"JDC" (space) message & send to 7575

جہاں دوست

مشہور چینی مقولہ ہے کہ اگر آپ مسکرا نہیں سکتے تو تجارت شروع نہ کریں۔ خوش اخلاقی، مدلل بات چیت، مارکیٹ کے حالات کی ہمہ وقت خبر، صارف کی پسند اور نا پسند کا ادراک اور سب سے بڑھ کر صارف کا اعتماد حاصل کرنے کی لگن، یہ ہیں وہ اجزائے ترکیبی جو ایک کامیاب بزنس مین کے ارتقا میں شامل ہوتے ہیں۔ مندرجہ بالا خوبیاں رکھنے والے کئی کامیاب بزنس مین پاکستان میں مل جائیں گے، لیکن ان میں بہت کم ہیں جو باقاعدگی سے سفارتی تقریبات میں مدعو ہوتے ہیں‘ جو تواتر سے اردو اور انگریزی کالم لکھتے ہیں۔ فیڈریشن چیمبر سے لے کر مقامی چیمبر تک اپنی لیڈرشپ ہمہ جہت صفات کی بدولت تسلیم کرواتے ہیں۔
شیخ سعدی فارسی زبان کے عظیم شاعر اور داستان گو ہیں۔ ان کی ہر کہانی سبق آموز ہوتی ہے۔ علم و دانش کی تلاش میں تیس سال سفر کرتے رہے۔ اکثر جگہ مہینوں قیام کیا اور آگے چل پڑے۔ ایران کے رہنے والے تھے۔ عرصے تک بغداد اور دمشق میں قیام کیا کیونکہ یہ دونوں شہر اس وقت علوم کے مراکز تھے۔ جب حالتِ سفر اختتام پذیر ہوئی تو ان سے پوچھا گیا کہ آپ متعدد جگہ گئے کون سی جگہ آپ کو سب سے اچھی لگی۔ شیخ سعدی نے ایک غیر معروف سے قصبے کا نام لیا۔ جب استفسار ہوا کہ وہاں آپ کو کیا پسند آیا تو جواب دیا کہ مجھے وہاں دوست بہت اچھے ملے۔ ''جہاں دوست‘‘ ظفر بختاوری صاحب کی تازہ کتاب کا ٹائٹل ہے اور وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ان کا دائرہ احباب ساری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ کالم پانچ سو صفحے پر محیط، ان کے کالموں کے مجموعے کا سرسری جائزہ ہے۔
بختاوری صاحب کے والد محترم غلام نبی بختاوری سرگودھا میں تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن تھے۔ ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے تحریک کارکنانِ پاکستان نے انہیں گولڈ میڈل سے نوازا۔ اس طرح ظفر صاحب کو پاکستان سے محبت گویا ورثے میں ملی اور یہ احساس ان کے کالموں میں جگہ جگہ جھلکتا ہے۔ جب والد نے دیکھا کہ بیٹا ہونہار ہے تو اسے ڈاکٹر بننے کا ہدف دیا۔ فرمانبردار بیٹے نے والد کی خواہش پوری کرنے کی ازبس کوشش کی لیکن بینائی کی کمزوری کی وجہ سے دانتوں کی جراحی کی تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی۔ انگلستان میں ڈاکٹر واٹسن سے علاج کروایا اور بینائی کے جزوی بحال ہونے پر ایم اے کیا۔ سرکاری ملازمت کا خیال آیا مگر اسے ترک کر کے تجارت میں آئے، جہاں متعدد کامیابیاں ان کے استقبال کیلئے منتظر تھیں۔ پہلی فارمیسی کھولی تو اس کے نام کو اپنے محسن ڈاکٹر ڈی واٹسن سے منسوب کیا۔ احسان کو یاد رکھنا اور وضع داری ظفر بختاوری کی شخصیت کا نمایاں پہلو ہے۔ آج ڈی واٹسن کا نام جڑواں شہروں میں آپ کو درجنوں جگہ نظر آتا ہے۔ نیت نیک ہو اور انسان محنت کرے تو اللہ تعالیٰ کامیابی ضرور دیتا ہے۔ ڈی واٹسن اب محض فارمیسی نہیں اس کے متعدد شعبے ہیں اور یہ ایک کامیاب اور پرکشش برانڈ بن چکا ہے۔
ظفر بختاوری اپنے عہد کے شیخ سعدی بھی ہیں یعنی دنیا جہان گھومے ہیں۔ ہر جگہ دانش کی تلاش میں رہے اور اپنے وطن کے مفاد کی بات کی۔ سفارت کاروں سے ان کا میل جول کئی عشروں پر محیط ہے اور یہ ملاقاتیں ذاتی دوستیاں بنتی رہیں۔ اس کی وجہ ان کے دوستانہ رویے کے علاوہ اور بھی ہو سکتی ہے۔ میرا سفارت کاری کا پینتیس سالہ پریکٹیکل تجربہ یہ کہتا ہے کہ اچھا سفارت کار عموماً با خبر اور با اثر لوگوں کی تلاش میں رہتا ہے اور ظفر بختاوری کو ملکی اور خارجہ امور کے حالات کی تازہ ترین صورتحال معلوم ہوتی ہے۔
امور خارجہ کے بارے میں ظفرصاحب کی اپنی رائے ہے۔ وہ خارجہ پالیسی میں مکمل غیر جانبداری کے حامی ہیں۔ دوسروں کی جنگوں میں کلیدی رول ادا کرنے کے مخالف ہیں اور ہمارے اس رول کو خارجہ پالیسی کی ناکامی کا سبب گردانتے ہیں۔ یہ بات ایک حد تک تو ٹھیک ہے لیکن فارن پالیسی کسی جامد چیز کا نام نہیں، یہ وقت کے ساتھ ساتھ تجربات کی بنا پر تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ مثلاً یمن کی جنگ میں ہم نے فریق نہ بننے کا فیصلہ کیا جو بالکل درست تھا۔
پاکستان کا مفاد صاحبِ کتاب کے ہمیشہ محلِ نظر رہا۔ سیکرٹری جنرل وزارت خارجہ اکرم ذکی مرحوم نے ایک تقریب میں یہ الفاظ کہے تھے ''پاکستان کے دو دفتر خارجہ ہیں، ایک سرکاری دفتر خارجہ اور دوسرا ظفر بختاوری کی شکل میں متحرک دفتر خارجہ اور میرے خیال میں یہ دفتر خارجہ، سرکاری سے زیادہ مؤثر کام کر رہا ہے‘‘۔ ذکی صاحب کی بات بادی النظر میں مبالغہ آمیز نظر آتی ہے لیکن ظفر صاحب کی سرگرمیوں کا بغور مشاہدہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ خارجہ امور کے بارے میں ان کی رائے محض نظریاتی نہیں ہے، بلکہ وہ تطبیقی سوچ بھی رکھتے ہیں، ایک مرتبہ پاک روس فرینڈشپ ایسوسی ایشن کی دعوت پر ماسکو گئے وہاں ان سے سوال ہوا کہ پاک روس دو طرفہ تعاون کو بہتر کرنے کیلئے مزید کیا اقدامات ہو سکتے ہیں؟ ظفر صاحب نے جواب دیا: عسکری تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے۔
کتاب کے آغاز میں چند صاحب الرائے شخصیات نے ظفر صاحب کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کئے ہیں۔ ضیا شاہد صاحب نے لکھا ہے ''خوش پوش، خوش کلام اور خوش باش ظفر واقعی بخت آور ہیں کہ ان کے دوستوں کا حلقہ اتنا وسیع ہے کہ اس بارے میں مجھے ان پر رشک آتا ہے‘‘۔ بقول پروفیسر فتح محمد ملک ''ادبیات کی تعلیم کی تکمیل کے بعد بختاوری صاحب نے تجارت کو تہذیب آشنا کرنے کی ٹھانی‘‘ یاد رہے کہ بختاوری صاحب نے ماسٹرز کی ڈگری اردو ادب میں امتیازی درجے میں حاصل کی تھی۔
بزنس مین عام طور پر ٹیکس دینے سے کتراتے ہیں، لیکن بختاوری صاحب اپنے کالموں میں حکومت کو ٹیکس بیس بڑھانے کے مشورے دیتے نظر آتے ہیں۔ اسلام آباد چیمبر کی طرف سے وفد انڈیا گیا۔ انڈین پنجاب کے تاجروں نے دہلی میں عشائیہ دیا۔ وہاں بات چیت اور لہجے سے صاحب کتاب نے چکوال سے گئے ہوئے ''گرائیں‘‘ ڈھونڈ نکالے۔ جب انہیں خطاب کی دعوت دی گئی تو بختاوری صاحب نے کہا کہ بھارت نے ایٹمی دھماکے کر کے برصغیر پر اس حوالے سے احسان کیا ہے کہ جواباً پاکستان کو بھی دھماکے کرنا پڑے اور اب انڈیا اور پاکستان دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں لہٰذا اب کسی جنگ کا اندیشہ ختم ہو گیا ہے۔
کتاب بڑی سلیس اردو میں لکھی ہوئی ہے، لیکن پڑھ کر اس بات کا علم ضرور ہوتا ہے کہ مصنف علم اور ادب دوست ہے۔ کتاب میں متعدد کامیاب بزنس مین موضوع سخن ہیں۔ نوابزادہ نصر اللہ خان سے لے کر چودھری شجاعت حسین تک کئی معروف شخصیات پر معلومات سے پُر کالم ہیں۔ صاحبِ کتاب نے نصف صدی سے پاکستانی سیاست کا بھرپور مشاہدہ کیا ہے اور ملکی معاملات میں اپنی آرا کا اظہار بھی کھل کر کیا ہے جن سے ان کی حب الوطنی جھلکتی ہے۔ مصنف نے ایم اے اردو ادب ہونے کے ناتے احمد ندیم قاسمی اور پروین شاکر کے خاکے بھی لکھے ہیں۔
بہت سارے کالموں میں بیرونی ممالک کے سفیر اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے دلچسپ باتیں ہیں۔ پاکستانی تجارت، برآمدات اور معیشت پر پُر مغز تبصرے ہیں۔ سماجی حوالوں سے بھی کئی کالم ہیں۔ کتاب کے سات ابواب ہیں اور اس لحاظ سے یہ کتاب مصنف کی متنوع مصروفیات کی عکاس ہے اور ایک طرح سے یہ مصنف کی سوانح حیات بھی ہے۔ ایک کالم میں ایسی ضخیم مگر دلچسپ کتاب کا مکمل جائزہ پیش کرنا مشکل ہے۔ باقی پھر کبھی سہی۔ یار زندہ صحبت باقی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں