"JDC" (space) message & send to 7575

پاکستان انکل سام کی نظر میں

ایک زمانے میں پاکستان امریکہ کی آنکھوں کا تارا تھا۔ امریکہ نے پاکستان کے بارے میں شروع سے اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ ملک کمیونزم کے پھیلاؤ کے خلاف اہم رول ادا کر سکتا ہے۔ پاکستان کی آبادی کی اکثریت مسلمان تھی اور ان کے لئے مذہب اہم تھا۔ سوویت یونین اور پاکستان کے مابین صرف افغانستان کا وجود تھا۔ سوویت یونین کی ممکنہ توسیع پسندی کے خلاف پاکستان ہراول دستے کا کردار ادا کر سکتا تھا کیونکہ اُس کے پاس اچھی‘ تربیت یافتہ فوج بھی تھی‘ لہٰذا امریکہ کو پاکستان کی ہر چیز اچھی لگتی تھی حتیٰ کہ جمہوریت کی بساط الٹنے والا پہلا آمر ایوب خان بھی امریکہ کی نظروں میں شاندار لیڈر تھا۔
1980 کے بعد امریکہ نے پاکستان کو فقط افغانستان کے تناظر میں دیکھا۔ سوویت افواج کی افغانستان سے واپسی کے بعد پاکستان پر پریسلر ترمیم کے تحت پابندیاں لگیں۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام امریکی قیادت کی نظروں میں کھٹکنے لگا‘ اور اب چند سالوں سے امریکہ پاکستان کو انڈیا اور چین کے تناظر میں دیکھ رہا ہے۔ پچھلے سال اگست میں امریکہ کو افغانستان میں بہت بڑی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تو اس کا ملبہ بھی پاکستان پر ڈال دیا گیا گویا اشرف غنی پاکستان کا آدمی تھا۔ اشرف غنی سو فیصد امریکہ کا چہیتا تھا۔ وہ ناکارہ افغان آرمی جو ریت کی دیوار ثابت ہوئی اس کی تربیت میں بھی پاکستان کا کوئی کردار نہ تھا۔ جب پاکستان نے فوجی تربیت کی آفر دی تو اشرف غنی نے صاف انکار کر دیا تھا۔
اور اب آتے ہیں موضوع کی جانب۔ جنرل جیمز میٹس (James Mattis) امریکہ کے سابق وزیر دفاع ہیں جو افغانستان میں بھی نائن الیون کے بعد کمانڈر رہے۔ تین سال پہلے ان کی کتاب Call sign Chaos مارکیٹ میں آئی اور بڑی مقبول ہوئی۔ اس کتاب میں پاکستان کے بارے میں ان کی آرا بڑی چشم کشا ہیں گو کہ اُن میں کسی حد تک تعصب کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ ان کو ناقدانہ نگاہ سے بعد میں دیکھیں گے‘ فی الحال چند اہم اقتباسات پیش خدمت ہیں۔ وہ رقمطراز ہیں '' کمزور حکومت اور انتہا پسندی کی وجہ سے پاکستان دنیا کا خطرناک ترین ملک ہے۔ پاکستان کی دوہری ٹریجڈی یہ ہے کہ قیادت اپنے عوام کے مستقبل سے بے نیاز ہے بطور معاشرہ پاکستانی لوگ خود غرض، کرپٹ اور ان پڑھ ہیں۔ پاکستان کے سیاسی کلچر سے خود کو تباہ کرنے کی خواہش جھلکتی ہے۔ شروع سے پاکستانی قوم کو اپنے ملک سے محبت کم کم تھی۔ دولت کی تلاش اور سوشل سیڑھی پر تیزی سے اوپر جانا ہر فرد کا مطمح نظر تھا۔ ہر کوئی اپنی افرادی ترقی کے چکر میں تھا۔ اجتماعی ترقی یا ریاست کی بھلائی اکثر لوگوں کی ترجیح نہیں تھی... پاکستان اور امریکہ کے مابین عدم اعتمادی کی بڑی مثال یہ ہے کہ جب ہمیں پتہ چل گیا کہ اسامہ بن لادن کہاں چھپا ہوا ہے تو صدر اوباما نے اُسے پاکستان کو بتائے بغیر قتل کرنے کیلئے ٹیم بھیجی۔ صدر اوباما کو شک تھا کہ اسامہ کو چھپانے میں پاکستانی خود ملوث ہیں‘‘۔
لیکن جنرل میٹس کی پاکستان اور پاکستانیوں کے بارے میں رائے کو حرفِ آخر سمجھنے کے بجائے چند اور اہم امریکی شخصیات کی آرا پاکستان کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ سٹروب ٹالبوٹ (Strobe Talbott) صدر بل کلنٹن کے زمانے میں آٹھ سال تک نائب وزیر خارجہ رہے۔ 1998 میں جب انڈیا نے اور پھر پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے تو وہ اہم ترین امریکی سفارتکاروں میں شمار ہوتے تھے۔ انڈیا کے ساتھ تعلقات کو مضبوط تر بنانے میں ان کا اہم رول تھا۔
ان کی سفارتی یادداشت Memoir‘ 2007 میں Engaging India کے عنوان سے دوسری مرتبہ چھپی۔ وہ کتاب میں رقمطراز ہیں کہ ہم نے پاکستانی قیادت کو ایٹمی دھماکوں سے باز رہنے کے لئے ہر قسم کی ترغیب دی۔ پاکستانی قیادت کو باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ جو مالی امداد امریکہ نے انڈیا کی ایٹمی دھماکوں کے بعد بند کی ہے وہ اب پاکستان کو ملے گی بشرطیکہ پاکستان دھماکوں سے باز رہے۔ صدر کلنٹن نے خود وزیراعظم نواز شریف کو فون کیا اور مالی امداد کے علاوہ روکے ہوئے ایف16 طیارے بھی پاکستان کو دینے کا وعدہ کیا اور پھر سے کہاکہ پاکستان انڈین دھماکوں کے ردعمل میں نیوکلیئر ٹیسٹ نہ کرے۔ میاں نواز شریف نہ مانے۔ صدر کلنٹن نے ٹیلی فون کے بعد اپنے ہم کاروں کو یہ بھی بتایاکہ میں نے پاکستان کو دھماکوں سے روکنے کیلئے وزیراعظم کو یہ بھی آفر کی کہ امریکی بات مان لی گئی تو وہ خود پاکستان کا دورہ کریں گے۔ نواز شریف نے ہاں مگر نہیں کی۔ صدر کلنٹن کا تاثر تھاکہ نواز شریف سخت دباؤ کی حالت میں ہیں اور نیوکلیئر ٹیسٹ ان کی مجبوری بن چکے ہیں۔ پھر بھی فیصلہ کیا گیا کہ ایک اعلیٰ سطح کا وفد اسلام آباد روانہ کیا جائے۔
اس اعلیٰ امریکی وفد کو سٹروب ٹالبوٹ نے ہی لیڈ کرنا تھا۔ سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل انتھونی زنی (Anthony Zinny) وفد کا حصہ تھے۔ وفد جلد از جلد پاکستان روانہ ہونا چاہتا تھا مگر اسلام آباد میں مشورے ہورہے تھے کہ وفد کوآنے دیا جائے یا معذرت کرلی جائے۔ امریکیوں کا خیال تھا کہ پاکستان کی سویلین قیادت بٹی ہوئی ہے اور اسلام آباد کنفیوژن کا شکار ہے۔ کسی بھی بیرونی ہوائی جہاز کو لینڈ کرنے کیلئے پیشگی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے جوکہ امریکن سپیشل فلائٹ کو نہیں مل رہی تھی۔ امریکی وفد بے چین ہورہا تھا۔ اتنے میں جنرل زنی نے کہا‘ میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو فون کرتا ہوں۔ دونوں جنرلز کی بات ہوئی اور چند منٹ میں جہازکو اسلام آباد لینڈ کرنے کی اجازت مل گئی۔
امریکن وفد کی پاکستان میں تین ملاقاتیں ہوئیں۔ ٹالبوٹ کاکہنا ہے کہ پہلی ملاقات وزیر خارجہ گوہر ایوب خان اور سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان سے ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں کہ پاکستانی وزیر خارجہ نے میرے ابتدائی جملے سن تو لئے لیکن ایک خاص حالت اضطراب ان کے چہرے سے نمایاں تھی۔ جواب میں گوہر ایوب صاحب نے آدھے گھنٹے کی سخت انداز میں تقریر کی۔ ان کا کہنا تھا کہ انڈیا اپنی نیوکلیئر طاقت پاکستان کو اپنے زیر اثر لانے، سکیورٹی کونسل میں دائمی نشست حاصل کرنے کیلئے استعمال کرے گا۔ ایٹمی طاقت بننے کے بعد انڈیا کشمیر کے بارے میں بات بھی کم کم کرے گا اور دنیا آہستہ آہستہ انڈیا کے گناہ معاف کر دے گی۔ ٹالبوٹ کو پاکستانی فارن آفس میں اس مسئلہ پر یکسوئی کے علاوہ جذباتیت بھی نظر آئی۔
اس کے برعکس امریکی نائب وزیر خارجہ کو آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کی شخصیت میں خاصا ٹھہراؤ نظر آیا۔ بات انہوں نے بھی وہی کی جو وزیرخارجہ نے کی تھی لیکن دھیمے انداز میں۔ اس کے بعد وفد وزیراعظم نواز شریف کو ملنے گیا۔ ٹالبوٹ کا کہنا ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم بہت تھکے ہوئے اور پریشان نظر آئے۔ باقی حاضرین کو کمرے سے جانے کا کہا اور بولے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ صدر کلنٹن پاکستان کا دورہ کریں اور انڈیا نہ جائیں۔ ٹالبوٹ نے لکھا ہے کہ وہ اس سلسلے میں کوئی حتمی جواب دینے کی پوزیشن میں نہ تھے۔ یہ بھانپ کر میاں نواز شریف نے کہا: میں منتخب لیڈر ہوں اور پاکستانی رائے عامہ کو اگنور نہیں کر سکتا اور اگر میں نے ایسا کیا تو اگلے سال آپ کو اسلام آباد میں کوئی باریش انتہا پسند لیڈر ملے گا۔
گوہر ایوب خان کی جذباتیت کا پڑھ کر مجھے بھٹو صاحب کی دسمبر 71 کی جذباتی تقریر یاد آ گئی جو انہوں نے سکیورٹی کونسل میں پولینڈ کی قرارداد پھاڑتے وقت کی تھی حالانکہ امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے انہیں کہا تھا کہ پاکستان بچانے کیلئے صرف لفاظی اور نعرے کافی نہیں۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں