"JDC" (space) message & send to 7575

مڈل ایسٹ کے دگر گوں حالات

مڈل ایسٹ کے سیاسی اور اقتصادی حالات کچھ عرصے سے زیادہ حوصلہ افزا نہیں رہے۔ شام میں جاری سول وار کو اگلے سال ایک عشرہ ہو جائے گا۔ جانی اور مالی نقصانات کے اعتبار سے یہ بدترین جنگ رہی ہے‘ لاکھوں بچے مہاجر کیمپوں میں کئی سالوں سے تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتوں کے بغیر بدترین حالات میں سنِ بلوغت کو پہنچ رہے ہیں۔ یمن کی جنگ کو پانچ سال ہو گئے۔ کورونا کی وبا کی وجہ سے عالمی منڈی میں تیل کی طلب گری ہے اور خلیجی ممالک کے بجٹ بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ صرف تیل کی برآمدات کی مد میں خلیجی ممالک کی یومیہ آمدنی 554 ملین ڈالر گری ہے۔ فقط سعودی عرب سے بارہ لاکھ فارن ورکرز حالیہ دنوں میں واپس اپنے ممالک کو گئے ہیں۔
تیل کی قیمتیں تو خیر خارجی عوامل کی وجہ سے گری ہیں‘ مگر بہت سے ایسے مسائل ہیں جو اندرونی خلفشار کی وجہ سے بڑھے ہیں مثلاً سوڈان کی صورت حال پر نظر ڈالیں تو لگتا ہے کہ سیاسی استحکام اس ملک سے روٹھ گیا ہے۔ جنرل عمر البشیر نے تیس سال تک سوڈان پر حکومت کی ‘ وہ سخت گیر حکمران کے طور پر مشہور ہوئے‘ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ عرب ممالک میں آہنی ہاتھوں سے نظام چلانے والے حکمران ہی کامیاب رہے ہیں۔ صدام حسین‘ حافظ الاسد اور حسنی مبارک سب اسی نوع کے لیڈر تھے‘ جبکہ پاکستان میں عوام پانچ سات سال میں آمروں سے بیزار ہو جاتے ہیں۔ عرب ممالک میں وہ بڑے آرام سے تین عشروں تک حکومت کر لیتے ہیں۔ کرنل قذافی چالیس سال لیبیا پر حکمران رہے۔ حافظ الاسد نے تیس سال اقتدار کے مزے لیے اور دورانِ حکومت ہی فوت ہوئے۔ حسنی مبارک تیس سال مصر کے صدر رہے وہ اپنے بیٹے جمال مبارک کو تخت نشینی کے لیے تیار کر رہے تھے کہ شومیٔ قسمت سے عرب سپرنگ آن وارد ہوا ‘اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مڈل ایسٹ میں جہاں جہاں ملوکیت ہے وہاں استحکام نسبتاً زیادہ رہا ہے‘ اس کی واضح مثالیں مراکش‘ اردن اور خلیجی ممالک ہیں۔
لیکن یہ مفروضہ بھی غلط ہے کہ عرب عوام سوئے ہوئے ہیں۔ عرب سپرنگ ان نوجوانوں کی تحریک تھی جو آمرانہ طرزِ حکومت سے تنگ آئے ہوئے تھے۔ وہ آزادی رائے چاہتے تھے۔ وہ بہتر مستقبل کے متمنی تھے۔ 1960ء اور 1970ء میں فوجی انقلابات کے نتیجے میں کئی ایسے حکمران آئے جومساوات اور سماجی انصاف کے داعی تھے‘ ان کا نعرہ تھا کہ ہم فلسطین کو آزاد کرائیں گے۔ جمال عبدالناصر‘ کرنل قذافی اور حافظ الاسد سب شروع سے عوام کے پیرو تھے‘ لیکن وہ ان کی امیدوں کو پورا نہ کر سکے۔ نہ فلسطین آزاد ہوا اور نہ ہی عرب معاشرے میں کوئی بڑی تبدیلی آئی۔ آج کی عرب یوتھ پڑھی لکھی اور باشعور ہے ‘ وہ بہتر گورننس اور انصاف چاہتی ہے اور سب سے بڑھ کر عرب عوام اقتدار میں شراکت چاہتے ہیں وہ سالوں سے جاری کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ انہی اہداف کو لے کر عراق اور لبنان میں کئی مہینوں سے مظاہرے جاری ہیں۔ لوگ مہنگائی اور ناقص حکومتی سروسز کا گلہ گلے پھاڑ پھاڑ کر کر رہے ہیں۔ 
مڈل ایسٹ میں چونکہ جمہوریت خاصی کنٹرولڈ ہے‘ لہٰذا الیکشن میں خوب جھرلو پھرتا ہے۔ وہاں ریفرنڈم کا طریقہ عام رہا ہے اور حکمران لیڈر اور اس کی پارٹی کو تھوک کے حساب سے ووٹ ملتے ہیں۔ کرپشن کا سُن لیں‘ آج سے آٹھ نو سال پہلے جب صدر حسنی مبارک کو اقتدار چھوڑنا پڑا تو ایک برطانوی جریدے کے مطابق ان کی ٹوٹل دولت ستر ارب ڈالر تھی‘ بعد میں واشنگٹن پوسٹ کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق صدر حسنی مبارک کے ٹوٹل اثاثے سات سو ارب ڈالر یعنی دس گنا نکلے۔ اسی طرح شام میں اسد فیملی کے اثاثے بھی بہت زیادہ ہیں۔ حال ہی میں بشار الاسد کے چچا رفعت الاسد کو فرانس کی ایک عدالت نے کرپشن کے الزام میں چار سال قید کی سزا سنائی ہے۔ سوڈان کے سابق حاکم عمر البشیر کو پچھلے سال اقتدار چھوڑنا پڑا ‘ ان کے گھر پر چھاپہ پڑا تو تیرہ کروڑ ڈالر برآمد ہوئے۔ عمر البشیر نے صحتِ جرم سے انکار نہیں کیا اور ساتھ ہی کہا کہ اس رقم کا خطیر حصّہ انہیں ایک خلیجی ملک کے لیڈر نے اپنے ذاتی طیارے کے ذریعے بھجوایا تھا۔ یادر ہے کہ مصر اور سوڈان میں غربت واضح طور پر نظر آتی ہے اور اب شام میں بھی غربت ڈیرے ڈال رہی ہے تو پھر چہ عجب کہ عرب عوام اپنے حکام سے بیزار ہیں۔
مجھے لیبیا اور سوڈان کے ناگفتہ بہ حالات دیکھ کر بڑا دکھ ہوتا ہے۔ لیبیا واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ حکومت کو وزیراعظم فائز السراج ہیڈ کر رہے ہیں‘ انہیں ترکی کی عسکری اور اٹلی و قطر کی سیاسی حمایت حاصل ہے۔ عسکری طاقت کے بل بوتے پر جنرل خلیفہ حفتر کی حامی قوات مشرقی حصے یعنی بن غازی کے علاقے پر قابض ہیں۔ بن غازی اور طرابلس کے درمیان کئی وار لارڈ چھوٹی چھوٹی حکومتیں بنا چکے ہیں۔ جنرل حفتر کو مصر‘ فرانس اور چند خلیجی ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ تیل کی دولت سے مالا مال لیبیا ٹکڑوں میں بٹ گیا ہے۔ پچھلے سال سوڈان میں جنرل عمر البشیر کو اقتدار سے علیحدہ کیا گیا تو جنرل عبدالفتاح البرھان نے حکومت سنبھال کر کہا کہ دو سال بعد الیکشن کرا دیا جائے گا‘ لیکن سویلین لیڈر ان کی بات کا اعتبار کرنے سے انکاری تھے‘ کئی ماہ تک مظاہرے ہوتے رہے۔ سوڈان ایک زمانے میں افریقہ کا سب سے بڑا ملک تھا‘اب یہ دو حصوں میں بٹ چکا ہے۔ مصر عرب دنیا کا سب سے معتبر ملک تھا‘ اب وہ بات بھی قصۂ پارینہ ہوئی۔ مصر کئی سال سے دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔ اپنے زمانے کا مضبوط عراق آج لاغرا ور لاچار ہے۔ شام گزشتہ نو سال سے آگ اور خون کا ظالمانہ کھیل دیکھ رہا ہے۔ ان حالات میں اسرائیل کے لیے فلسطین کی مزید اراضی پر قبضہ کرنا آسان ہو گیا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ چند ماہ پہلے امریکی صدر ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی موجودگی میں کہا تھا کہ دریائے اردن کے مغربی کنارے پر جہاں جہاں اسرائیلی بستیاں بن چکی ہیں وہ علاقہ اسرائیل کو دے دیا جائے۔ انہوں نے اپنی اور اسرائیل کی اس تجویز کو ''ڈیل آف دی سنچری‘‘ کا نام دیا تھا۔ جب یہ تجویز پیش کی جا رہی تھی تو بحرین‘ عرب امارات اور سلطنت عمان کے واشنگٹن میں سفرا پریس کانفرنس میں موجود تھے۔ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے یہ تجویز فوراً رد کر دی تھی۔یہ حقیقت عرصے سے عیاں ہے کہ عرب دنیا بُری طرح منقسم ہے۔ بڑے بڑے عرب ممالک بیرونی مداخلت اور اندرونی جنگوں کی وجہ سے کمزورہو چکے ہیں۔ یمن کی جنگ اور تیل کی گرتی ہوئی عالمی طلب نے خلیجی ممالک کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ ان کی ایران کے ساتھ مخاصمت اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہ اسرائیل کو اب دشمن نہیں سمجھتے۔ اس افسوس ناک صورتحال کا سب سے زیادہ نقصان مسئلہ فلسطین کو ہوا ہے۔قرائن بتا رہے ہیں کہ اسرائیل اگلے ماہ مغربی کنارے کا تیس فیصد حصہ ضم کرنے کا اعلان کرے گا۔ پہلے قرارداد اسرائیلی پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی۔ فلسطین پر 1967ء میں قبضہ کئے گئے 30 فیصد علاقے اسرائیل کا حصہ بن جائیں گے اور دنیا خاموشی سے دیکھے گی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد عرب دنیا اس وقت قابلِ رحم حالت میں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں