"JDC" (space) message & send to 7575

وعدے جووفا نہ ہوئے

پچھلے دنوں ٹی وی پر غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری اور میزائلوں کی بارش دیکھ کر طبیعت خاصی مکدّر رہی ہے۔ عرب دنیا سے میرا جذباتی اور پروفیشنل تعلق ایک عرصے سے ہے۔ ویسے تو ہر مسلمان کا القدس سے روحانی رشتہ ہے مگر میں نے عربی زبان سیکھی تو یہ رشتہ اور گہرا ہو گیا۔ عرب دنیا کی صورتِ حال کا تجزیہ اور رپورٹنگ ایک عرصہ میری پروفیشنل زندگی کا حصہ رہے۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے مگر اور طریقے سے۔ جب میرا عرب دنیا سے پروفیشنل تعلق قائم ہوا تو اکثر عرب لیڈر بشمول یاسر عرفات‘ شاہ فیصل‘ انور السادات‘ کرنل قذافی اور حافظ الاسد سب فلسطین کی آزادی کے لیے پُرجوش تھے۔ آج ایران‘ ترکی اور پاکستان تو فلسطین کی بات کرتے ہیں مگر بیشتر عرب لیڈر خاموش ہیں۔ عرب عوام کو عمومی طور پر اور فلسطینیوں کو خاص طور پر اس بات کا بڑا دکھ ہے۔
عربوں کی بے بسی دیکھ کر ترس آتا ہے، فلسطینی بھی باقی عربوں کی طرح منقسم ہیں ۔یہ جنگ حماس تنظیم نے الفتح کی مدد کے بغیر لڑی ہے۔ غزہ کی ٹوٹل آبادی تقریباً بتیس لاکھ ہے اور اکثر لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ شنید ہے کہ میزائل کچھ تو انہیں ایران فراہم کرتا ہے اور کچھ یہ گھروں میں بناتے ہیں۔ انہوں نے صحرائے سینا کی جانب سرنگیں بنائی ہوئی ہیں جہاں سے سمگلنگ ہوتی ہے۔ اب گھروں میں بنائے ہوئے بنیادی قسم کے میزائل اسرائیل کا کیا بگاڑ لیں گے۔ ممولہ شہباز سے لڑا تو خوب ہے لیکن تاریخ شاہد ہے کہ ایسے میں فتح اکثر شہباز کی ہوتی ہے‘ اسرائیل نے اپنی فضائی حدود میں میزائل شکن نظام نصب کیا ہوا ہے جو نوے فیصد سے زیادہ میزائل ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی تباہ کر دیتا ہے۔
یقینا اسرائیل بہت طاقتور ہے لیکن ایک چھوٹی سی تنظیم نے اُسے ہلا کر ضرور رکھ دیا ہے۔ اس مسئلہ پر یو این سکیورٹی کونسل ایک سپر پاور کی وجہ سے کوئی مؤثر رول ادا نہیں کر سکی لیکن عوامی سطح پر مسئلہ فلسطین اور غزہ کے عوام کے زخم بہت نمایاں ہوئے ہیں۔ تمام دنیا میں مظاہرے ہوئے ہیں‘ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے غزہ پر جارحیت کو انسانیت کا قتل قرار دیا ہے‘ پاکستان میں حکومتی اور عوامی سطح پر ردعمل دیکھنے میں آیا‘ ایک عرصے بعد پارلیمنٹ میں حکومت اور اپوزیشن ایک صفحے پر تھیں‘ سب سے نمایاں رول سوشل میڈیا کا رہا ہے۔ ایک دس سالہ فلسطینی بچی کی وڈیو وائرل ہوئی جو اپنے تباہ شدہ گھر کے آگے کھڑی پوری دنیا سے پوچھ رہی ہے کہ میرا کیا قصور ہے۔
اور اب موضوع پر فوکس کرتے ہیں۔ فلسطین چار سو سال سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ تھا۔ پہلی عالمی جنگ میں ترکی کو شکست ہوئی تو یہاں برطانوی کنٹرول قائم ہوا۔ عالمی جنگ میں یورپی یہودیوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے پہلا وعدہ 1917ء میں کیا گیا۔ یہ وعدہ برطانیہ کی طرف سے ایک خط میں کیا گیا تھا کہ یہودیوں کو فلسطین میں آباد کیا جائے گا۔ اس خط میں یہودی ریاست کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ اُس وقت فلسطین میں مسلم آبادی یہودیوں سے چھ گنا زیادہ تھی‘ آج یہ آبادی تقریباً برابر ہے اور وہ بھی غزہ کے بیس لاکھ لوگ شامل کر کے۔ فلسطین کے بارے میں دوسرا وعدہ بھی حکومت ِبرطانیہ کی طرف سے 1939ء میں ہوا۔ حکومت ِبرطانیہ نے ایک وائٹ پیپر شائع کیا‘ چیمبر لین (Chember Lain)اُس وقت وزیراعظم تھے۔ اس پیپرمیں کہا گیا کہ اگلے پانچ سال میں 75ہزار یہودی فلسطین میں آباد کئے جائیں گے اور انہیں صرف پانچ فیصد علاقے میں جائیداد خریدنے اور کام کرنے کا حق ہوگا۔ آج اسرائیل کی آبادی نوے لاکھ سے متجاوز ہے اور ان میں سے 75فیصد یہودی ہیں۔
1988ء میں یاسر عرفات نے اعلان کیا کہ ہم اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ 1993ء میں اوسلو معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس معاہدے میں بنیادی طور پر دو ریاستی حل کو تسلیم کیا گیا یعنی اسرائیل کے ساتھ ایک فلسطینی ریاست قائم ہوگی جو دریائے اردن کے مغربی کنارے پر حکمران ہوگی۔ یاسر عرفات شمعون پیریز اور اسحاق رابن کو نوبیل امن انعام بھی مل گئے لیکن فلسطین میں امن نہ آ سکا۔ مغربی کنارے پر نئی یہودی بستیاں آباد ہونے لگیں۔ ایک اور وعدہ خاک میں ملا دیا گیا۔
جو کچھ فلسطین میں ہوا ہے وہ مستقبل میں کشمیر میں دہرائے جانے کا قوی امکان ہے 1947ء تک جموں میں مسلمان آبادی 61فیصد تھی آج یہ 37فیصد ہے یعنی اکثریت اقلیت میں تبدیل کر دی گئی ہے۔ لداخ میں پہلے ہی بدھ مت کے پیروکار اکثریت میں ہیں۔ اب رہ گئی مقبوضہ وادی کشمیر تو وہاں دھڑا دھڑ باہر کے لوگ بسائے جا رہے ہیں تاکہ آبادی کا تناسب بدل جائے۔26اکتوبر 1947ء کو انڈین آرمی سرینگر میں آنے کے بعد مہاراجہ ہری سنگھ سے الحاق کی دستاویز پر دستخط لئے گئے۔ ریاست میں اس وقت عوامی بغاوت کی حالت تھی۔ مہاراجہ اپنے محل سے فرار ہو چکا تھا۔ مہاراجہ کی قانونی حیثیت ختم ہو چکی تھی مگر اُسے ڈھونڈ کر زبردستی الحاق کی دستاویز سائن کرائی گئی ‘مگر دنیا کو یہی تاثر دیا گیا کہ مہاراجہ نے دستخط برضا و رغبت کئے ہیں۔ وادی کے لوگوں میں شدید غم و غصہ تھا۔ پاکستان آرمی قبائل کی مدد سے ایک تہائی کشمیر آزاد کرا چکی تھی ‘گلگت بلتستان بھی مہاراجہ کے تسلط سے آزاد ہو چکا تھا کہ یکم جنوری 1948ء کو انڈیا کشمیر کیس اقوام متحدہ لے گیا۔ یو این نے اپنی قراردادوں کے ذریعے فیصلہ دیا کہ اس کی اپنی نگرانی میں کشمیر میں ریفرنڈم ہوگا تاکہ لوگوں کی رائے معلوم کی جائے۔ گویا یہ کشمیر کے عوام کے ساتھ انٹرنیشنل وعدہ تھا اور اس وعدے کا جو حشر انڈیا نے کیا وہ ہم سب جانتے ہیں۔
انڈیا کو بخوبی علم تھا کہ مقبوضہ جموں کشمیر کے لوگ اُس کے قبضے میں رہ کر بے حد ناخوش ہیں لہٰذا انہیں اوپر نیچے دو تین میٹھی گولیاں دی گئیں۔ اُن سے وعدہ کیا گیا کہ ریاست کا اپنا آئین ہوگا‘ اپنا پرچم ہوگا‘ گورنر کو صدرِ ریاست کہا جائے گا‘ وزیراعلیٰ کو وزیراعظم لکھا جائے گا‘ ریاست کی اپنی قانون ساز اسمبلی ہوگی جو پہلے آئین بنائے گی۔ پھر کشمیریوں کو ایک اور شاندار گولی آرٹیکل 370کے ذریعے دی گئی۔ یہ آرٹیکل کوئی عام وعدہ نہ تھا بلکہ انڈین دستور کا حصّہ تھا۔ اس آرٹیکل کے تحت جموں کشمیر کو عام صوبوں سے بڑھ کر بہت زیادہ خود مختاری دی گئی۔ صرف دفاع‘ امور خارجہ اور مواصلات کے امور سنٹر کے پاس ہے باقی تمام اختیارات کشمیر کو دے دیے گئے۔
کشمیری عوام اور لیڈر 1947ء میں جموں سے مسلمانوں کا انخلا دیکھ چکے تھے۔ انہیں خوف لاحق تھا کہ وادی میں بھی اور لوگوں کو بسا کر آبادی کا تناسب بدلنے کی کوشش ہو سکتی ہے‘ لہٰذا آرٹیکل 35-Aکی شکل میں ایک اور لالی پاپ دیا گیا۔ اس آرٹیکل کے تحت کشمیر میں رہنے اور جائیداد خریدنے کا حق صرف کشمیری شہریوں کو دیا گیا‘ اس وعدے کو مزید راسخ کرنے کے لیے اس بات کا اختیار صرف کشمیر اسمبلی کو دیا گیا کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ کون کشمیری ہے اور کون نہیں۔ 5اگست 2019ء یہ سب وعدے ہوا میں تحلیل ہو گئے۔
پنڈت جواہر لعل نہرو نے متعدد بار کہا کہ کشمیر میں ریفرنڈم کرانے کا وعدہ صرف کشمیریوں سے نہیں بلکہ پوری دنیا سے ہے اور پھر اُس وعدے سے کیسے انحراف کیا گیا یہ ہمیں معلوم ہے فلسطینی اور کشمیری عوام کی دکھ بھری داستان میں بڑی مماثلت ہے اور اس میں سب سے اہم پہلو پے در پے وعدہ شکنی کا کامن فیکٹر ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں