"JDC" (space) message & send to 7575

افلا تعقلون؟ …(1)

''افلا تعقلون‘‘ کے معنی ہیں ''تو تم کیوں سوچ بچار نہیں کرتے‘‘ قرآن کریم میں یہ استفہامی جملہ تیرہ مرتبہ مختلف آیات مبارکہ میں آیا ہے۔ اس جامع سوال کی تطبیق یوں تو زندگی کے ہر فیلڈ اور ہر موڑ پر ہو سکتی ہے لیکن کالم کی کوتاہ دامنی کی وجہ سے میں صرف دو تین موضوعات پر فوکس کروں گا جو ہمارے لیے سٹریٹیجک اہمیت کے حامل ہیں۔ ان میں میری نظر میں پاکستان کی آبادی کا مسئلہ سرفہرست ہے۔ حال ہی میں صدر عارف علوی کا ایک ٹی وی انٹرویو دیکھا اور یہ جان کر خوشی ہوئی کہ وہ اس پرابلم کا خوب ادراک رکھتے ہیں۔
1971ء میں بنگلہ دیش کی آبادی ہماری آبادی سے زیادہ تھی‘ آج ہماری پاپولیشن اُن سے کہیں زیادہ ہے۔ یقین مانئے کہ 1947ء سے آج تک ہماری آبادی تقریباً چھ گنا بڑھی ہے۔ یاد رہے کہ 1947ء میں مغربی پاکستان کی پاپولیشن ساڑھے تین کروڑ تھی۔ اس وقت کے سکولوں میں تعلیم کے خواہش مند تقریباً تمام لڑکے لڑکیاں سما جاتے تھے۔ آج بے شمار بچے ٹاٹ والے سکول کی تعلیم سے بھی محروم ہیں۔ 1980ء میں پاکستان اور انگلینڈ کی آبادی برابر تھی۔ آج ہماری آبادی ان سے کہیں زیادہ ہے‘ لہٰذا وہاں ہر بچے کو تعلیم اور صحت کی سہولیات دستیاب ہیں‘ مگر بے شمار پاکستانی بچے ان بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہم نے قرآنی احکام کے مطابق غور و فکر نہیں کیا۔ مستقبل کی پلاننگ سوچ سمجھ کر نہیں کی۔
اگلے روز بازار گیا تو بھکاریوں کی فوج ظفر موج سے سابقہ پڑا۔ ان میں سے ایک بھکاری کوئی پچپن سال کا ہو گا اور اچھا خاصا صحت مند۔ میں نے پوچھا کہ کام کیوں نہیں کرتے، بھیک کیوں مانگتے ہو؟ جواب ملا: صاحب نو بچے ہیں، میں خود بھی مزدوری کرتا ہوں‘ کام مل جائے تو دو بڑے لڑکے بھی کچھ کما لاتے ہیں مگر کیا کریں گزارہ نہیں ہوتا۔ میں نے استفسار کیا کہ تمہارے صرف دو بچے ہوتے تو کیا تم آج بھیک مانگ رہے ہوتے؟ اُس کا جواب تھا: سر ہمیں تو کہا گیا تھا کہ مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہونی چاہئے تا کہ دوسری اقوام کا مقابلہ کر سکیں۔ آپ سوچیں کہ اکیسویں صدی میں اس منطق میں کوئی جان ہے۔ دورِ حاضر میں طاقت علم سے آتی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی سے آتی ہے۔ باہمی اتحاد اور مشاورت سے بہتر منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ اگر قومیں قرآنی احکام کے مطابق سوچ بچار کر کے صائب فیصلے کریں تو دنیا میں اپنا مقام پیدا کر سکتی ہیں۔ آج کے مڈل ایسٹ میں چھوٹا سا اسرائیل بیس عرب ممالک کے سامنے کھڑا ہے۔ عرب ممالک کی آبادی اسرائیل کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
تو آئیے چند مسلم ممالک کا جائزہ لیتے ہیں جہاں آبادی کا دبائو محسوس کیا جا رہا ہے اور احکام الٰہی کے مطابق مسئلے کا حل بھی سوچا جا رہا ہے۔ مصر کی معروف جامعہ الازہر سے 1981ء میں فتویٰ صادر ہوا‘ جس میں فیملی پلاننگ کی مشروط مگر واضح حمایت کی گئی تھی۔ اس بات کا واضح اقرار کیا گیا کہ اسلام ازدواجی رشتے میں حمل کو روکنے کی ممانعت نہیں کرتا۔ یہی بات صدر عارف علوی نے دوسرے پیرائے میں کی کہ بچوں کو اگر ماں کا دودھ پلایا جائے تو تولید میں وقفہ خود بخود ہو جاتا ہے۔ جامعہ الازھر کے فتووں میں دو شرطیں ہیں کہ فیملی پلاننگ کا عمل شرعی حدود میں ہونا چاہئے اور ریاست اس سلسلے میں کوئی جبر نہ کرے۔
مصر کی آبادی اب 93 ملین ہے اور پاپولیشن گروتھ چار فیصد ہے۔ مصر ایک زمانے میں خوراک میں خود کفیل تھا۔ آج خوراک امپورٹ کرتا ہے۔ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے ایک سرکاری میٹنگ میں کہا کہ بچے تین ہونے چاہئیں اور ان کے درمیان کئی سالوں کا وقفہ ہونا ضروری ہے۔ شیخ احمد طیب‘ جو الازھر کے ہیڈ ہیں‘ کو مخاطب کرتے ہوئے صدر السیسی نے کہا کہ بچوں کی پرورش والدین نے کرنی ہے ریاست نے نہیں۔ ساتھ ہی شیخ الازھر سے پوچھا کہ تنظیم الاسرۃ یعنی فیملی پلاننگ کے بارے میں جو باتیں میں نے کی ہیں وہ حلال ہیں یا حرام۔ شیخ نے واضح الفاظ میں کہا کہ یہ حلال ہیں۔ الازھر کے سابق شیخ الجامعہ ڈاکٹر جادالحق نے 1981ء میں کہا تھا کہ فیملی پلاننگ کی اُن ممالک میں اشد ضرورت ہے جہاں غربت زیادہ ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ فیملی پلاننگ پر ریسرچ کرتے ہوئے ہم نے امام غزالیؒ کے افکار سے استفادہ کیا ہے۔
ایران میں 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد شاہ کی فیملی پلاننگ پالیسی ترک کر دی گئی تھی، لیکن 1989ء میں اس پالیسی کا احیا ہوا اور اسے حاکم مذہبی طبقے کی پوری حمایت حاصل ہے۔ اس پالیسی میں کہا گیا ہے کہ 18 سال سے کم اور 35 سال سے زیادہ عمر کی خواتین بچے پیدا نہ کریں۔ مجھے علم نہیں کہ اس سلسلے میں کوئی تعزیر لگائی گئی ہے یا نہیں؛ البتہ یہ بات ایران کے قانون میں شامل ہے کہ سرکاری ملازم خواتین کو میٹرنٹی چھٹی (Maternity Leave) صرف تین ولادتوں تک ملے گی۔ نتیجہ خاطر خواہ نکلا ہے۔ تیس سالوں میں ایران کی پاپولیشن گروتھ تین اعشاریہ دو سے کم ہو کر دو فیصد رہ گئی ہے۔ طویل جنگ سے تباہ شدہ اکانومی کے تناظر میں ایرانی قیادت نے سوچ بچار کی اور صحیح فیصلے کئے۔ 
آبادی کے ضمن میں عقل و فکر کا نہایت احسن استعمال بنگلہ دیش میں ہوا ہے۔ وہاں پاپولیشن کنٹرول کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ ملک کا رقبہ محدود ہے لہٰذا آبادی کو کنٹرول کرنا ضروری ہے اور اس بات کا ادراک حکومت کے علاوہ علمائے کرام کو بھی ہے۔ موجودہ پانچ سالہ منصوبے میں 615 ملین ڈالر پاپولیشن پلاننگ کے لیے مختص ہیں جو کہ سابقہ پانچ سالہ منصوبے سے 67 فیصد زیادہ ہیں۔
بنگلہ دیش میں ایک اور ذریعے سے فیملی پلاننگ کو مدد ملی۔ مائیکرو فنانس یعنی چھوٹے قرضوں نے خواتین کے لیے بزنس کے مواقع پیدا کیے۔ خواتین کمانے لگ گئیں تو ان میں یہ شعور بیدار ہوا کہ بار بار کی زچگی سے بزنس میں خلل پڑتا ہے۔ خواتین کی مالی حالت بہتر ہوئی تو ان میں خود اعتمادی آ گئی۔ اب یہ اپنے شریکِ حیات سے زچگی میں مناسب وقفوں کے حوالے سے بات کرنے لگیں۔ نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بنگلہ دیش کی آبادی آج پاکستان سے کم ہے۔ پاپولیشن کنٹرول غربت ختم کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔ حدیث مبارک ہے ''کاد الفقر اَن یکون کفراً‘‘ یعنی غربت انسان کو کفر کی طرف لے جاتی ہے۔ مفلوک الحال انسان کی غیرت ختم ہو جاتی ہے۔ وہ پیٹ کے دوزخ کو بھرنے کے لیے چوری اور جسم فروشی جیسی قبیح حرکات کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ دنیاوی خدا ڈھونڈنے لگتا ہے۔
پاکستان اس وقت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے اور ہماری ایک تہائی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ ایسے گھرانوں میں پیدا ہونے والے بچوں کو نہ اچھی غذا مل رہی ہے اور نہ ہی ان کی اخلاقی تربیت صحیح خطوط پر ہو رہی ہے۔ یہ بچے جب جوان ہوں گے تو ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور ہوں گے۔ اس سے آگے سوچیں تو اس کمزور نسل کے بچے کمزور تر ہوں گے۔ الازھر کے فتویٰ کے مطابق بچوں کی جسمانی پرورش اور اخلاقی تربیت والدین کا فرض ہے۔ اگر ہماری آبادی ایسے ہی بے ہنگم بڑھتی رہی تو ہم کشکول کبھی نہیں توڑ سکیں گے۔
پاکستان میں اس وقت ڈھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں جبکہ مفت پرائمری تعلیم فراہم کرنا حکومت کا آئینی فریضہ ہے، مگر حکومت اتنے وسائل کہاں سے لائے؟ اوپر دی گئی مثالوں سے ظاہر ہے کہ مصر، ایران اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں نے پاپولیشن کنٹرول کے حوالے سے ''افلا تعلقون‘‘ کے یزدانی سوال کا ادراک کرتے ہوئے اقدامات شروع کر دئیے ہیں۔ پاکستان کی حکومت اور عوام اس سوال کو کب سمجھیں گے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں