"JDC" (space) message & send to 7575

بلوچستان کی اہمیت

بلوچستان رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ یہ صوبہ پاکستان کے 44فیصد رقبے پر محیط ہے مگر یہاں کل ملکی آبادی کا تقریباً چھ فیصد حصہ آباد ہے۔ یہاں غربت باقی صوبوں سے زیادہ ہے۔ اقتصادی اور سماجی اشاریے افغانستان اور یمن سے ملتے جلتے ہیں۔
بلوچستان کی ایران اور افغانستان سے طویل سرحدیں ملتی ہیں۔ سی پیک اور گوادر کی وجہ سے صوبے کی سٹریٹجک اہمیت بہت بڑھ گئی ہے اور یہاں قیمتی معدنیات کے ذخائر بھی ہیں‘ اس لیے یہ پاکستان کا امیر ترین صوبہ بن سکتا ہے۔ وسیع رقبہ اور کم آبادی اقتصادی ترقی کو ایک چیلنج بنا دیتے ہیں۔ کم لوگوں کے لیے طویل سڑکیں بنانا پڑتی ہیں۔ دور دراز علاقوں میں سکول اور ہسپتال بنا کر انہیں کامیابی سے چلانا بھی چیلنج ہے۔ ویسے تو کرپشن کی شکایت پورے ملک میں ہے لیکن بلوچستان میں یہ قدرے زیادہ ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کا بھی اس صوبے پر خاصا منفی اثر پڑا ہے۔ یہاں رواں اور گزشتہ برس معمول سے زیادہ بارشوں سے نہ صرف املاک کو نقصان پہنچا بلکہ جانی نقصان بھی ہوا۔ لائیو سٹاک بلوچستان کی اکانومی کا بہت اہم سیکٹر سمجھا جاتا ہے۔ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق گزشتہ برس آنے والے سیلاب کی وجہ سے تین لاکھ 28 ہزار سے زیادہ جانور ہلاک ہوئے‘ لہٰذا اس نقصان کے معاشی اثرات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ سیلاب سے سڑکیں تباہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان کا زمینی رابطہ بھی دو مرتبہ پورے ملک سے کٹ گیا تھا۔
سیاسی اضطراب بلوچستان میں آج ہی نہیں ماضی میں بھی متعدد مرتبہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے وہاں آپریشنز بھی ہوئے اور سیاسی حل نکالنے کی بھی کوشش کی گئی۔ سوال یہی تھا کہ بلوچستان کو قومی دھارے میں کیسے لایا جائے؟ اس جانب مثبت قدم بھی اٹھائے گئے۔ مثلاً مکران ہائی وے‘ جو پرویز مشرف کے دور میں بنی‘ کی وجہ سے بلوچستان کی اکانومی کا کراچی کی مارکیٹ سے تعلق مضبوط ہو گیا ہے۔ اسی طرح سے سوئی میں ملٹری کالج بننے کی وجہ سے پاک فوج میں بلوچستان سے متعدد افسر آئے ہیں جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔اٹھارہویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کی وجہ سے صوبائی خود مختاری کا مطالبہ بڑی حد تک پورا ہو گیا ہے لیکن چند ایسے واقعات بھی ہوئے جن کی وجہ سے ناراضی میں اضافہ بھی ہوا۔ 2006ء میں راقم الحروف سلطنت عمان میں سفیر تھا۔ وہاں اچھی خاصی آبادی ایسی ہے جن کا آبائی وطن بلوچستان ہے۔ گرمیوں کی تعطیلات میں پاکستان آنے کے لیے ہزاروں لوگ سفارت خانے میں ویزہ لینے آتے تھے۔ میرے بلوچ بھائیوں سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ یہ اپنے ناموں کے ساتھ فخر سے البلوشی لکھتے تھے۔ اپنی بہادری اور جرأت کی بدولت یہ آج بھی عمان کی فوج اور پولیس میں شوق سے بھرتی ہوتے ہیں اور حکومت بھی ان پر مکمل اعتماد کرتی ہے۔ 2006ء میں نواب اکبر بگٹی کی وفات کا المناک واقعہ ہوا تو مسقط میں بلوچ بھائی بھی ہم سے دور دور رہنے لگے۔ یہ خود دار اور حساس لوگ ہیں۔ مرحوم آیت اللہ درانی کہا کرتے تھے کہ آپ بلوچ کی عزت کریں‘ وہ آپ کی دوگنا عزت کرے گا۔
پی ڈی ایم کی حکومت تحلیل ہونے کے بعد انوار الحق کاکڑ عبوری وزیراعظم مقرر ہو چکے ہیں۔ یہ خبر ہم سب کیلئے باعثِ مسرت ہونی چاہیے کہ موصوف کا تعلق نہ صرف عددی اعتبار سے چھوٹے صوبے سے ہے بلکہ وہ پڑھے لکھے اور روشن خیال شخص ہیں۔ چند ہفتے ہوئے انہیں ایک سیمینار میں سننے کا موقع ملا۔ روانی اور خود اعتمادی سے انگریزی میں تقریر کرتے ہیں‘ روایتی سردار ہر گز نہیں۔ ان کی اٹھان مڈل کلاس سے ہوئی ہے۔ اچھی شہرت کے مالک ہیں اور یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ اچھی شہرت اب سیاستدانوں میں عنقا ہوتی جا رہی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ دہشت گردوں کے بارے میں ان کے ذہن میں ذرہ بھر ابہام نہیں۔ اسی سیمینار میں ایک اور لیڈر جن کی تقریر نے مجھے متاثر کیا‘ وہ تھے سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان۔ بڑے پڑھے لکھے اور سلیقے والے شخص ہیں۔ ان کے افکار مربوط تھے۔ بلوچستان کے مسائل کو خوب جانتے ہیں۔ اظہارِ خیال پر مکمل قدرت ہے۔ اُردو اور انگریزی دونوں روانی سے بولتے ہیں۔ ایسے لیڈروں کا بلوچستان میں وجود روشن مستقبل کی نوید ہے۔
بلوچستان معدنیات کی دولت سے مالا مال ہے۔ پچھلے دنوں اسلام آباد میں منعقد کی گئی معدنیات کانفرنس میں بتایا گیا کہ بلوچستان میں چھ کھرب ڈالر کے معدنی ذخائر ہیں‘ ان میں ریکوڈک اور سیندک کے ذخائر کا ذکر ضروری ہے کیونکہ یہاں سونا‘ چاندی اور تانبا کثیر مقدار میں موجود ہے۔ ان ذخائر کا صحیح استعمال نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کی اقتصادی حالت بھی بدل سکتا ہے۔ ہمارے شمالی علاقوں اور بلوچستان میں لیتھیم (Lithium) بھی موجود ہے۔ جسے مستقبل کی دھات کہا جاتا ہے کیونکہ یہ برقی کاروں کی بیٹری میں استعمال ہوتی ہے۔ پورے پاکستان کا 55فیصد کوئلہ بھی بلوچستان میں ہے۔ جام کمال صاحب کی وزارتِ عظمیٰ کے زمانے میں بلوچستان میں چند ووکیشنل سکول ضرور بنے لیکن ضرورت ہے کہ صوبے میں انٹرنیشنل سٹینڈرڈ کے پولی ٹیکنک ادارے کھولے جائیں۔ چاغی میں بین الاقوامی معیار کی معدنیات کی یونیورسٹی بننی چاہیے جہاں پچاس فیصد داخلہ لوکل طالب علموں کو دیا جائے۔ گوادر‘ سیندک اور ریکوڈک میں اعلیٰ ملازمتوں میں بھی مقامی لوگوں کو ترجیح ملنی چاہیے۔ اس طرح صوبے میں ایک نئی مڈل کلاس تشکیل پائے گی جو بلوچستان کے سیاسی اور سماجی منظر کو بدل دے گی۔
حاصل بزنجو مرحوم ایک ادارے میں چند سال میرے ساتھی رہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ہمارے لیے پاکستان میں رہ کر اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنا ہی بہترین آپشن ہے۔ عبوری وزیراعظم اور جام کمال خان بھی ایسے ہی افکار کے حامل ہیں۔ انوار الحق کاکٹرصاحب کی بطور نگران وزیراعظم نامزدگی کے بعد کئی لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس سے بلوچستان میں احساسِ محرومی ختم ہو جائے گا۔ یہ سوچ ہماری سیاسی سادہ لوحی کی دلیل ہے۔نگران وزیراعظم اور چیئرمین سینیٹ کی وجہ سے بلوچستان میں احساسِ شراکت کسی حد تک پیدا ضرور ہوا ہے۔ اختر مینگل اور شاہ زین بگٹی بھی مخلوط حکومت کا حصہ رہے۔ بلوچستان کو سمجھنے کے لیے بلوچ بھائیوں کے ساتھ مزید میل جول کی‘ وہاں ترقیاتی منصوبوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ وہاں ٹیکنیکل تعلیم لا کر غربت کو کم کرنا ہوگا۔ مرکزی حکومت کے نمائندوں کو بھی تواتر سے بلوچستان جانا چاہیے۔ کئی غلط فہمیاں نہ ملنے سے بھی جنم لیتی ہیں۔بلوچستان کا ایران سے ملتا ہوا علاقہ آبنائے ہرمز کے قریب ہے اور یہ تیل اور گیس بردار جہازوں کی حساس گزر گاہ ہے‘ لہٰذا ہر وقت بین الاقوامی ریڈار پر رہتی ہے۔ سیندک کے تانبے کے ذخائر کو فی الحال ہم سفوف یا پائوڈر کی شکل میں ایکسپورٹ کر رہے ہیں اور یہ قیمتی وسائل کا ضیاع ہے۔ عجیب سی بات ہے کہ ایک ایٹمی صلاحیت رکھنے والے ملک کے پاس دھاتوں کی Smeltingکی صلاحیت نہیں ہے۔ پہلے ہم نے سوئی گیس کو لاپروائی سے ضائع کیا اور اب اگر ہم ان دھاتوں کے بارے میں سنجیدہ نہ ہوئے تو ہمارا خدا ہی حافظ ہوگا۔
بلوچستان کا سات سو کلومیٹر لمبا مکران کوسٹ سیاحوں کی جنت بن سکتا ہے۔ اگر وہاں آٹھ دس اعلیٰ پائے کے ہوٹل بن جائیں اور فول پروف سکیورٹی مہیا کردی جائے۔ مکران ہائی وے کو دو رویہ کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ حادثات کی روک تھام ہو سکے۔ بلوچستان کو توجہ کی ضرورت ہے‘ یہاں شاندار انفراسٹرکچر بنایا جا سکتا ہے۔ بلوچستان میں خوش حالی صرف چند سال دور ہے‘ ضرورت صرف ٹیکنالوجی اور اخلاص کی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں