"JDC" (space) message & send to 7575

آئین سے متصادم قانون سازی

ماڈرن جمہوری نظام تقسیمِ اختیارات (Distribution of Powers) کے اصول پر قائم ہے۔ ریاست کے تین ستون ہیں: حکومت‘ مقننہ اور عدلیہ۔ ان تینوں کے علیحدہ علیحدہ اختیارات کے دائرے ہیں۔ فیلڈ میں حکم صرف حکومت کا چلتا ہے قانون سازی صرف مقننہ کر سکتی ہے‘ سزا کا اختیار صرف عدلیہ کوحاصل ہے۔
اسی طرح سے انگریز کے وضع کردہ ضلعی نظام میں ضلع کا انتظامی سربراہ ڈپٹی کمشنر تھا لیکن ڈی سی سزائے موت نہیں دے سکتا تھا یہ اختیار صرف سیشن جج کے پاس تھا۔ ایس پی کے پاس بندوق بردار فورس تھی لیکن وہ مجسٹریٹ کی اجازت کے بغیر کسی بپھرے ہوئے ہجوم پر گولی نہیں چلا سکتا تھا۔
حال ہی میں پنجاب اسمبلی نے ایک بل پاس کیا ہے جو اس اعتبار سے انوکھا ہے کہ اسمبلی کی استحقاق کمیٹی کو بیورو کریسی کے ہر اُس ممبر کو چھ ماہ تک سزا دینے کا حق حاصل ہوگا جو اُن کی رائے میں کسی ممبر اسمبلی کے ا ستحقاق کو مجروح کرنے کا مرتکب ہوا ہو۔استحقاق کمیٹی کے فیصلے کے خلاف اپیل صرف سپیکر پنجاب اسمبلی سن سکے گا۔ گویا عدالتی اختیارات بھی اب پنجاب اسمبلی کے پاس ہوں گے۔ یہ ڈویلپمنٹ افسوس ناک ہے کیونکہ آئین پاکستان سے متصادم ہے۔ اس سے پنجاب کی مقننہ کا وقار قطعاً بلند نہیں ہوگا۔
ڈپٹی کمشنر اور ضلعی پولیس افسر کم از کم گریجویٹ ہوتے ہیں بلکہ اکثر کے پاس ماسٹرز کی ڈگری ہوتی ہے۔ وہ مقابلے کا کڑا امتحان دے کر سلیکٹ ہوتے ہیں۔ مقابلے کا امتحان اسے اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہاں صرف پاس ہونا کافی نہیں۔ ٹاپ کے لڑکے لڑکیاں ہی سی ایس ایس میں کامیاب ہوکر جاب حاصل کرتے ہیں اور اُن میں سے اعلیٰ پوزیشن ہولڈر ڈی ایم جی‘ پولیس سروس اور فارن سروس جوائن کرتے ہیں۔ ایک سال تک سول سروس اکیڈمی والٹن میں کامن ٹریننگ ہوتی ہے جہاں پر لوگ پاکستانی قوانین‘ تحریک پاکستان‘ اقتصادیات‘ فیصلہ سازی اور لیڈر شپ کے بارے میں پڑھتے ہیں۔ فن خطابت اور فن کتابت بھی سکھائے جاتے ہیں۔ اچھے سے اچھے ماہرین انہیں لیکچر دینے آتے ہیں لاہور کی ٹریننگ کے بعد ایک اور کڑا امتحان ہوتا ہے۔ فیلڈ کی پوسٹنگ سے پہلے یہ لوگ اپنی اپنی سروس کی علیحدہ تربیت بھی حاصل کرتے ہیں۔ سیکرٹریٹ یا فیلڈ میں دس بارہ سال کی سروس کے بعد یہ لوگ ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ پولیس افسر تعینات ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس ایم پی اے یا ایم این اے بننے کے لئے کسی تعلیمی قابلیت کی شرط نہیں۔ اسی وجہ سے ہماری اسمبلیوں میں مباحثوں کا معیار اکثر پست رہتا ہے۔ ممبران ایک دوسرے پر سوقیانہ جملے کستے ہیں۔ پچھلے دنوں بجٹ پاس کرنے کا مرحلہ تھا تو بجائے اس کے ممبر صاحبان مجوزہ بجٹ کی کتاب کا مطالعہ کرتے‘ انہوں نے ان کتابوں کا بطور ہتھیار استعمال کیا۔ گالم گلوچ بھی ہوئی۔ پنجاب اور بلوچستان اسمبلی میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ سندھ اسمبلی میں بھی جوتوں میں دال بٹی۔
برصغیر میں انگریز نے اپنے افسروں کو یہ تربیت دی تھی کہ آپ نے قاعدے قانون کے مطابق چلنا ہے۔ قانون کی حکمرانی ہوگی کوئی بھی شخص آپ کو خلاف قانون کام کرنے کا کہے تو آپ صاف انکار کر دیں کوئی آپ کا بال بھی بیکا نہیں کر سکے گا۔ اسی اعلیٰ پائے کی بیورو کریسی کے طفیل 1947ء میں بحالیات کا کام مستعدی سے ہوا۔ لاء اینڈ آرڈر کی حالت ٹھیک رہی۔ پاکستان مثالی ترقی پذیر ملک قرار پایا۔ کوریا والے ہمارا ترقیاتی پلان لے کر گئے اور آج ہم سے کہیں آگے ہیں۔ ہم نے اپنی انتظامیہ کو آزاد رکھنے کے بجائے اسے ہر طریقے سے دبایا‘ رہی سہی کسر احتساب کے قوانین نے نکال دی ہے۔ پنجاب کی انتظامیہ مفلوج ہے۔ سُنا ہے کہ ڈی ایم جی والوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اب پنجاب میں سروس نہیں کریں گے اور تازہ ترین قانون سازی کی رو میں یہ فیصلہ صائب لگتا ہے۔
چین آف کمانڈ( Chain of Command)کسی بھی انتظامی سیٹ اپ کا بنیادی اصول ہے خواہ وہ عسکری ہویا سویلین۔ پنجاب میں انتظامیہ کا ہیڈ وزیراعلیٰ ہے جو چیف سیکرٹری کے ذریعے صوبے کا نظام چلاتا ہے لیکن اب صوبائی اسمبلی اس بات پر مصر ہے کہ چودھراہٹ مل جل کر ہی ہو گی۔ اس نئے قانون سے بہت کنفیوژن پھیلے گی پہلے ہی لاہور میں تین پاور سنٹر ہیں‘ اب ان میں سے ایک نے مزید طاقتور بننے کا بندوبست کر لیاہے۔ کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ ایک گاڑی کو دو ڈرائیور کنٹرول کر رہے ہوں؟ پنجاب میں یہی کچھ ہونے جا رہا ہے۔ ڈپٹی کمشنر کے اوپر اب وزیراعلیٰ اور چیف سیکرٹری کا نہیں بلکہ لوکل ایم پی اے کا حکم چلے گا۔ ہمارا صوبہ پنجاب تقسیم اختیارات کے تسلیم شدہ اصول کو چھوڑ کر مقننہ کو انتظامی اور تعزیراتی پاور دے رہا ہے اور یہ 1973 ء کے آئین سے متصادم ہے۔ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کا یہی استدلال ہے کہ سزا دینے کا اختیار صرف عدلیہ کے پاس رہنا چاہئے لیکن سپیکر صاحب صوبہ فتح کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس قسم کی قانون سازی شاید ہی دنیا کے کسی ملک میں ہوئی ہو۔ ہم پھوہڑ پن کے نئے عالمی ریکارڈ قائم کر رہے ہیں۔
اس قانون سازی کا پس منظر خاصا پراسرار ہے۔ عام طور پر ڈرافٹ بل متعلقہ محکمے میں ڈرافٹ ہوتا ہے پھر قانون کی وزارت کے پاس جاتا ہے تاکہ وہ اپنے زاویے سے اُس کے سقم دور کر دے پھر ڈرافٹ بل صوبائی کابینہ میں زیر بحث آتا ہے اور اس کے بعد اسمبلی میں پیش ہوتا ہے لیکن زیر بحث قانون کے سلسلے میں اس پروسیجر کو بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ اسمبلی سیکرٹریٹ نے خود ہی ڈرافٹ بل تیار کیااور کسی کو دکھائے بغیر خودہی اسمبلی میں پیش کر دیا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے ممبران نے بل کی حمایت کی کیونکہ اپنے ضلع میں ہر ایم پی اے ڈکٹیٹر بننا چاہتا ہے۔گورنر چودھری محمد سرور نے منظور شدہ بل پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کی تربیت برطانوی پارلیمنٹ کی ہے وہ کسی ایسے بل کی حمایت کیوں کرتے جو آئین کی روح سے متصادم ہے۔
اب ایک اور کہانی سن لیجئے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ برسوں کے دوران پنجاب اسمبلی کے ارکان نے اپنی تنخواہیں خوب بڑھا لی تھیں جبکہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا تھا۔ بات وزیراعظم تک پہنچی تو آرڈر ہوا کہ ممبران پنجاب اسمبلی کے مشاہرے میں اضافے کو روک دیا جائے۔ وزیراعظم کے حکم پر وقتی طور پر عمل بھی ہوا لیکن شنید ہے کہ بعد میں یہ بل خاموشی سے پھرمنظور کر لیا گیا۔ دروغ بر گردن راوی۔ سنا تھا کہ پنجاب بنی گالہ سے کنٹرول ہوتا ہے مگر اس بات سے تو لگتا ہے کہ پنجاب میں ہر کوئی اپنی چلا رہا ہے کیونکہ وزیراعلیٰ شریف آدمی ہیں۔
استحقاق بل جو اَب پاس ہوا ہے اس میں پہلے صحافی بھی شامل تھے۔ انہوں نے شور مچایا تو ڈرافٹ بل صرف انتظامیہ تک محدود ہو گیا۔ اب سول سرونٹ ٹھہرے بے زبان۔ ممبران اسمبلی اُن پر رعب جھاڑیں اور اگر آگے سے ترکی بہ ترکی جواب ملا تو استحقاق مجروح ہو جائے گا اور اگر شواہد سے ثابت ہو گیا کہ سرکاری افسر نے اونچا بولنے کی جرأت کی تھی تو اُسے چند منٹ کی جیل بھی پورا کیریئر خراب کر دے گی اور ہاں اگر یہ ثابت ہو جائے کہ غلطی ایم پی اے کی ہے تو اسے سزا کون دے گا؟ ہمارے ممبرانِ اسمبلی قانون سازی کے علاوہ باقی سارے کام مستعدی سے کرتے ہیں۔ آج کل ڈی سی اور ایس پی کو زیر نگیں کرنے کا سودا اُن کے دماغ میں سمایا ہوا ہے۔ یہ قانون 1973ء کے آئین سے متصادم ہے مقننہ کو عدلیہ بننے کا کوئی حق نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں