"JDC" (space) message & send to 7575

انڈین سفارت کار کا کینیڈا سے اخراج

جون میں کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا میں ایک گورد وارے کے باہر ایک سکھ رہنما ہر دیپ سنگھ نجر کوقتل کر دیا گیا اور ان کے دونوں قاتل فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ہر دیپ سنگھ اسی گوردوارے کا ناظم بھی تھا اور خالصتان تحریک میں خاصا متحرک بھی‘ اسی لیے کینیڈین ایجنسیاں اُس وقت سے اُس کے قاتلوں کے کھوج میں مصروف تھیں۔ ماضی قریب میں چند ایسے شواہد ان کے ہاتھ لگے جن کی بنیاد پر کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے پارلیمنٹ میں کہا کہ میں قابلِ اعتبار شواہد کی بنیاد پر یہ بیان دے رہا ہوں کہ اس کینیڈین شہری کے قتل میں انڈیا کی خفیہ ایجنسی''را‘‘ کا ہاتھ ہے۔ کینیڈین وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ ہمارے ہاں قانون کی حکمرانی ہے لہٰذا ہم اپنی سرزمین پر اپنے شہریوں کے قتل کو برداشت نہیں کر سکتے۔ کینیڈا میں تقریباً آٹھ لاکھ سکھ مقیم ہیں جو زیادہ تر برٹش کولمبیا اور اونٹاریو میں رہتے ہیں۔ ٹورانٹو سے لے کر نیا گرا فالز تک سکھوں کی خاصی بڑی آبادی ہے۔ ٹورانٹو کے مضافاتی قصبے بریمپٹن (Brampton) میں بھی کافی تعداد میں سکھ رہتے ہیں۔ کینیڈا میں مقیم سکھ سیاسی طور پر فعال ہیں۔ ایک سکھ سیاست دان کینیڈا کے وزیر دفاع بھی رہا ہے‘ اس کا تعلق بھی برٹش کولمبیا سے ہے جہاں ہر دیپ سنگھ نجر قتل ہوا۔ Sikhs for Justiceسکھوں کی ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جو جمہوری اور پُرامن طریقے سے آزاد خالصتان حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس تنظیم کے مطالبے پر یوکے‘ آسٹریلیا اور اب حال ہی میں کینیڈا میں ریفرنڈم ہوا ہے لیکن کیا انڈیا سے باہر آباد سکھ جمہوری طریقے سے خالصتان حاصل کر پائیں گے‘ مجھے اس بات کا ممکن ہونا خاصا دشوار لگتا ہے۔ خیر یہ بحث بعد میں ہوگی فی الحال ہم انڈین سفارت کار کے کینیڈا سے اخراج کی بات کرتے ہیں۔
اُس انڈین سفارت کار‘ جسے کینیڈین حکومت کی طرف سے پانچ روز میں کینیڈا چھوڑنے کا کہا گیا‘ اس کا نام پون کمار رائے ہے اور وہ دراصل انڈین پولیس سروس کا سینئر افسر ہے۔ اس کا تعلق انڈین پنجاب سے ہے۔ اس نے 1997ء میں پولیس سروس جوائن کی اور وہ بھارتی خفیہ ایجنسی را میں کام کرنے کا تجربہ بھی رکھتا ہے۔ پنجابی ہونے کے ناتے خالصتان کے مسئلے اور سکھ کمیونٹی کو بھی خوب سمجھتا ہے۔ اگر ایک ملک میں کسی دوسرے ملک کی کمیونٹی تعداد میں بڑی ہو اور اُس میں حکومت مخالف عناصر بھی موجود ہوں‘ تو وہاں سفارت خانوں میں کور پوسٹ (Cover Post) پر ایجنسیوں کے لوگ لگائے جاتے ہیں اور یہ کام بہت سے ملک کرتے ہیں اور میزبان ملک کو اکثر اس امر سے آگاہ بھی کر دیا جاتا ہے۔
کینیڈین حکومت کو قوی شک ہے کہ پون کمار رائے ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں ملوث ہے۔ اس سے پہلے انڈین گورنمنٹ پر ایک اور سکھ کو برطانیہ میں قتل کرانے کا بھی شک ظاہر کیا گیا تھا۔ موجودہ معاملہ لیکن زیادہ سنجیدہ ہے اس لیے ہے کہ کینیڈین وزیراعظم نے نہ صرف یہ معاملہ جی 20کی سربراہی کانفرنس میں دہلی میں وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ اٹھایا بلکہ اپنے پارلیمنٹ کے فلور پر انڈیا کی خفیہ ایجنسی کے ملوث ہونے کا عندیہ بھی دیا اور پھر کینیڈین حکومت نے پون کمار رائے کے اخراج کااعلان بھی کر دیا۔ اس سے یہ معاملہ خاصا ہائی پروفائل بن گیا ہے۔ کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے امریکی صدر جو بائیڈن‘ برطانوی وزیراعظم رشی سوناک اور آسٹریلیا کے وزیراعظم سے بھی بات کی ہے۔ تینوں حکومتوں نے کینیڈا کے اپنے شہری کے قتل کی تفتیش کرنے کے حق کی تائید کی ہے۔ کینیڈا سے اپنا سفارت کار نکالے جانے کے بعد انڈیا نے بھی کینیڈا کے ایک سفارت کار کو ملک بدر کردیا۔ ایسے شخص کو سفارتی زبان میں غیر مرغوب شخصیت یعنی Persona Non Grataکہا جاتا ہے۔
اب تک اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد ایسے کاموں کے لیے مشہور تھی۔ لگتا ہے کہ بھارتی ایجنسی را نے یہ کام موساد سے ہی سیکھا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھی را‘ موساد کے فلسطین میں مظالم سے کئی سالوں سے مستفید ہو رہی ہے۔ یہ تو اچھا ہوا کہ انڈیا کی انسانی حقوق کے حوالے سے قلعی کسی حد تک کھل گئی۔ انڈیا اب تک پوری دنیا کو بتاتا آ رہا ہے کہ دہشت گردی کو جنوبی ایشیا میں سپانسر کرنے والا ایک ہی ملک ہے اور وہ ہے پاکستان۔ شاید دنیا کو اب یہ پتہ چل سکے کہ انڈیا کا پاکستان مخالف بیانیہ صرف اور صرف جھوٹ کا پلندہ ہے۔ لیکن کیا اس واقعے کے بعد مغربی ممالک انڈیا سے منہ موڑ لیں گے‘ میری رائے میں ایسا نہیں ہوگا۔ کچھ عرصہ بیان بازی ضرور ہوگی پھر حالات نارمل ہو جائیں گے کیونکہ مغرب کو آج چین کے خلاف انڈیا کی حمایت درکار ہے۔ آبادی کے لحاظ سے اب انڈیا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ پانچویں بڑی اکانومی ہے۔ لہٰذا انڈیا کا یہ گناہ بھی معاف کر دیا جائے گا۔ کچھ عرصے کے لیے انڈیا کو البتہ ذرا سی پشیمانی ضرور ہو گی۔ کینیڈا کے الزام میں سچائی کا عنصر ضرور ہے ورنہ کینیڈین وزیراعظم جسٹس ٹروڈو پارلیمنٹ میں ایسا کوئی بیان نہ دیتے کیونکہ اگر مغربی ڈیموکریسی میں وزیراعظم کا جھوٹ پکڑا جائے تو استعفے کی نوبت آ جاتی ہے۔
انڈین میڈیا کا کہنا ہے کہ وزیراعظم ٹروڈو مخلوط حکومت کے سربراہ ہیں‘ انہیں سکھ ووٹوں کی ضرورت ہے‘ وہ محض سکھ کمیونٹی کو خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن بات اتنی سیدھی نہیں ہے۔ کینیڈا میں سکھ کمیونٹی کی صورت حال جاننے کے لیے میں نے اپنے ان دوستوں سے رابطہ کیا جو برسوں سے کینیڈا میں مقیم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کینیڈا میں سکھوں کی اکثریت محنتی ہے اور اپنے کام سے کام رکھتی ہے البتہ ایک حصہ ایسا بھی ہے جو گورد واروں پر کنٹرول کے لیے خوب سرگرم ہے۔ ان میں سے کئی ایسے ہیں جو انڈیا میں پولیس یا عدالتوں کو مطلوب ہیں۔ بہت سارے سکھوں نے سیاسی پناہ کے لیے کینیڈا میں اپلائی کر رکھا ہے۔ گورد واروں کے پردھان سیدھے سادے سکھوں سے خالصتان کے نام پر پیسے بٹورتے ہیں یا انہیں کہا جاتا ہے کہ ہم انڈیا میں غریب سکھوں کی مدد کر رہے ہیں۔ اس لیے گورد وارے ان کے لیے اچھی خاصی آمدنی کا ذریعہ بھی ہیں۔ یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ کینیڈا میں سکھوں کی اکثریت خالصتان کی حامی ہے‘ صحیح نہیں ہوگا۔
دیکھا جائے تو اب انڈیا کے اندر بھی خالصتان تحریک بہت کمزور پڑ گئی ہے۔ سکھ عمومی طور پر انڈیا کی خوشحال کمیونٹی شمار ہوتے ہیں۔ وہ پورے انڈیا میں کاروبار کرنا چاہتے ہیں۔ انڈیا میں سکھوں کی آبادی ایک اعشاریہ آٹھ (1.8) فیصد ہے لیکن انڈین آرمی میں 8فیصد سکھ جوان شامل ہیں۔ انڈین پنجاب کے سارے شہروں بشمول امرتسر میں ہندو اکثریت میں ہیں۔ انڈیا کی اقتصادی ترقی بھی خالصتان تحریک پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ کسی بھی علیحدگی پسند تحریک کی کامیابی کے لیے جو شرائط ضروری ہیں وہ یہ ہیں کہ وہ تحریک چلانے والوں پر بے پناہ مظالم ہو رہے ہوں اور علیحدگی پسندوں کو زور دار اور فعال بیرونی امداد بھی حاصل ہو جیسا کہ 1971ء میں مشرقی پاکستان میں ہوا۔ انڈین پنجاب میں اس وقت یہ دونوں کام نہیں ہو رہے لہٰذا کینیڈا‘ برطانیہ یا آسٹریلیا میں خالصتان کے ریفرنڈم کام نہیں آئیں گے۔ باوجود اس بات کے کہ ان ملکوں میں چند سکھ لیڈر خالصتان کے نظریے کے ساتھ خاصے مخلص ہیں۔
انڈین سفارت کار کا کینیڈا سے اخراج پاکستان کے لیے اچھا موقع ہے۔ سیکرٹری خارجہ سائرس سجاد قاضی نے نیویارک میں اس سلسلہ میں اپنی تشویش کا اظہار بھی کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ انڈیا کو پاکستان سے بہتر کوئی نہیں جانتا اور یہ حقیقت ہے کہ بغل میں چھری اور منہ میں رام رام انڈین پالیسی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں