"JDC" (space) message & send to 7575

خلیج میں مصالحت

چند روز پہلے بیجنگ میں ایرانی اور سعودی نمائندے ملے اور اعلان ہوا کہ دو ماہ میں دونوں ممالک سفارتی تعلقات بحال کر لیں گے۔ مغربی ممالک کے لیے یہ اعلان حیران کن تھا۔ مشرقِ وسطیٰ کے دو اہم ممالک میں ایک بے تیغ سپاہی صلح کرا رہا تھا۔ یہ چین کی سافٹ پاور کی بڑی فتح تھی۔ پاکستان نے بجا طور پر اس بڑی پیش رفت کا خیر مقدم کیا ہے۔
مڈل ایسٹ میں ہمارے دو اہم دوست ممالک میں سفارتی تعلقات سات سال سے منقطع تھے اور ہمارے لیے یہ امر تشویش کا باعث بنا رہا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 2015ء میں جب پاکستانی پارلیمنٹ نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم یمن میں افواج نہیں بھیجیں گے تو اسی قرارداد میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ پاکستان اس تنازع میں نیوٹرل رہے گا اور مصالحت کنندہ کا کردار ادا کرے گا۔ بعد میں بطور وزیراعظم عمران خان نے مصالحت کرانے کی اپنے تئیں کوشش بھی کی‘ جو کامیاب نہ ہو سکی۔ دونوں ممالک نے پاکستان کے بجائے صلح و مذاکرات کے لیے عراق کا انتخاب کیا۔ مصالحت کنندہ کے لیے چند خصائص کا مالک ہونا ضروری ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ مصالحت کنندہ کا کردار ادا کرنے والا ملک خود سیاسی اور اقتصادی طور پر مستحکم ہو یعنی اقوامِ عالم میں اس کی حیثیت مسلمہ ہو۔ دوسری شرط یہ ہے کہ تنازع کے فریقین اس ملک کو نیوٹرل تسلیم کریں یعنی دونوں فریقین کو یقین ہو کہ اس ملک کا کردار عدل اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرے گا۔ تیسری ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ فریقین اس ملک کے پاس مصالحت کرانے کی خواہش کا اظہار کریں۔ عراق اور سلطنتِ عمان نے بھی اپنے تئیں ایران اور سعودی عرب میں مصالحت کرانے کی کوشش کی مگر وہ اس کام کو مکمل نہ کر سکے۔ چین اس اچھے عمل کے لیے تمام شرائط پوری کرتا تھا لہٰذا سہرا چین کے سر ہی سجا۔ پاکستان خواہش کے باوجود یہ کردار ادا نہیں کر سکا۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی عدم استحکام ہے۔ اقتصادی صورتحال یہ ہے کہ ہم 22مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جا چکے ہیں۔ ایک اور وجہ میری رائے میں یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ایران کا خیال یہ ہو کہ ہمارا جھکاؤ خاص حد تک سعودی عرب کی طرف ہے لہٰذا وہ ہمیں نیوٹرل ایمپائر نہیں مانتا۔ تو پھر چہ عجب کہ کسی پارٹی نے بھی پاکستان سے ثالثی کی درخواست نہیں کی۔
مغربی مبصرین عمومی طور پر ایران سعودی عرب کی مخاصمت کو اسلام کے دو بڑے مسالک کا مذہبی تناؤ قرار دیتے ہیں۔ یہ بات جزوی طور پر تو درست ہو سکتی ہے لیکن کلی طور پر نہیں۔ شاہِ ایران اور شاہ فیصل کے دور میں دونوں ملکوں میں دوستی تھی اور تعاون تھا۔ تناؤ کی کیفیت انقلابِ ایران کے بعد پیدا ہوئی۔ بڑی وجہ یہ تھی کہ ایرانی قیادت کا کہنا تھا کہ انقلاب کو برآمد کرنا ان کا نصب العین ہے۔ اس اعلان نے خلیجی عرب ممالک اور ایران میں شکوک کی فضا قائم کی اور طویل تلخی کی بنیاد رکھی۔
دراصل عرب و عجم مسابقت اسلام سے پہلے بھی موجود تھی۔ ایران آج سے ڈھائی ہزار سال پہلے ایک ایمپائر تھا۔ ہر ایرانی کو اپنی تہذیب و تمدن پر ناز تھا۔ بعثتِ اسلام کے بعد عرب فتوحات شروع ہوئیں۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں جنگ قادسیہ میں ایران کو شکست ہوئی اور اب یہ اسلامی سلطنت کا حصہ تھا۔ کالم کی تنگ دامنی تاریخ کے قصوں کو دہرانے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ایران اور سعودی عرب کی حالیہ مخاصمت دراصل دو بڑی علاقائی طاقتوں کے مابین خطے میں اثر و رسوخ بڑھانے کا مقابلہ ہے جو ہمیں عراق‘ لبنان اور یمن میں نظر آتا ہے۔ مقابلے اور مسابقت کی یہ فضا سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد بھی جاری رہ سکتی ہے البتہ اس کی شدت میں کمی ضرور آ سکتی ہے اور یہ خوش آئند بات ہوگی۔
جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے‘ یہ مسالک کی جنگ نہیں تھی بلکہ خطے میں اثر و رسوخ کے لیے مقابلہ تھا۔ اس مقابلے میں شروع میں شام اور عراق میں ایران کا پلڑا بھاری نظر آتا تھا لیکن اس مسابقت سے کچھ حاصل نہیں ہوا‘ آج پورا مڈل ایسٹ مل کر بھی اسرائیل کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ فرض کیجئے کہ اگر ایران اور سعودی عرب دونوں آج ایک ہی مسلک اختیار کر لیتے ہیں تو کیا اس صورت میں ان کے مابین مسابقت ختم ہو جائے گی؟ میرا جواب نفی میں ہوگا‘ اس لیے کہ یہ فقط مسلکی تناؤ نہیں ہے۔
چین کو میں نے سطورِ بالا میں بے تیغ سپاہی لکھا ہے۔ چین نے مڈل ایسٹ میں کوئی فوجی اڈا نہیں بنایا جبکہ امریکہ کے بحرین‘ قطر اور عرب امارات میں فوجی اڈے اب بھی موجود ہیں۔ چین کی طاقت تجارت اور ٹیکنالوجی میں مضمر ہے۔ چین‘ ایران‘ عراق اور سعودی عرب سے بھاری مقدار میں تیل خریدتا ہے۔ مڈل ایسٹ کے ساتھ چینی تجارت پچھلے تین سال میں دوگنی ہو گئی ہے۔ ایران چینی مصنوعات کا بڑا خریدار ہے۔ چین کی ایک مشہور ٹیلی کام کمپنی کے پاس مڈل ایسٹ میں متعدد ٹھیکے ہیں۔
خلیجی ممالک صدر ٹرمپ کی مڈل ایسٹ پالیسی کو پسند کرتے تھے۔ صدر بائیڈن سے ایران کو بڑی توقعات تھیں جو پوری نہیں ہو سکیں۔ ایٹمی پروگرام کا معاہدہ بحال نہیں ہو سکا۔ اقتصادی پابندیاں پہلے سے بھی سخت ہیں‘ ایران کے اندرونی مسائل خاصے بڑھ گئے ہیں۔ 2019ء میں سعودی عرب کی بڑی تیل کمپنی آرامکو کی تنصیبات پر ڈرون حملے ہوئے تو سعودی عرب کی خواہش تھی کہ امریکہ اور اسرائیل مل کر حوثی باغیوں پر حملہ کرکے ایران کو جواب دیں مگر ایسا نہ ہوا۔جس سے خلیجی ممالک کو یقین ہو گیا کہ مڈل ایسٹ میں امریکی دلچسپی کم ہو رہی ہے۔ اب امریکہ کے چھوڑے ہوئے خلا کو مڈل ایسٹ میں روس اور چین پر کریں گے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ امریکہ مڈل ایسٹ سے مکمل طور پر چلا جائے گا۔ میری رائے یہ ہے کہ خلیجی ممالک اب چین‘ روس اور امریکہ سے یکساں تعلقات رکھیں گے۔ سعودی عرب کا فوکس اقتصادی ترقی پر ہے لہٰذا وہ یمن میں امن کا خواہش مند ہے۔ خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے مابین سفارتی تعلقات کی بحالی سے پورے خطے میں سیاسی درجہ حرارت قدرے کم ہوگا اور یمن میں بھی امن ممکن ہو سکے گا اور اس کے مثبت اثرات پورے خطے پر مرتب ہوں گے۔ہمارے لیے یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ اس پیش رفت کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ جب بھی ایران اور سعودی عرب کے مابین تناؤ بڑھتا ہے‘ پاکستان مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔ اب ہمارے لیے صورتحال آسان تر ہوگی۔ پاکستان کے لیے اشد ضروری ہے کہ اس کے تعلقات سعودی عرب اور ایران دونوں سے برادرانہ ہوں۔ چین کی ان دونوں ممالک سے دوستی بھی ہمارے لیے آسانیاں پیدا کرے گی۔
پاک ایران دوستی سے بارڈر کے معاملات بہتر طور پر ہینڈل ہوسکیں گے۔ اس سے بلوچستان میں جاری شدت پسندی کنٹرول کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ پاک ایران بارڈر کے دونوں جانب بازار بنیں گے۔ تجارت میں اضافہ ہوگا۔ ایران پر لگی ہوئی اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے اس تجارت کا بیشتر حصہ بارٹر کی صورت میں ہوگا۔ ایران کے ساتھ حال ہی میں بجلی کا معاہدہ بھی ہوا ہے۔ یہ علاقہ پرامن ہو جائے تو یہاں خلیجی سرمایہ کاری ممکن ہو جائے گی۔ سی پیک کے تجارتی امکانات مزید روشن ہو جائیں گے۔ میرے ذہن میں یہ خدشہ اُبھر رہا ہے کہ امریکہ خلیج سے جاتے وقت اس خطے کا سکیورٹی چارج انڈیا کو نہ دے دے۔ موجودہ خوش آئند پیش رفت کے انڈیا پر کیا اثرات ہوں گے‘ یہ بحث آئندہ کسی کالم میں ہوگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں