"JDC" (space) message & send to 7575

شفافیت، احتساب اور میرٹ

حکومت نے پچھلے دنوں مشیروں اور معاونین خصوصی کو اپنی اپنی شہریت اور اثاثے ڈکلیئر کرنے کو کہا۔ ان لوگوں میں سے چند ایک وزیراعظم عمران خان سے پرانی رفاقت رکھتے ہیں۔ بات یہاں پر ختم نہیں ہوئی۔ وزیراعظم نے یہ حکم بھی دیا کہ مہیا کی گئی تمام معلومات کی برملا تشہیر بھی کی جائے۔ میرے نزدیک یہ ایک نئی روایت ہے۔ ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے جس نے ہماری کرپشن زدہ فضا کے تعفن کو کسی حد تک کم کیا ہے۔ یہ کام نہ تو سرے محل والے کر سکتے تھے اور نہ ہی وہ جن کے الحمد للہ لندن میں قیمتی اثاثے ہیں۔
آج کل دنیا میں عمومی طور پر شفافیت کا رجحان ہے۔ وکی لیکس اور پانامہ پیپرز نے کئی پردہ نشینوں کے چہروں سے نقاب اٹھا دئیے ہیں‘ ورنہ ہمیں معلوم ہی نہ ہوتا کہ ہمارے ایک مولانا امریکہ کی مدد سے وزیراعظم بننا چاہتے تھے۔ 2010ء میں وکی لیکس شائع ہوئیں تو اُن میں اسلام آباد میں امریکی سفیر این پیٹرسن کے خفیہ تار بھی تھے جو انہوں نے وقتاً فوقتاً پاکستان کے بارے میں واشنگٹن بھیجے تھے۔ ایک تار میں انہوں نے لکھا کہ پاکستانی قیادت کو ڈرون حملوں پر کوئی بڑا اعتراض نہیں۔ یاد رہے کہ این پیٹرسن کے وقت پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔
2016ء میں پانامہ پیپرز جنہیں پانامہ گیٹ بھی کہا گیا‘ کی وجہ سے بہت بڑا اطلاعات کا سیلاب آیا۔ پانامہ کی ایک لافرم کے کمپیوٹرز سے ایک کروڑ سے زائد ڈاکیومنٹ ہیک (HACK) کئے گئے۔ ان آف شور کمپنیوں میں چند ایک شریف خاندان کی تھیں۔ یہ بذات خود کوئی جرم نہ تھا لیکن لندن کی جائیدادوں کا تعلق ان آف شور کمپنیوں سے نظر آیا۔ یہ تاریخی کام بین الاقوامی صحافیوں کی ایک تنظیم نے کیا تھا۔ چند ممالک کے لیڈر بھی پانامہ گیٹ سے متاثر ہوئے۔ مگر یہ سیلاب ہمارے تین مرتبہ کے وزیراعظم کو بالواسطہ بہا کر لے گیا۔ لگتا ہے کہ عالمی سطح پر تفتیشی صحافیوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ ہم مشکوک پیسہ کما کر دوسرے ملکوں میں رکھنے والے لیڈروں کو بے نقاب ضرور کریں گے۔ یہ عالمی لیول پر شفافیت کی جانب ایک لانگ جمپ (Long Jump )تھا۔
قومی سطح پر مختلف ممالک نے شفافیت لانے کی حتی المقدور کوشش کی ہے۔ انڈیا میں چیف انفارمیشن کمشنر کا عہدہ 2005ء میں قائم ہوا اور مشہور سول سرونٹ وجاہت حبیب اللہ پہلے چیف انفارمیشن کمشنر لگائے گئے۔ وہ اس عہدے پر پانچ سال رہے۔ جناح انسٹیٹیوٹ کی دعوت پر پاکستان بھی آئے۔ مجھے اسلام آباد میں ان کی گفتگو سننے کا موقع ملا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومتی فائلوں کو رازداری کا بہانہ بنا کر چھپانا اب فرسودہ بات ہو چکی ہے۔ عوام کا حق ہے کہ سرکاری محکموں سے مطلوبہ معلومات حاصل کر سکیں۔ اپنی بات کی تشریح کرتے ہوئے وجاہت حبیب اللہ کہنے لگے کہ جہاں سورج کی روشنی زیادہ ہو گی وہاں جراثیم کم ہوں گے۔ جرائم زیادہ رات کے اندھیرے میں ہوتے ہیں۔ ہمارا کام عوام کو بروقت معلومات کی روشنی فراہم کرنا ہے۔ انڈیا میں اس وقت علاقائی سطح پر دس انفارمیشن کمیشن بھی کام کر رہے ہیں جو چیف صاحب کی اعانت کرتے ہیں وہاں یہ تجربہ خاصا کامیاب رہا ہے اور اس سے بیورو کریسی کے کام میں شفافیت آئی ہے۔
پاکستان میں فریڈم آف انفارمیشن کے حوالے سے کام جنرل مشرف کے زمانے میں شروع ہوا، مگر حتمی قانون 2017 میں پاس ہوا۔ پیپلز پارٹی نے اپنے پانچ سالوں میں ادھر توجہ نہیں دی۔ 2017ء کے قانون کی رو سے پاکستان میں انفارمیشن کمیشن موجود ہے۔ انٹرنیٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق اس کا دفتر ایف 8 اسلام آباد میں موجود ہے لیکن مجھے نہیں معلوم کہ ہمارا انفارمیشن کمشنر کون ہے۔ بیورو کریسی کو یہ بات سوٹ کرتی ہے کہ اُس سے زیادہ جواب طلبی نہ ہو۔ کئی سال ہوئے فیڈرل ہائوس فائونڈیشن نے اسلام آباد کے سیکٹر جی 13 میں کمرشل مرکز، پارکوں اور سکولوں سے زمین لے کر سو سے زائد رہائشی پلاٹ بنائے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی منظوری سے یہ پلاٹ منظور نظر افسروں کو الاٹ کئے گئے۔ جی 13 کے مکینوں کی تنظیم نے ڈی جی کو خط لکھا کہ ہمیں اُن افسروں کے نام بتائے جائیں جنہیں پلاٹ الاٹ ہوئے ہیں۔ اُس خط کا جواب آج تک موصول نہیں ہوا۔ شاید بڑی وجہ یہ تھی کہ ایک پلاٹ ڈی جی صاحب کو بھی ملا تھا۔
احتساب جمہوریت کا حسن ہے اگر امریکہ میں احتساب کا عمل نہ ہوتا تو صدر نکسن کو مستعفی نہ ہونا پڑتا۔ مگر وطن عزیز کی چند سیاسی جماعتیں جمہوریت کے خالی خولی گُن بہت گاتی ہیں لیکن اپنے احتساب کے خلاف ہیں۔ آج کل یہی جماعتیں مطالبہ کر رہی ہیں کہ نیب کو ختم کیا جائے۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔
چند وجوہات کی بنا پر نیب متنازع ضرور ہے لیکن یہ کہنا کہ اس کی کارکردگی صفر ہے حقائق کی نفی ہوگی۔ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور موجودہ چیف جسٹس گلزار احمد نے بھی نیب کی اصلاح کی جانب واضح آرا دی ہیں۔ نیب کی اصلاح ضرور ہونی چاہیے لیکن اس کو ختم کرنا جمہوریت پر وار ہوگا۔ ادارے بنتے بڑی مشکل سے ہیں مگر انہیں تباہ کرنے میں دیر نہیں لگتی۔
اگر شفافیت کی طرف دوبارہ دیکھیں تو ہمیں اپنی سالمیت اور ترقی کے لیے ایک شفاف نظام کی ضرورت ہے۔ عالمی تقاضے بھی یہی ہیں۔ آج ایف اے ٹی ایف (FATF) کے حوالے سے بھی ہم پر پریشر ہے۔ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی فنانسنگ نہ عالمی برادری کو منظور ہے اور نہ ہی ہمیں قبول ہونی چاہیے۔ موجودہ حکومت اس بات کا ادراک رکھتی ہے۔ یہاں میری یہ تجویز ہوگی کہ انفارمیشن کمیشن کو فعال بنایا جائے اور بے داغ شہرت والے افسر وہاں لگائے جائیں۔
وہ معاشرے جہاں میرٹ کی قدر ہو پھلتے پھولتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں پاکستانی ٹرک ڈرائیور کا بیٹا لندن کا میئر بنتا ہے۔ ہر لائق بچے کو یقین ہوتا ہے کہ وہ محنت کر کے اعلیٰ عہدوں تک جا سکتا ہے‘ خواہ اس کا تعلق غریب گھرانے سے ہی کیوں نہ ہو۔
پاکستان میں اگر کسی ادارے میں مکمل میرٹ آج بھی موجود ہے تو وہ افواجِ پاکستان ہیں۔ چند سال پہلے کی بات ہے میری ایک فنکشن میں ایک تھری سٹار جنرل صاحب سے ملاقات ہوئی۔ جو آرمی سے تازہ تازہ ریٹائر ہوئے تھے اور ان کا آخری عہدہ ملٹری سیکرٹری کا تھا۔ آرمی میں یہ کلیدی پوزیشن ہے جہاں ٹریننگ، ترقی، تنزلی، ڈسپلن ہر قسم کے امور طے پاتے ہیں۔ کسی بھی سویلین یا ملٹری افسر کے کیریئر میں سالانہ خفیہ رپورٹ کا اہم رول ہوتا ہے میں نے جنرل صاحب سے پوچھا کہ آرمی اس بات کو کیسے یقینی بناتی ہے کہ اے سی آر صحیح لکھی گئی ہے۔ کہنے لگے کہ ہر اے سی آر کمپیوٹر میں درج کی جاتی ہے اگر کسی ماٹھے افسر کی کوئی اے سی آر بہت اچھی ہو تو کمپیوٹر گھنٹی بجا دیتا ہے‘ اسی طرح کسی اچھے افسر کو عام سی رپورٹ ملے تو بھی کمپیوٹر الارم بجا دیتا ہے۔ دونوں صورتوں میں رپورٹنگ افسر کو لکھ کر وضاحت دینا پڑتی ہے۔ ہماری مسلح افواج میں میرٹ کی وجہ سے ہی مورال بلند ہے۔ جنگی صلاحیت عمدہ ہے اور دہشت گردی کے خلاف کامیابی سے جنگ لڑی گئی ہے۔ جہاں جہاں شفافیت، ا حتساب اور میرٹ نظر انداز کئے گئے وہاں ادارے تباہ ہوئے اور اس کی بڑی مثال پی آئی اے ہے۔ سویلین اداروں میں ٹریننگ اور اے سی آر کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ماٹھے افسروں کو جلد ریٹائر کرنے کا فیصلہ اچھا ہے اگر یہ کام ایمانداری اور شفافیت سے ہو۔ ہم گلوبل ویلیج میں رہ رہے ہیں ہمیں ایف اے ٹی ایف کے تقاضے پورا کرنا ہوں گے۔ آج کی دنیا میں منی لانڈرنگ اور بے نامی اکائونٹس کی کوئی گنجائش نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں