"JDC" (space) message & send to 7575

خیرالامور اوسطہا

حدیثِ مبارک ہے کہ درمیانی راستہ بہترین راستہ ہے یعنی افراط و تفریط سے بچو۔ جذبات سے مغلوب ہو کر غلط فیصلے نہ کرو۔ قرآن کریم بار بار استفسار کرتا ہے ''افلا تعقلون؟‘‘ تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے؟ افراط و تفریط کی شکار قومیں ابنارمل ہو جاتی ہیں اور بعض امور میں وطن عزیز پاکستان کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔ جمہوریت اسلامی افکار کے قریب تر ہے کہ بار بار باہمی مشورے کی تلقین کی گئی ہے لیکن ہمارے ہاں جمہوریت مضبوط نہیں ہو سکی۔ تین بار مارشل لاء لگا تب ہمیں پتا چلا کہ یہ ہمارے مسائل کا حل نہیں۔ کوئی بھی وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہ کر سکا۔ ہماری پارلیمنٹ میں کتنی سکت اور صلاحیت ہے یہ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔
کہتے ہیں ''جس کا کام اسی کو ساجے‘‘ یعنی ہر ریاستی ادارے کو اپنے کام پر فوکس کرنا چاہیے یعنی تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو۔ Mind your own businessوالے سنہری اصول پر عمل کرنا چاہیے مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا۔ ایک زمانہ تھا کہ اقتصادی فیصلے پلاننگ کمیشن کیا کرتا تھا۔ اب یہ فیصلے سیاسی بنیادوں پر ہوتے ہیں۔ ضمنی انتخابات قریب ہوں تو ایک صوبے کا وزیراعلیٰ اعلان کرتا ہے کہ غریبوں کو بجلی کے بل سو یونٹ تک معاف ہوں گے۔ خیر الیکشن کمیشن نے یہ اعلان معطل کر دیا مگر لالچ والا حربہ عیاں ہو گیا۔ ہمارے ملک میں انصاف کا قحط ہے کوئٹہ میں ٹریفک کانسٹیبل دن دہاڑے ڈیوٹی دیتے ہوئے کچلا جاتا ہے مگر کچلنے والے کا بال بیکا نہیں ہوتا۔ کہا جاتا ہے کہ معاملہ قبائلی روایات کے مطابق طے کر لیا گیا ہے‘ تو کیا قبائلی روایات اور جرگے ہمارے آئین کے مطابق ہیں؟
آئین کے ساتھ تو ایک عرصے سے کھلا مذاق ہو رہا ہے۔ آئین میں درج تھا کہ اتنے سال بعد اردو سرکاری زبان ہو گی مگر ہم نے انگریزی کو اب تک سینے سے لگایا ہوا ہے۔ اشرافیہ کی حکمرانی انگریزی پر بڑی حد تک منحصر ہے۔ ہم نے دستور میں وعدہ کیا کہ کوٹہ سسٹم محدود مدت کیلئے ہے مگر نصف صدی گزرنے کے بعد بھی نافذ العمل ہے۔
زیادہ عرصہ نہیں گزرا ایک سیاسی جماعت نے کہا تھا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ہو گی‘ دو نہیں صرف ایک پاکستان ہوگا یعنی قانون کے سامنے امیر غریب برابر ہوں گے مگر عملاً ایسا نہیں ہوا۔ کراچی میں نسلہ ٹاور گرا دیا گیا لیکن اسلام آباد میں ون شارع دستور پر واقع بلند و بالا عمارت کی غیر قانونی بالائی منزلیں محفوظ رہیں کیونکہ وہاں اشرافیہ کے اپارٹمنٹس ہیں۔
ہمارے ہاں افراط و تفریط کی واضح مثال عوام اور حکمران طبقے کے درمیان بڑھتا ہوا فرق ہے۔ گریڈ 22کے افسر کو ریٹائر ہونے پر دو پلاٹ ملا کرتے تھے جبکہ نائب قاصد کو ایک مرلہ جگہ بھی نہیں۔ بنی گالا‘ جاتی امرا اور بلاول ہاؤس جیسی عظیم الشان رہائش گاہیں غریب عوام کا منہ چڑا رہی ہیں۔
سویلین برتری جمہوریت کی جان ہے۔ سویڈن میں مقیم میرے ایک دوست اکثر کہا کرتے ہیں کہ اکثر لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ سویڈن کا آرمی چیف کون ہے۔ انڈیا اور بنگلہ دیش میں سول سروس‘ فارن سروس اور پولیس سروس میں صرف مقابلے کا امتحان دے کر ہی داخل ہو سکتے ہیں‘ کسی ادارے کا علیحدہ سے کوٹہ نہیں۔ کسی کو امتحان دینے سے استثنیٰ حاصل نہیں۔ مگر ہمارے ہاں ہے۔
آزادیٔ رائے اور شفاف احتساب جمہوریت کیلئے آکسیجن کی طرح ضروری ہیں۔ افلاطون نے کہا تھا کہ بچوں کا تاریکی سے ڈرنا سمجھ میں آتا ہے لیکن جب بالغ روشنی سے گھبرانے لگیں تو اُس قوم کی خیر نہیں۔ ہمارے ہاں کلمۂ حق کہنے پر کبھی عمر چیمہ کی پٹائی ہوتی ہے تو کبھی ایاز امیر جیسے معتبر اور کہنہ مشق صحافی کو دھر لیا جاتا ہے۔ اس سے پوری دنیا میں پاکستان کا امیج کیا بنتا ہے کسی کو پروا ہی نہیں۔
ہم بطور قوم یقینا افراط و تفریط کا شکار ہیں یعنی ہمارے رویے اور قوانین انتہا پسندی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ چند برس پہلے تک قانون تھا کہ نیب کسی مشکوک شخص کو گرفتار کر کے نوّے دن تک اپنی تحویل میں رکھ سکتا تھا اور اب نئی حکومت نے آ کر پہلا کام یہ کیا ہے کہ نیب والے قانون کے دانت نکال دیے ہیں۔ ہمارے ہاں میانہ روی کا شدید فقدان ہے۔ ریا کاری اب ہمارا عمومی رویہ بنتا جا رہا‘ ہمیں پتا ہے کہ اسلام میں ریاکاری یعنی ظاہری دکھلاوا سخت ناپسندیدہ فعل ہے لیکن ہم نے ریاستِ مدینہ کے نعرے خوب سُنے مگر ریاست مدینہ کی عملی صورت دیکھنے کو ترس گئے۔ تعلیمی نصاب دیکھیں تو مذہبی تعلیم پر بڑا زور ہے مگر معاشرے میں عملاً اسلامی روح کمزور ہے‘ خاص طور پر حقوق العباد کے حوالے سے میری رائے میں مذہب کو سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کرنا دینِ حنیف کی خدمت نہیں۔
صفائی نصف ایمان ہے‘ یہ ہمارا یقین ہے لیکن کل عیدالاضحی کے مبارک موقع پر گلی محلوں میںگندگی نظر آئے گی‘ تعفن پھیلایا جائے گا۔ میں بطور سفارت کار پانچ چھ مسلم ممالک میں رہا ہوں‘ کسی ملک میں گلی محلوں میں سنت ابراہیمی ادا نہیں ہوتی۔ سعودی عرب میں بھی لوگ قربانی کا جانور مذبح خانے میں لے کر جاتے ہیں‘ حکومت گلیوں میں قربانی کی اجازت ہی نہیں دیتی۔ پُرتعیش زندگی بسر کرنے پر حضرت عمرؓ الفاروق نے حاکم مصر حضرت عمروؓ بن العاص کو مدینہ منورہ بلایا اور سرزنش کی۔ سورۃ الانبیاء میں ارشادِ ربانی ہے کہ احتساب سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو استثنا حاصل ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اشرافیہ قانون کی گرفت میں کم ہی آتی ہے اور اگر آ بھی جائے تو جیل سے بھاگنے کے راستے نکال لیتی ہے۔ ہماری اشرافیہ ضمانت پر بھی ہو تو حکومت کر سکتی ہے تو پھر ایمانداری سے بتائیں کہ پاکستان ایک ہے یا دو متوازی پاکستان چل رہے ہیں۔
جیسا کہ درج بالا ہے‘ پاکستان میں عوام اور خواص کے طرزِ زندگی میں بہت فرق ہے اور یہ بھی اسلام کی روح کے خلاف ہے۔ مہنگائی نے غریب کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ جاب رشوت اور سفارش سے ملتی ہے‘ اقربا پروری عام ہے‘ میرٹ کی پامالی ہوتی ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ عوام کے اندر پکنے والا لاوا پورے نظام کی بساط ہی نہ لپیٹ کر رکھ دے۔
ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ میرے ایک سابق کولیگ جو 1997ء میں فارن آفس میں ڈائریکٹر جنرل افغانستان تھے‘ قندھار ملا عمر کو ملنے گئے۔ ملا عمر کا طرزِ زندگی اپنے عوام کی طرح بالکل سادہ پایا۔ قندھار میں ان کی ملاقات ایک انجینئر سے بھی ہوئی۔ تجسس کی بنا پر اس کی ماہانہ تنخواہ پوچھی تو پتا چلا کہ فقط ایک سو امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ انجینئر کو کہا کہ اتنی کم تنخواہ ہے تم حکومت کے خلاف بغاوت کیوں نہیں کرتے۔ اُس نے جواب دیا کہ میں بغاوت کیوں کروں‘ میرا لیڈر (ملا عمر) مجھ سے غریب تر ہے۔
پاکستان اسلامی ریاست ہے لہٰذا ضروری ہے کہ یہ فلاحی ریاست ہو اور ہماری سیاسی قیادت کا اعلیٰ ترین ہدف عوام کی مالی حالت کو بہتر بنانا ہو لیکن آہستہ آہستہ پاکستان سکیورٹی سٹیٹ بنتا گیا۔ لہٰذا عوام کی فلاح و بہبود ثانوی اہمیت اختیار کر گئی۔ بنگلہ دیش میں ایسا نہیں ہوا۔ وہاں تعلیم اور صحت کو زیادہ وسائل دیے گئے۔ حکومت نے سب سے پہلے یہ کام کیا کہ 1972ء میں مکتی باہنی سے ہتھیار واپس لیے‘ ہمارے ہاں جہاد کے نام پر انتہا پسند تنظیمیں ہتھیاروں سے لیس ہو گئیں‘ بالآخر یہ ہتھیار پاکستانی شہریوں کے خلاف استعمال ہوئے۔
ہم نے عوام اور خواص میں فرق اتنا بڑھا دیا ہے کہ یہ خیر الامور اوسطہا کی عملاً نفی ہے۔ اسلامی ریاست عام آدمی کے باعزت زندگی بسر کرنے کے حق کو پروموٹ کرتی ہے‘ ہم نے یہ حق چھین لیا ہے۔ تو آئیے! درمیانی راستے کی جانب رجوع کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں