"JDC" (space) message & send to 7575

افغانستان، انڈیا اور پاکستان

افغانستان کے حالات ہمارے لئے یقیناً تشویش کا باعث ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کی سرحد اڑھائی ہزار کلو میٹر سے زیادہ طویل ہے۔ تمام ہمسایہ ممالک میں سب سے زیادہ افغان مہاجرین پاکستان آئے اور اکثر کا واپس جانے کا کوئی ارادہ فی الحال نظر نہیں آتا اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے اگر وہاں مکمل امن پیدا ہو جائے۔ میں جس شخص سے اسلام آباد میں فروٹ خریدتا ہوں وہ مزار شریف کا رہنے والا افغان ہے۔ میں اس سے پوچھتا ہوں کہ واپس کب جائو گے؟ تو جواب ملتا ہے کہ وہاں جا کر کیا کریں گے؟ میں اس سے فارسی میں بات کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ جواب اردو میں دیتا ہے اور تاویل یہ پیش کرتا ہے کہ فارسی بھول گئی ہے۔
افغانستان کے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ چند روز پہلے کابل کے ملٹری ہسپتال پر داعش کے حملے کی اطلاعات آئیں۔ قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔ ہلاک ہونیوالوں میں کابل میں طالبان کا سکیورٹی چیف حمداللہ مخلص بھی شامل تھا۔ اسی طرح قندھار میں ایک اقلیتی مسلک کی مساجد پر حملے ہوئے ہیں۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ دہشت گردانہ حملے داعش خراسان کرا رہی ہے۔ ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ انڈین میڈیا اب داعش کے نام کے ساتھ ایک لاحقے کا اضافہ کر کے شرانگیزی کر رہا ہے اور اسے داعش کے پی یعنی خراسان پاکستان کا نیا لقب دے رہا ہے۔
انڈین تخیل کتنی دور کے قلابے ملا رہا ہے۔ پاکستان کے نام کو داعش کے ساتھ نتھی کرنا کسی صورت بھی مناسب نہیں۔ داعش کا آغاز شام اور عراق سے ہوا۔ القاعدہ اور داعش کی مذہبی سوچ ایک جیسی ہے۔ طالبان کا القاعدہ سے تعلق یقیناً کمزور ہوا ہے جبکہ طالبان اور داعش کے مابین واضح دشمنی ہے۔ اگر پاکستان طالبان حکومت سے دوستانہ تعلقات چاہتا ہے تو وہ داعش کا دوست کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ سب انڈین تخیل کے پرواز کی باتیں ہیں اور صاف ظاہر ہے کہ انڈیا افغانستان میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کے لیے تڑپ رہا ہے۔
2001ء سے اب تک انڈیا افغانستان میں تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے۔ اس سرمایہ کاری میں آبی وسائل کی ترقی، تعلیم اور صحت کے شعبے شامل ہیں۔ کابل میں بچوں کے لیے اندرا گاندھی ہسپتال 2004ء میں بنایا گیا۔ ایک سو پچاس بیڈز کا یہ ہسپتال خاصا بڑا ہے۔2004ء میں مجھے کابل کے سرکاری دورے کا اتفاق ہوا۔ شہر میں ہر طرف ٹاٹا کمپنی کی بسیں نظر آئیں۔ مجھے یاد ہے کہ اسی زمانے میں پاکستان نے افغان کسانوں کو اچھی خاصی مقدار میں کیمیائی کھاد بطور امداد دی تھی۔ کیا کسی کو افغانستان میں آج یاد بھی ہو گا کہ پاکستان نے سترہ سال پہلے ہمیں کھاد دی تھی۔ ظاہر ہے وہ کھاد زمین کی نذر ہو گئی اور بعد میں کسی کو نظر بھی نہ آئی جبکہ اندرا گاندھی چلڈرن ہسپتال آج بھی کابل میں قائم ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انڈیا نے افغانستان میں سرمایہ کاری سمجھداری سے کی ہے اور مقصد یہ ہے کہ اس سرمایہ کاری کے ذریعے افغان عوام کی خیر سگالی حاصل کی جائے۔ طالبان حکومت آنے سے افغانستان میں انڈیا کے پائوں اکھڑے ضرور ہیں لیکن وہ انہیں وہاں دوبارہ جمانے کی کوشش کر رہا ہے۔
اگر انڈیا افغانستان میں اپنی سرمایہ کاری صرف اقتصادی ترقی اور افغان عوام کی تعلیم اور صحت کے منصوبوں تک محدود رکھتا تو پاکستان کو کوئی اعتراض نہ ہوتا لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں عدم استحکام اور افراتفری کے منصوبے بھی انڈیا بناتا رہا اور اس کا ٹارگٹ ہمارا بلوچستان کا صوبہ تھا۔ میجر جنرل بابر افتخار نے کچھ عرصہ پہلے انکشاف کیا تھا کہ انڈیا نے سات سو لوگوں پر مشتمل ایک ملیشیا فورس بلوچستان کے لیے تیار کی ہے۔ چھ کروڑ ڈالر اس فورس کے لیے مختص کیے گئے۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کے ایجنٹ انڈین بارڈر سے آسانی سے بلوچستان نہیں جا سکتے تھے۔ اس کام کیلئے افغانستان کا انتخاب کیا گیا۔ بر صغیر کی تاریخ میں چانکیہ کا وہ قول محفوظ ہے کہ ہمسائے کے ہمسائے سے بنا کر رکھو؛ چنانچہ صدر اشرف غنی کے زمانے میں انڈیا نے افغانستان سے بلوچستان میں در اندازی کی۔ آپ کو یاد ہو گا کہ اسی زمانے میں افغان کیڈٹ انڈیا میں فوجی تربیت کے لیے جانے لگے۔ جب پاکستان نے کابل حکومت کو فوجی تربیت کی پیشکش کی تو اشرف غنی حکومت نے ہماری تجویز قبول نہ کی۔
امسال اگست میں طالبان نے کابل میں حکومت سنبھالی تو انڈیا کو بہت بڑا دھچکا لگا۔ چند روز تو دہلی سرکار صدمے کی حالت میں خاموش رہی اور پھر فیصلہ ہوا کہ چونکہ افغانستان کو اب طالبان مکمل کنٹرول کر چکے ہیں لہٰذا ان سے رابطہ ضروری ہے۔ قطر میں انڈیا کے سفیر کو یہ کام سونپا گیا۔ یاد رہے کہ 15 اگست کے فوراً بعد انڈیا کے بیشتر سفارت کار افغانستان سے واپس چلے گئے تھے۔
انڈیا کو خطرہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کی کامیابی سے کشمیر میں مجاہدین کے حوصلے بلند ہوں گے اور وہاں آزادی کی تحریک زور پکڑے گی۔ انڈیا کی پوری کوشش ہو گی کہ طالبان اور کشمیری مجاہدین میں کسی بھی سطح پر ہم کاری نہ ہو۔
انڈین نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوول نے 10 نومبر کو افغانستان کے بارے میں نئی دہلی میں علاقائی ممالک کی کانفرنس بلائی۔ روس، ایران، چین اور پاکستان کے علاوہ سنٹرل ایشیا کے ممالک کو مدعو کیا گیا۔ پاکستان اور چین نے یہ دعوت قبول نہیں کی تھی۔
طالبان نے امریکہ کے خلاف مزاحمت تو کامیابی سے کی لیکن حکومت کے امور چلانا مختلف بات ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ موجودہ افغانستان بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ غذائی مواد کی شدید قلت ہے۔ حکومت کے پاس ماہانہ تنخواہیں دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ ابھی تک دنیا کے کسی ملک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ اکثر ممالک یہ چاہتے ہیں کہ طالبان مخالف دھڑوں کو بھی حکومت میں نمائندگی دیں‘ خواتین کے حقوق کی پاسداری کریں۔ طالبان کا کہنا ہے کہ ہم ان لوگوں کو اپنی حکومت میں کیوں شامل کریں جو کل تک ہمارے خلاف لڑ رہے تھے۔ میرا خیال ہے کہ درمیانی راستہ ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ ایسے تاجک، ازبک اور ہزارہ نمائندے ڈھونڈے جا سکتے ہیں جو لڑائی میں شامل نہیں تھے۔ اسی طرح اسلامی اقدار کے اندر رہ کر خواتین کو تعلیم اور کام کرنے کے حقوق دیئے جا سکتے ہیں جیسا کہ پاکستان اور ایران میں دیئے گئے ہیں۔ طالبان حکومت انٹرنیشنل کمیونٹی سے علیحدہ رہ کر زیادہ دیر تک مؤثر نہیں رہ سکتی۔
افغانستان کے اچھے اور برے حالات کا جس ملک پر سب سے زیادہ اثر ہوتا ہے وہ پاکستان ہے۔ افغانستان میں قدرے امن آیا ہے تو ازبکستان سے بری راستے سے تجارت شروع ہوئی ہے۔ پُرامن افغانستان ہمارے مفاد میں ہے، لیکن ہمیں اس تاثر کا ازالہ کرنا ہو گا کہ پاکستان افغانستان کو ٹیوٹر کرتا ہے یا سبق پڑھاتا ہے اور یہ ہدف حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان کے بارے میں تمام معاملات وزارت خارجہ کے ذریعے طے کیے جائیں۔ افغانستان کے حوالے سے ہمارے لیے سب سے اہم چیز اس امر کی یقین دہانی ہے کہ افغان سرزمین سے ہمارے ہاں کوئی تخریبی کارروائی نہیں ہو گی۔ اس بارے میں کابل حکومت نے یقین دہانی کرا دی ہے۔ اب ضروری ہے کہ وہاں مکمل امن آئے۔ حکومت مضبوط ہو اور وہ تمام دہشت گرد تنظیموں کو کنٹرول کر سکے۔ پاکستان سے تجارت کا پھر سے فروغ ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں