"JDC" (space) message & send to 7575

برما میں مزید فوجی مداخلت

برما‘ جس کا نیا نام میانمار ہے، برٹش امپائر کے زمانے میں کئی عشروں تک بر صغیر کے انتظامی ڈھانچے میں شامل رہا۔ 1887ء میں وہاں تیل دریافت ہوا، برما شیل کمپنی بنی۔ کاروبار اور ثروت میں وسعت آئی تو برٹش انڈیا کے مختلف حصوں سے لوگ برما گئے۔ ان میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے۔ میمن برادری کاروبار میں آگے آگے تھی۔ بنگال سے روہنگیا مسلمان وہاں پہنچے۔ پنجاب کے شمالی اضلاع سے کئی لوگ تلاش رزق میں وہاں گئے۔ ہمارے معروف ماہر قانون جناب ایس ایم ظفر کا بچپن بھی رنگون میں گزرا۔ 1948ء میں جب برما آزاد ہوا تو رنگون میں تقریباً ایک سو مساجد تھیں‘ درجنوں مندر بھی تھے اور بدھ مت والوں کے پگوڈے اور راہب گھر یعنی Monastries تو بے شمار تھیں کیونکہ بدھ یہاں واضح اکثریت میں ہیں۔
میانمار رقبے میں بنگلہ دیش سے بڑا ہے اور پاکستان کے ٹوٹل ایریا کا تقریباً تین چوتھائی یعنی پچھتر فیصد ہے۔ آبادی ساڑھے پانچ کروڑ ہے۔ بارش اس ملک میں خوب ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر طرف ہریاول ہی ہریاول ہے۔ یہ ایک سرسبز علاقہ ہے۔ ستر فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے اور زراعت پیشہ ہے۔ دیہی علاقوں میں غربت بہت ہے اور اس بات کا میں ذاتی شاہد ہوں۔ بر صغیر سے لوگ کاروبار کے علاوہ دوسری عالمی جنگ کے سلسلے میں بھی برما گئے تھے کہ وہاں جاپان کا قبضہ ہو چکا تھا۔ اس زمانے کی انڈین فلموں میں پیا رنگون پہنچ کر اکثر اپنی محبوبہ کو فون کرتے نظر آتے تھے۔ اسی بیک گرائونڈ کا ایک فلمی گانا بہت مشہور ہوا تھا۔
یہ تو تھی تمہید اور اب آتے ہیں موضوع کی جانب۔ برما میں پچاس سال تک فوجی حکومت رہی۔ آپ کو یاد ہو گا 1962 میں جنرل نی ون (Ni win) نے مارشل لا لگایا تھا اور ان کی حکومت لمبا عرصہ چلی تھی۔ جنرل صاحب کا دعویٰ تھا کہ وہ سوشلسٹ ہیں لہٰذا صنعت اور کاروبار کو پہلے قومی تحویل میں لے لیا گیا اور پھر نیشنل ازم کا نعرہ لگا کر لوکل لوگوں کے حوالے کر دیا گیا۔ اس سے جنرل نی ون کو سستی شہرت تو ضرور مل گئی لیکن معیشت کو بڑا نقصان پہنچا۔ اس لیے کہ لوکل لوگ انڈین، پاکستانی اور چینی تاجروں والا تجربہ نہیں رکھتے تھے۔ جنرل نی ون کے زمانے میں بہت سے مسلمان ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔ ان میں سے اکثر پہلے پاکستان آئے اور پھر سعودی عرب چلے گئے تھے۔
آنگ سان سُوچی (Aung san suukyi) ایک عرصے سے برما میں جمہوریت کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ ان کے والد جنرل آنگ سان برٹش آرمی میں تھے، پھر جنگ آزادی کے ہراول دستے میں شامل ہو گئے۔ انہیں 1947ء میں آزادی سے قبل ہی قتل کر دیا گیا تھا۔ آج بھی برمی قوم بشمول ملٹری اسٹیبلشمنٹ انہیں ہیرو مانتی ہے۔ آزادی کے بعد سُوچی کی والدہ سفارتی عہدوں پر فائز رہیں، اس لئے اس جمہوریت پسند لیڈر کا بچپن ملک سے باہر گزرا۔ اعلیٰ تعلیم انگلینڈ میں حاصل کی۔ 1988 میںوطن واپس آئیں تو میانمار میں فوجی آمریت تھی۔ سُوچی نے اپنی پارٹی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (NLD) کے ذریعے جمہوریت کے لیے جدوجہد شروع کر دی۔ فوجی حکمران اگلے ہی سال 1989 میں الیکشن کرانے پر مجبور ہوئے۔ انتخابات میں سُوچی کی پارٹی نے شاندار کامیابی حاصل کی مگر عسکری حکمرانوں نے نتائج تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اس کے نتیجے میں رنگون میں ہنگامے ہو گئے‘ جن میں یونیورسٹی کے طلبا پیش پیش تھے۔ اسی صورت حال کے پیشِ نظر ینگون (رنگون کا نیا نام) یونیورسٹی سالوں بند رہی۔ سوچی کو اپنے ہی گھر میں نظر بند کر دیا گیا اور یہ نظر بندی پندرہ سال جاری رہی۔ 1991ء میں سوچی کو نوبیل پرائز ملا اور وہ مغربی دنیا کی آنکھوں کا تارا بن گئیں۔ ان کی پارٹی پر پابندی لگی رہی اور میانمار پوری دنیا میں تنہا ہو گیا۔
یہاں ایک اہم واقعہ قارئین کی دلچسپی کا باعث ہو گا۔ 1948ء میں کراچی میں غیر ملکی سفارت خانے کھلنے لگے۔ سفرا کی سنیارٹی کا تعین ان کی آمد کی تاریخ اور وقت سے ہوتا ہے۔ 1948 میں برطانیہ اور برما کے نامزد سفیر ایک ہی فلائٹ سے کراچی پہنچے۔ اب پروٹوکول والوں کے لیے مسئلہ بن گیا کہ دونوں سفرا میں سے سینئر کون ہے اور کون پہلے اپنی اسنادِ سفارت قائدِ اعظم کو پیش کرے گا۔ معاملہ قائدِ اعظم کے سامنے رکھا گیا۔ ان کا فیصلہ تھا کہ وہ پہلے برما کے سفیر کی اسناد وصول کریں گے۔ برما اس زمانے میں مشرقی پاکستان کے حوالے سے ہمارا ہمسایہ تھا۔ قائد کی سیاسی بصیرت کی داد دینا پڑتی ہے۔
آنگ سان سُوچی کی طویل جدوجہد کے باوجود امسال یکم فروری سے میانمار سے وہ گلابی قسم کی جمہوریت بھی غائب ہو گئی ہے جو چند سال پہلے قائم ہوئی تھی۔ ینگون کی سڑکوں پر ٹینک گشت کر رہے ہیں اور ہر طرح کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ مجھے پاکستان اور میانمار کی صورت حال اور جمہوری جدوجہد میں خاصی مماثلت نظر آتی ہے۔ دونوں ممالک میں دو خواتین نے لمبے عرصے تک جمہوریت کی جنگ لڑی۔ بالآخر دونوں کو مقتدرہ سے مفاہمت کرنا پڑی۔ بینظیر بھٹو نے این آر او کے ذریعے سیاست میں دوبارہ داخلے کو یقینی بنایا تو سُوچی نے 2008ء کے دستور کو با دلِ نخواستہ قبول کیا۔ دونوں خواتین لیڈر ایک دوسرے کی مداح تھیں۔ 2010ء میں پاکستانی حکومت نے میانمار کی لیڈر کے لیے بینظیر ایوارڈ برائے جمہوریت کا اعلان کیا۔ 2012ء کے آغاز میں صدر آصف علی زرداری خود ینگون گئے اور ایوارڈ خاتون لیڈر سوچی کو پیش کیا۔
2008ء کا دستور میانمار کے عسکری لیڈروں نے خود بنایا تھا۔ اس دستور کی رو سے پارلیمنٹ کی ایک چوتھائی نشستیں عسکری قیادت کی صوابدید پر چھوڑی گئیں۔ سول حکومت فوج کے انتظامی امور میں دخل نہیں دے سکتی تھی۔ پولیس اور امیگریشن عسکری کنٹرول میں ہے۔ سوچی نے چونکہ برطانوی شہری سے شادی کی تھی، لہٰذا وہ صدر یا وزیر اعظم نہیں بن سکتی تھیں۔ 2015ء کے الیکشن میں کامیابی کے بعد سُوچی کے لیے سٹیٹ کونسلر کا نیا عہدہ وضع کرنا پڑا۔ نومبر 2020ء کے الیکشن میں سوچی کی پارٹی نے پھر شاندار کامیابی حاصل کر لی‘ لیکن برما کی عسکری قیادت نے الیکشن کے نتائج قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے‘ حکومت کا تختہ الٹ دیا ہے اور الیکشن کمیشن کو تحلیل کر دیا گیا ہے۔
آج کل سوشل میڈیا پر کئی لوگ میانمار اور پاکستانی عسکری قیادت میں مماثلت ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں، حالانکہ دونوں ممالک میں صورتحال مختلف ہے۔ پاکستانی عساکر نے کبھی پارلیمنٹ میں اپنا حصہ نہیں مانگا۔ پاکستان میں پولیس اور امن و امان صوبائی سویلین حکومتوں کے پاس ہے، جبکہ میانمار میں یہ عسکری کنٹرول میں ہیں۔ پاکستان میں اپوزیشن میگا کرپشن کے الزامات کی زد میں ہے جبکہ میانمار میں این ایل ڈی کو ایسے الزامات کا سامنا نہیں بلکہ اس کے برعکس وہاں یہ تاثر عام تھا کہ فوجی حکومتوں میں کرپشن زیادہ ہوتی ہے اور یہ صورتحال میں نے 1997ء میں وہاں اپنی پوسٹنگ کے دوران دیکھی ہے۔ مجھے وہاں چند ماہ ہی گزرے تھے کہ حکمران وقت میاں نواز شریف کو خیال آیا کہ میرا ہم زلف ینگون میں پاکستان کی بہتر نمائندگی کر سکتا ہے۔ یہ اقربا پروری کی انتہا تھی اور اقربا پروری بھی کرپشن ہے۔
امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا نے یکم فروری کے عسکری اقدام کی مذمت کی ہے۔ آسیان کی تنظیم‘ جس کا میانمار 1997ء سے ممبر ہے‘ نے بھی محتاط تنقید کی ہے۔ میانمار کی عسکری قیادت اکیسویں صدی کی سیاسی سوچ کا صحیح ادراک رکھنے سے قاصر ہے۔ یکم فروری کے اقدام کے بعد برما میں ہر طرف خاموشی ہے، لیکن یہ خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ بھی ہو سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں