"JDC" (space) message & send to 7575

نامعقول ٹیکس سسٹم

بہت عرصہ پہلے کالج کے زمانے میں ٹیکسیشن کے اصول (Cannons of Taxation) پڑھے تھے۔ ان میں سب سے اہم اور اولین اصول یہ تھا کہ ٹیکس سسٹم منصفانہ ہونا چاہئے یعنی ٹیکس کا زیادہ بوجھ دولت مند طبقہ اٹھائے جبکہ غریب عوام کم سے کم بوجھ برداشت کریں۔ دوسرا اصول شفافیت ہے یعنی ٹیکس قوانین آسان فہم ہوں اور لوگوں کو علم ہو کہ کون کتنا ٹیکس دے رہا ہے۔ تیسرا اصول یہ ہے کہ حکومت کو یقین ہو کہ وہ ٹیکس کا ہدف حاصل کر لے گی اور چوتھا اصول یہ کہ ٹیکس کم سے کم اخراجات کر کے اکٹھا کیا جائے۔ کیا ہمارا ٹیکس سسٹم بابائے معاشیات آدم سمتھ (Adam Smith) کے بتائے ہوئے مندرجہ بالا اصولوں پر پورا اترتا ہے؟ جواب میں آپ کی صوابدید پر چھوڑتا ہوں۔
شروع میں ریاست کے دو بڑے فرائض تھے: شہریوں کے جان و مال کا تحفظ اور ملک کا بیرونی جارحیت کے خلاف دفاع۔ پھر مواصلات یعنی سڑکوں اور ڈاک کا انتظام، تعلیم اور شہریوں کا علاج بھی ریاست کے فرائض میں شامل ہوئے۔ آج کی ریاست بے شمار کام کرتی ہے لہٰذا اُس کے خراجات بھی بے تحاشا بڑھ گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے اخراجات ٹیکسوں کی آمدنی سے زائد ہیں۔ اس وقت پاکستان کا بجٹ خسارہ سات 7 فیصد ہے۔ ہمارے بجٹ میں قرضوں پر سود اور دفاعی اخراجات دو بڑے آئٹم ہیں اور ان دونوں میں کمی بے حد مشکل ہے لہٰذا مسئلے کا حل ٹیکس کا نظام بہتر بنانے میں ہے۔ اس وقت ہمارا ٹوٹل جمع شدہ ٹیکس جی ڈی پی کا نو فیصد ہے جو بے حد کم ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں ٹیکس دوگنا کرنے کی صلاحیت ہے لیکن کیا ہم واقعی ایسا کر پائیں گے؟ یہ ایک علیحدہ سوال ہے۔
دنیا بھر میں ٹیکس نظام کے منصفانہ یا غیرمنصفانہ ہونے کا واضح پیمانہ ہے۔ ٹیکس دو طرح کے ہوتے ہیں: ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ (Direct & Indirect)۔ انکم اور ویلتھ ٹیکس ڈائریکٹ ہیں اور آمدنی اور اثاثوں پر لگائے جاتے ہیں جبکہ کسٹم ڈیوٹی، ایکسائز ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس اِن ڈائریکٹ ٹیکس کی اقسام ہیں۔ یہ ٹیکس ہر صارف‘ خواہ وہ امیر ہو یا غریب‘ چیز خریدتے وقت ادا کرتا ہے کیونکہ یہ ٹیکس قیمت میں شامل ہوتا ہے۔ پاکستان میں ڈائریکٹ ٹیکس ٹوٹل جمع شدہ ریونیو کا 35 فیصد ہے‘ 65 فیصد ٹیکس اِن ڈائریکٹ ہے۔ انڈیا میں ڈائریکٹ ٹیکس کل سرکاری ریونیو کا 45 فیصد ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ انڈیا کے ٹیکس نظام میں صاحب ثروت لوگوں کا حصہ زیادہ ہے جبکہ پاکستان میں ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر انڈیا کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ حال ہی میں پاکستان میں ڈبل روٹی پر 17 فیصد ٹیکس لگایا گیا‘ جس سے مڈل کلاس بھی چیخ اٹھی ہے۔ پاکستان میں چونکہ اشرافیہ ٹیکس کم دیتی ہے لہٰذا آسان طریقہ یہی ہے کہ پٹرول، ڈبل روٹی اور ٹوتھ پیسٹ جیسی اشیائے ضرورت پر ٹیکس بڑھا دیں‘ عوام چند روز چیخیں گے اور پھر نارمل ہو جائیں گے۔
ہمارے ہاں ٹیکس کلچر کمزور ہے۔ 22 کروڑ لوگوں میں سے صرف دو ملین فائلر ہیں۔ یہ تعداد آسانی سے دوگنا کی جا سکتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں لوگ باقاعدگی سے ٹیکس دیتے ہیں۔ ٹیکس کی رو سے ڈنمارک دنیا میں نمبر ایک ہے جہاں ٹیکس کولیکشن مجموعی قومی آمدنی کا 46 فیصد ہے۔
ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ ہم اور ہمارا فیڈرل بورڈ آف ریونیو ٹیکس دہندگان کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کیوں نہیں کر پائے؟ کہا جاتا ہے کہ لوگ عدم اعتماد کی وجہ سے ٹیکس دینے سے کتراتے ہیں‘ لیکن دوسری وجہ ٹیکس افسران کی نالائقی اور کرپشن بھی ہے‘ گو کہ ہر افسر ایسا نہیں ہے۔ حال ہی میں سیلز ٹیکس ریفنڈ کا بڑا سیکنڈل سامنے آیا ہے اور میڈیا کا خیال ہے کہ اس میں ایف بی آر کے افسر ملوث ہیں۔ اگر ایف بی آر کے چند افسر کرپٹ ہیں تو ٹیکس دہندہ بھی کم نہیں۔ دکانداروں کو رسیدیں دینے اور کیمرے لگانے کا کہا جاتا ہے تو وہ ہڑتال کی دھمکی دیتے ہیں۔ کیا آپ کو کبھی کسی ڈاکٹر یا وکیل نے فیس لے کر رسید دی ہے؟
سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کہتے ہیں کہ ملک میں 14000 (چودہ ہزار) رجسٹرڈ کمپنیاں ہیں جن میں سے نصف ٹیکس فائلر ہیں۔ موصوف کا یہ بھی کہنا ہے کہ کراچی کا علاقہ لیاقت آباد پورے لاہور کے بازاروں کے برابر ٹیکس دیتا ہے۔ میرا زیدی صاحب سے یہ سوال ہے کہ آپ نے لاہور کے تاجروں کے خلاف قانونی کارروائی کیوں نہیں کی؟
ترقی یافتہ ممالک میں ایمانداری سے ٹیکس نہ دینا گناہ کبیرہ تصور کیا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں یہ عام سی بات ہے اور ایسے لوگوں کا احتساب بھی نہیں ہوتا۔ برطانیہ میں اگر کسی کی ٹیکس چوری پکڑی جائے تو فوری طور پر اسے دوگنا ٹیکس دینا پڑتا ہے‘ چھ ماہ سے لے کر سات سال تک کی قید بھی ہو سکتی ہے۔ اگر پھر بھی وہ شخص باز نہ آئے تو اس کے اثاثے ضبط ہو سکتے ہیں۔ میرے نوٹس میں یہ بات نہیں آئی کہ کوئی ٹیکس چور پاکستان میں جیل گیا ہو‘ تو پھر چہ عجب کہ ہم ملک ملک کشکول لئے پھرتے ہیں۔
ایک حیران کن بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ریسرچ پر بھی ٹیکس لگتا ہے۔ کالم نگاروں کو بھی دس فیصد ودہولڈنگ ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ چند سال ہوئے میرے دوست ڈاکٹر اعجاز حسین نے سندھ طاس معاہدے پر لمبی تحقیق کے بعد کتاب لکھی۔ اس کتاب کو ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے 2018 کی بہترین کتاب کا ایوارڈ ملا اور تین لاکھ روپے کا انعام بھی‘ مگر جب ڈاکٹر صاحب کو چیک ملا تو تیس ہزار روپے بطور ٹیکس کٹ چکے تھے۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہمارے ڈائریکٹ ٹیکس کا ستر فیصد ودہولڈنگ ٹیکس سے آتا ہے جو سورس پر ہی کٹ جاتا ہے۔ تو پھر محکمہ انکم ٹیکس کی فوج ظفر موج کا کیا جواز ہے؟
ویلتھ ٹیکس آمدنی پر نہیں بلکہ اثاثوں پر لگتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں ہر کوئی اثاثوں کی ویلیو کم سے کم ظاہر کرتا ہے تاکہ ویلتھ ٹیکس زیادہ نہ لگے۔ اس کا علاج انڈین حکومت نے یہ نکالا ہے کہ حکومت کو کوئی بھی اثاثہ مثلاً پلاٹ یا گھر یا فیکٹری ڈکلیئرڈ ویلیو سے 20 فیصد زیادہ ادائیگی کر کے خریدنے کا حق حاصل ہے‘ لہٰذا فائلر اثاثوں کی کم قیمت ظاہر کرنے کا رسک نہیں لیتے۔ ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟
پنجاب حکومت نے د یہات کے نمبرداروں کو بارہ بارہ ایکڑ زمین مستعار دی ہوئی ہے۔ نمبردار چونکہ گاؤں میں سرکار کا نمائندہ ہوتا ہے‘ دورے پر آئے اہل کاروں کی مدد کرتا ہے‘ لہٰذا اس سرکاری زمین سے حاصل کردہ آمدنی اُسے عوضانے کے طور پر ملتی ہے۔ سنٹرل پنجاب میں اکثر نمبردار چھوٹے زمیندار ہیں۔ اب نمبرداری والے بارہ ایکڑوں پر ٹیکس لگ گیا ہے اور ٹیکس دہندہ اس زمین کا مالک بھی نہیں ہے۔ سوال یہ ہے ہزاروں ایکڑوں کے مالک وڈیرے زرعی انکم ٹیکس سے کیوں بچے ہوئے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ وہ خود پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
ہمارا ٹیکس سسٹم منصفانہ نہیں ظالمانہ ہے۔ یہاں چور اور چوکیدار ملے ہوئے ہیں۔ دونوں کا سخت احتساب ضروری ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ٹیکس کا زیادہ بوجھ وہ اٹھائیں جو محلوں میں رہتے ہیں‘ لمبی لمبی دیوہیکل گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں‘ جن کی گرمیاں یورپ میں گزرتی ہیں اور اگر یہ لوگ ٹیکس نہ دیں تو انہیں برطانیہ کی طرح جیل جانا پڑے‘ مگر ایسا کرنے کے لئے قانون کی حکمرانی درکار ہے جو وطن عزیز میں مفقود ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں