"JDC" (space) message & send to 7575

سفارتی پروٹوکول اور ہمارے لیڈر

اس ماہ کے آغاز میں امریکہ کا نیشنل ڈے تھا۔ امریکہ کے سفیر نے اسلام آباد میں ایک بڑا استقبالیہ دیا۔ کئی موجودہ اور سابق وزرا مدعو تھے۔ چیف گیسٹ وزیراعظم شہباز شریف تھے اور وہ وہاں دوسری مرتبہ ایسی حیثیت میں گئے تھے۔ میرے لیے یہ اچنبھے کی بات تھی۔ میں نے چار ملکوں میں سفارت کاری کی ہے‘ میں نے کبھی کسی صدر یا وزیراعظم کو کسی دوسرے ملک کی قومی تقریب میں جاتے نہیں دیکھا۔ ہمارے ہاں ہر معاملے میں افراط و تفریط نظر آتی ہے۔ یہ بھی اسی قسم کا مظہر تھا۔ شاید پاکستان دنیا کے دوسرے ممالک سے بہت مختلف ہے یا ہو گیا ہے۔
ہمارے ہاں پروٹوکول کی سوجھ بوجھ بھی سطحی سی ہے۔ مثلاً اگر کسی وی آئی پی کی گاڑی کے آگے پیچھے کئی سرکاری گاڑیاں ہوں اور گاڑیوں میں بندوق بردار ہتھیار تانے بیٹھے ہوں تو کہا جاتا ہے کہ اس کا بڑا پروٹوکول ہے۔ حالانکہ یہ پروٹوکول نہیں سکیورٹی ہے‘ تو پھر پروٹوکول کس چیز کا نام ہے؟ پروٹوکول دراصل چند قاعدے‘ قانون اور روایتیں ہیں جو سفارتی میل جول‘ ملاقاتوں اور اعلیٰ سطحی دوروں میں فالو کیے جاتے ہیں۔
ہمارے ہاں پروٹوکول کی جتنی سمجھ قائداعظمؒ کو تھی اور جتنی پاسداری وہ کرتے تھے‘ بعد میں شاید ہی کسی لیڈر نے کی ہو۔ وقت کی پابندی‘ قائد پر ختم تھی۔ پاکستان بننے کے بعد ایک غیر ملکی مہمان انہیں ملنے آئے اور وقتِ مقررہ سے پانچ سات منٹ پہلے آ گئے۔ سٹاف نے قائد کو اطلاع دی۔ قائد نے کہا کہ انہیں کہیں چند منٹ باہر گزاریں عین مقررہ وقت پر میں داخلی دروازے پر خود ان کا استقبال کروں گا۔ مہمان کو مین گیٹ پر ریسیو کرنا اور وہاں آکر خدا حافظ کہنا بھی پروٹوکول کا حصہ ہے۔
ہر ملک کی سنیارٹی کی ایک ترتیب ہوتی ہے‘ اسے Order of Prudenceکہا جاتا ہے۔ سرکاری تقریبات میں لوگوں کو سنیارٹی کے حساب سے بٹھایا جاتا ہے۔ اگر جونیئر اور سینئر بیٹھے ہوں تو سینئر ہمیشہ دائیں جانب ہوتا ہے۔ اگر چل رہے ہوں تو بھی جونیئر بائیں جانب ہوگا اور تھوڑا سا سینئر سے پیچھے قدم رکھے گا۔ سرکاری تقریبات میں ڈارک رنگ کا سوٹ یا شیروانی پہنی جاتی ہے اور سیاہ رنگ کے جوتے‘ جو اگر تسموں والے ہوں‘ تو بہتر ہوتا ہے۔
اگر کوئی بیرونی سفارت خانہ بہت سارے وزیروں کو نیشنل ڈے پر مدعو کرے تو ایک ہی وزیر کو جانا چاہیے تاکہ چیف گیسٹ کے بارے میں اور کیک کاٹتے وقت کوئی کنفیوژن نہ ہو۔ پرویز مشرف کے زمانے میں اس بات پر عمل کرنے کی ہدایات تھیں۔ اس سے پہلے وزرا کو میں نے خود قطار اندر قطار مختلف سفارت خانوں کے نیشنل ڈے فنکشن پر جاتے دیکھا ہے۔
1994ء کی بات ہے۔ ڈپلومیٹک انکلیو میں مشرقِ بعید کے ایک ملک کا نیشنل ڈے منایا جا رہا تھا‘ راقم الحروف اس وقت فارن آفس میں ڈی جی تھا۔ مجھے بھی اس فنکشن کی دعوت آئی اور میں نے اٹینڈ بھی کیا۔ استقبالیہ مغرب کے ذرا بعد شروع ہوا۔ ایمبیسی کا لان قمقموں سے روشن تھا۔ مختلف جگہ میز لگے ہوئے تھے جہاں رنگ برنگ کی بوتلیں تھیں۔ آبدار دخترِ انگور کو خوبصورت مخروطی اور عام سائز کے گلاسوں میں ہر مہمان کو اس کی خواہش کے مطابق بڑی مہارت سے انڈیل کر دے رہے تھے۔ مجھے وہاں کئی فیڈرل وزیر نظر آئے۔ میں نے گنے تو چھ عدد وزیر تھے۔ پاکستان کو شراب سے پاک کرنے میں پہلا قدم ذوالفقار علی بھٹو نے اٹھایا تھا اور ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ یہ وزیر بھی انہی کی پارٹی کے تھے اور ان میں بد ذوق کوئی نہ تھا۔
یوں تو ہمارے لیڈر قومی غیرت کا راگ الاپ لگاتے رہتے ہیں لیکن قومی غیرت اور عزت کو اپنے ذاتی مفاد پر قربان بھی کرتے رہتے ہیں۔ 2011ء کی بات ہے ایک خلیجی ملک کا نیشنل ڈے تھا۔ استقبالیہ کیلئے میں بھی مدعو تھا۔ وقتِ مقررہ پر ڈپلومیٹک انکلیو کے عقبی مدخل‘ جس کا نام شمس گیٹ ہے‘ وہاں پہنچا تو گاڑیوں کی لمبی قطار تھی۔ سکیورٹی والے ایک ایک مہمان سے دعوت نامہ اور شناختی کارڈ مانگ رہے تھے۔ صاف لگ رہا تھا کہ کوئی بڑی شخصیت بطور مہمانِ خصوصی آ رہی ہے اور وہ مہمانِ خصوصی کوئی اور نہیں بلکہ صدرِ پاکستان تھے۔ یقین مانیں کہ مجھے کوئی خوشی نہیں ہوئی‘ یہ افراط و تفریط کا ایک اور مظاہرہ تھا۔ بعد میں پتا چلا کہ صدرِ پاکستان اس خلیجی ملک میں اچھی خاصی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ کاش ہمارے لیڈر پاکستان میں بھی سرمایہ کاری کریں۔
دنیا میں چند ملک ایسے ہیں جہاں اسنادِ سفارت کی تقریب کیلئے گھوڑوں والی بگھی استعمال ہوتی ہے اور ان میں اکثریت ان ملکوں کی ہے جہاں اعزازی قسم کی بادشاہت اب بھی قائم ہے۔ قصرِ ریاست کے مین دروازے سے سفیر صاحب کو بگھی میں بٹھایا جاتا ہے۔ چیف آف پروٹوکول ان کے ساتھ بیٹھتا ہے اور پھر یہ اسناد کے ساتھ بادشاہ یا ملکہ کے حضور پیش ہوتے ہیں‘ مگر یہ بگھی والی رسم اکثر ملکوں میں متروک ہو چکی ہے‘ لیکن پاکستان میں یہ ٹھاٹ باٹ آج بھی جاری و ساری ہے۔ ہمارے ہاتھ میں کشکول ضرور ہے مگر عادتیں ہماری شاہانہ ہیں۔ میں نے چھ ممالک میں اسناد پیش کی ہیں‘ کسی بھی جگہ گھوڑوں والی بگھی میں مجھے بیٹھنا نصیب نہیں ہوا۔ سب سے شاندار تقریب 2001ء میں بلغراد میں ہوئی تھی جہاں مجھے صدر ٹیٹو کے تصرف میں رہنے والی مرسیڈیز کار میں بٹھایا گیا تھا۔ گارڈ آف آنر بھی اعلیٰ پائے کا تھا۔
پچھلے دنوں سوئٹزر لینڈ کے وزیر خارجہ اعلیٰ سطح کے وفد کے ساتھ تین روزہ دورے پر پاکستان آئے‘ ایسے دوروں کی تاریخیں اور پروگرام پہلے سے باہمی مشورے سے طے ہوتے ہیں۔ ہم عمومی طور پر سوئٹزرلینڈ کو اس کی خوبصورتی‘ بینکاری نظام اور انواع و اقسام کے چاکلیٹ کی وجہ سے جانتے ہیں‘ لیکن یہاں اقوام متحدہ کے دفاتر‘ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) آئی ایل او‘ ریڈ کراس اور FIFAکے ہیڈ آفس بھی ہیں۔ جب یہ اہم مہمان پاکستان آئے تو ہمارے وزیر خارجہ امریکہ میں پرائیویٹ دورے پر تھے۔ وزیر مملکت حنا ربانی کھر بھی اسلام آباد میں نہیں تھیں۔ وزیراعظم سے ملاقات کرا کے مہمان کی تشفی کی گئی‘ لیکن ایسے دوروں میں اصل ملاقات اپنے ہم منصب سے ہوتی ہے۔ ہم نہ پروٹوکول کے بارے میں سنجیدہ ہیں اور نہ قومی امور کے سلسلہ میں۔ پچھلے سال آپ کو یاد ہوگا کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کا بذاتِ خود مشاہدہ کرنے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل پاکستان آئے تھے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ایئر پورٹ پر ان کا بازو کچھ زیادہ ہی دبا دیا۔ سیکرٹری خاصے پریشان ہوئے اور ویڈیو وائرل ہو گئی۔
سابق وزیراعظم عمران خان بھی پروٹوکول کے بارے میں خاصے لاپروا تھے۔ ایک مرتبہ اہم خلیجی ملک کے دورے پر گئے‘ کھڑے کھڑے بادشاہ سے بات کر رہے تھے۔ مترجم ان کے جملوں کا ترجمہ کرکے فرمانروا کو سنا رہا تھا کہ خاں صاحب باہر کو چل دیے۔ اسی طرح بشکیک میں ایس سی او کی سربراہ کانفرنس تھی۔ صدر کا پروٹوکول میں رتبہ وزیراعظم سے اوپر ہوتا ہے۔ پاکستان کی نمائندگی وزیراعظم کر رہے تھے‘ جب سربراہان ہال میں داخل ہوئے تو تمام حاضرین احتراماً کھڑے ہو گئے‘ مگر خاں صاحب بیٹھے رہے۔ انڈین میڈیا نے اس بات کو خاصا ہائی لائٹ کیا۔
عیدالفطر کے موقع پر خبر آئی کہ وزیراعظم نے چاروں گورنروں اور وزرائے اعلیٰ کو فون کرکے عید مبارک کہی۔ پروٹوکول کے مطابق اس کے برعکس ہونا چاہیے تھا۔ ہم روایت شکن لوگ ہیں ‘مگر اے کاش ہم کوئی اچھی روایتیں بھی قائم کریں تاکہ دنیا میں ہمارا امیج بہتر ہو۔ سبز پاسپورٹ کی عزت بڑھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں