"JDC" (space) message & send to 7575

سعودی ایران مصالحت کے علاقائی اثرات

چین کی وساطت سے ہونے والی سعودی ایران مصالحت پاکستان کے لیے نویدِ مسرت تھی۔ ان دو دوست ممالک میں تناؤ ہمارے لیے پریشانی کا باعث بنا رہا ہے اور اب ان دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات کا بحال ہونا ہمارے لیے بڑی خوشخبری ہے۔ ہماری وزارتِ خارجہ نے فوراً اس پیش رفت کا خیر مقدم کیا۔ ایران ہمارا اہم ہمسایہ ملک ہے اور دونوں ممالک کئی صدیوں سے تاریخی اور ثقافتی رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں جبکہ سعودی عرب بھی دینی اور دنیاوی لحاظ سے ہمارے لیے بے حد اہم ہے۔ اس پیش رفت سے پاک ایران تعلقات پر مثبت اثرات پڑنا شروع ہو چکے ہیں۔
اس پیش رفت میں یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ یہ مصالحت چین کی وساطت سے ہوئی ہے۔ ذرا ایک لمحے کے لیے تصور کیجیے کہ اگر یہی کردار بھارت ادا کرتا تو صورت حال ہمارے لیے اس قدر خوش آئند نہ ہوتی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ انڈیا ایک عرصے سے بحر ہند سے متصل تمام ممالک کی چودھراہٹ کا متمنی ہے اور خلیجی ممالک بھی انڈیا کے اس پرانے خواب میں شامل ہیں۔ ماضی قریب میں بھارت کا ان ممالک میں روز افزوں اثر و رسوخ بھی دیکھنے میں آیا ہے‘ اس لیے اس مصالحت کا سہرا چین کے سر سجنا بھارت کو پسند نہیں آیا۔ اس صلح کے بعد شام عرب لیگ میں واپس آ گیا ہے‘ ایران اور مصر کے تعلقات بہترہونا شروع ہو گئے ہیں۔ پاکستان اور ایران بارڈر پر منڈیاں بنانے کی طرف راغب نظر آ تے ہیں۔ یمن کے تنائو میں کمی آ رہی ہے۔
چند روز پہلے ایران کی طرف سے یہ تجویز بھی سامنے آئی ہے کہ خطے کے ممالک بشمول بھارت اور پاکستان کو بحری تعاون بڑھانا چاہیے۔ یہ خطہ انرجی وسائل کی بحری ٹرانسپورٹ کے لیے نہایت اہم ہے۔ ایران کی تجویز کو ذرا اس تناظر میں بھی دیکھئے کہ بحرین میں امریکہ کی بحریہ کا اڈہ ہے اور بحرین میں ہی کمبائنڈ ٹاسک فورس (CTF) کا بیس بھی ہے جو بین الاقوامی نیول فورس ہے اور سمندر میں قزاقی‘ منشیات کی سمگلنگ اور دہشت گردی کو روکنے کے اقدامات کرتی ہے۔ پاکستان شروع سے اس کمبائنڈ ٹاسک فورس کا نہ صرف ممبر ہے بلکہ کئی مرتبہ اس کی کمانڈ بھی سنبھال چکا ہے۔ ایران چاہتا ہے کہ خطے میں مغربی افواج کا وجود اگر ختم نہ بھی ہو تو کم ضرور ہو جائے۔ انڈیا کو یہ ایرانی تجویز بہت پسند آئی ہو گی کیونکہ وہ پہلے ہی خلیجی ممالک کے ساتھ دفاعی تعاون بڑھانا چاہتا ہے۔
خطے کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں‘ اس سے مغربی قوتوں پر دفاعی انحصار کم ہوتا جائے گا لیکن یک دم ختم نہیں ہو گا۔ خلیجی عرب ممالک چین‘ روس اور امریکہ کے ساتھ یکساں دوستانہ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں اور اس قسم کی پالیسی کا پاکستان بھی خواہاں ہے۔ خلیجی ممالک کو اس بات کا یقین ہو چلا ہے کہ اگر ایران کے ساتھ معاملات بہت خراب ہو گئے تو مغربی ممالک ہماری مدد کے لیے نہیں آئیں گے۔ لہٰذا خطے کے مسائل کا حل لوکل سطح پر ہو تو بہتر ہو گا۔ یہ بات اکثر سننے میں آتی ہے اور تسلیم شدہ حقیقت بھی ہے کہ قومیں اپنے ہمسائے نہیں بدل سکتیں۔ ایران اور عرب خلیجی ممالک کو ہمیشہ اسی خطے میں رہنا ہے۔ایک اور ملک یعنی اسرائیل کو بھی اسی خطے میں رہنا ہے۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ دو خلیجی ممالک نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے ہیں۔ ایران کو اس بات کا ادراک ہے کہ علاقے میں تنائو اورسیاسی درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے بھی عرب ممالک اسرائیل کے قریب ہوئے ہیں اور ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ اسرائیل عرب ممالک کو کچھ دیے بغیر ان کی صفوں میں داخل ہو چکا ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے مابین مصالحت اور سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد اب عرب ممالک کا اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا عمل سست پڑ جائے گا۔
مصر اور ایران کے تعلقات میں 1979ء سے سرد مہری چلی آ رہی ہے بلکہ کئی مواقع پر تو ان تعلقات میں ضد اور دشمنی بھی دیکھنے میں آئی۔ شاہِ ایران کے لیے آخری دنوں میں دنیا تنگ ہوگئی تھی۔ بہت کم ممالک انہیں علاج کی غرض سے پناہ دینے کو تیار نظر آئے۔ انہیں تدفین کے لیے دوگز زمین بھی دینے کے لیے کم ملک ہی آمادہ تھے۔ اس حالت میں مصر کے صدر انور السادات نے انہیں قاہرہ میں دفن کرنے کی ہامی بھری۔ ایرانی انقلابی لیڈر شپ کے لیے یہ اقدام دشمنی کے مترادف تھا۔ صدر سادات کو مصری فوج کے لیفٹیننٹ خالد اسلامبولی نے نیشنل ڈے پریڈ کے دوران قتل کیا۔ تہران میں ایک بڑی سڑک کا نام شارع خالد اور اسلامبولی رکھا گیا۔
میڈیا کی اطلاعات ہیں کہ مصر اور ایرانی حکومتوں کے بغداد میں بیک چینل رابطے ہوئے ہیں۔ ایران کے روحانی پیشوا جناب علی خامنہ ای نے عمان کے سلطان ہیثم بن طارق کو حال ہی میں بتایا ہے کہ ایران مصر کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے کا خواہاں ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ پورے خطے میں تنائو کم ہو رہا ہے۔ ترکی اور خلیجی ممالک کے تعلقات میں بہتری پچھلے سال شروع ہو گئی تھی۔ اگر ایران یمن میں حوثی باغیوں کی امداد کم کر دے یا ان پر صلح کے لیے دبائو ڈالے تو یمن کے مسئلے کا حل بھی نکل سکتا ہے لیکن ایسا فوری طور پر ہونا مشکل ہے۔ ایران اپنے پتے آہستہ آہستہ اور سوچ سمجھ کر کھیلے گا۔ یمن میں حوثی اور لبنان میں حزب اللہ ایران کے مضبوط پتے ہیں۔
ایران اورسعودی عرب دونوں چین کے اہم تجارتی پارٹنر ہیں۔ ایران کی اقتصادی حالت مغرب کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں کی وجہ سے خراب ہے۔ رہی سہی کسر عرصے سے جاری مظاہروں نے نکال دی ہے۔ بے روزگاری عام ہے۔ سعودی عرب بھی اپنی تمام توجہ وژن 2030ء پر مرکوز کرنا چاہتا ہے۔ مڈل ایسٹ کے لوگ جنگوں سے تنگ آ چکے ہیں۔ جنگوں نے عراق‘ شام‘ لیبیا اور یمن کو تباہ حال کر دیا ہے اور اب سوڈان تباہی کے دہانے پر ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ خطے کے دو اہم ترین ممالک نے باقی ممالک کو امن و آشتی کی راہ دکھائی ہے۔
ایران اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے ہمسایوں کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کرنے پر مجبور ہے یا ڈالر کے علاوہ کسی اور کرنسی میں ادائیگی کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ ایران کے ساتھ چینی یا جاپانی کرنسی میں تجارت کرے۔ ایران سے جو بڑے پیمانے پر سمگلنگ ہو رہی ہے‘ حکومتِ پاکستان اس کی حوصلہ شکنی کرکے دستاویزی تجارت کو فروغ دے۔دوسری طرف‘ کیا ایران کے ایٹمی پروگرام پر بھی کوئی مفاہمت ہوئی ہے‘ یہ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ ویسے ایران کے لیے ایٹمی پروگرام کو مکمل بند کرنا ریڈ لائن ہے۔ یہ معاہدہ چین کی بڑی سفارتی کامیابی ہے۔ اس سے بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ کو عمومی طور پر اور سی پیک کو خصوصی طور پر فائدہ ہو گا اور پاکستان کی جغرافیائی اہمیت مزید بڑھ جائے گی۔ مگر یہ کہنا بھی برمحل نہیں ہو گا کہ امریکہ اب مڈل ایسٹ سے نکل جائے گا‘ اس مصالحت کے فوری بعد سعودی عرب نے امریکہ کی بوئنگ کمپنی کو 78کمرشل جیٹ 787کا آرڈر دیا ہے‘ جو اپنے حجم کی وجہ سے بہت بڑی تجارتی ڈیل ہے۔ دیکھا جائے تو خلیجی ممالک اب امریکہ‘ چین اور روس سے یکساں تعلقات رکھنا چاہتے ہیں اور پاکستان کی بھی یہی پالیسی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں