڈیا قرارداد کے مخالف ووٹ دے مگر انڈیا نے امریکہ کا ساتھ دیا۔ 2011ء میں کینیڈا نے اقوام متحدہ میں قرارداد پیش کی جس میں ایران میں انسانی حقوق کی پامالی پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ ایران نے بہت کوشش کی کہ انڈیا اس کی مدد کرے مگر ایسا نہ ہو سکا۔
دوسری جانب بین الاقوامی ایوانوں میں پاکستان اور ایران کئی مرتبہ مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں اور یہ انقلاب ایران کے بعد بھی متعدد بار ہوا ہے۔ 1994ء میں جنیوا میں ہیومن رائٹس کونسل میں پاکستان نے کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کے بارے میں ریزولیوشن پیش کی۔ بہت کم ممالک نے پاکستان کا ساتھ دیا۔ قرارداد کامیاب نہ ہو سکی مگر ایران آخری لمحے تک پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا۔ اسی طرح 2002ء میں جب انڈین پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تو ہندوستان نے اپنی بیشتر افواج پاکستانی سرحد پر لا کھڑی کیں۔ دونوں جانب افواج آمنے سامنے اور تھوڑے فاصلے پر تھیں۔ لگتا تھا کہ کسی بھی لمحے جنگ شروع ہو سکتی ہے۔ پاکستان کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے پاس سٹور کیا ہوا تیل کم ہوتا ہے لہٰذا ہم لمبی جنگ نہیں لڑ سکتے۔ ایسے میں پاکستان نے ایران سے رجوع کیا اور پوچھا کہ جنگ کی صورت میں سمندری راستے سے تیل آنا اگر بند ہو جائے تو کیا آپ ہمیں تیل سپلائی کریں گے۔ ایرانی قیادت کا جواب مثبت تھا۔
یہ صحیح ہے کہ ماضی میں ہمارے علاقے سے ایران میں کارروائیاں ہوتی رہیں مگر یہ لوگ یقینا حکومت پاکستان سے متعلق نہیں تھے۔ وزیر اعظم عمران خان نے پچھلے سال ایران کے دورے میں اس بات کا صریحاً اقرار کیا تھا اور ایک مشترکہ پٹرولنگ فورس کی تجویز بھی دی تھی۔ نتیجہ یہ ہے کہ پچھلے ایک سال میں کوئی قابل ذکر دہشت گردی کا واقعہ نہیں ہوا۔
مجھے اس بات کا یقین ہے کہ پاکستان اور ایران ایک دوسرے کی سٹریٹیجک ضرورت ہیں۔ دونوں ممالک روحانی رشتے میں منسلک ہیں۔ دونوں چین سے بہت قریبی تعاون میں جڑے ہوئے ہیں۔ چین ایرانی تیل کا بہت بڑا خریدار رہا ہے اور اب سی پیک کے ذریعے پاکستانی راستے سے ایرانی تیل چین جایا کرے گا۔ پاکستان کی اپنی تیل اور گیس کی ضروریات بڑھ رہی ہیں۔ جونہی ایران پر مسلط اقتصادی پابندیاں اٹھتی ہیں‘ ہمیں گیس پائپ لائن مکمل کر لینی چاہئے۔ مجھے اس بات کا بھی علم ہے کہ پاکستان سے ہر سال خمس کی ایک خطیر رقم ایران بھیجی جاتی ہے۔ پاکستان نے پُر امن ایرانی ایٹمی پروگرام کی سپورٹ کی ہے۔ ایران کشمیریوں کے حقوق کا حامی رہا ہے اور زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ انڈین مسلمانوں کی حالت زار کی ایرانی قیادت نے بھرپور مذمت کی تھی۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ کلبھوشن یادیو کا واقعہ ہو یا سرحد پر پچھلے سال تک ہونے والے دوسرے افسوس ناک واقعات ہمارے تعلقات میں کوئی واضح دراڑ نہیں پڑی۔
پچھلے سال وزیر اعظم عمران خان کو کہا گیا کہ بارڈر کے واقعات کی وجہ سے تعلقات میں تنائو کی کیفیت ہے لہٰذا آپ ایران کا دورہ ملتوی کر دیں مگر وہ مشہد ہوتے ہوئے تہران پہنچے اور یہ دانش مندانہ فیصلہ تھا۔ وزیر اعظم نے ایران اور خلیجی ممالک کے درمیان سہولت کاری کی آفر کا اعادہ کیا۔ علاقائی حالات یہ بتا رہے ہیں کہ آنے والے وقت میں پاک ایران رشتہ مضبوط ہو گا۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں