"JDC" (space) message & send to 7575

فلسطین‘ سفارت کاری اور سیاست

غزہ میں جاری اسرائیلی مظالم نے پوری دنیا کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔ چند روز پہلے واشنگٹن میں مظلوم فلسطینیوں کے حق میں تاریخ کا سب سے بڑا مظاہرہ ہوا ہے۔ ایک سروے کے مطابق 66فیصد امریکی عوام فوری جنگ بندی کے حق میں ہیں لیکن امریکی حکومت کا مؤقف اپنی رائے عامہ کے بالکل مختلف ہے۔ عالمِ اسلام ضعیفی کی حالت میں ہے یا اسے مغربی ممالک کے سامنے کھڑا ہونے کی ہمت نہیں۔ ایک لاطینی امریکہ کے ملک بولیویا نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قطع کر لیے ہیں جبکہ بولیویا کے دو ہمسایہ ممالک یعنی کولمبیا اور چلی نے اسرائیل سے اپنے سفرا کو واپس بلا لیا ہے۔ اس کے مقابلے میں عرب مؤقف خاصا دِھیما رہا ہے۔ اس صورتحال کی وجوہات تلاش کرنا بھی ضروری ہے۔
سب سے پہلے تو اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ سفارتی تعلقات ختم کرنے اور سفیر واپس بلانے میں کیا فرق ہے۔ سفیر واپس بلا لینا سفارتی انداز میں ناراضگی کا اظہار ہے جیسا کہ آپ کو علم ہے کہ پاکستان نے انڈیا کے اگست 2019ء میں کشمیر کے بارے میں فیصلوں پر اپنا ہائی کمشنر نیو دہلی سے واپس بلا لیا تھا لیکن سفارت خانہ اپنی جگہ قائم ہے اور فرائض سرانجام دے رہا ہے۔ ایسی صورت میں وزارتِ خارجہ کا ایمبیسی میں سینئر ترین افسر سفیر کی جگہ کام کرتا ہے اور اسے ناظم الامور کہا جاتا ہے۔ سفارتی پروٹوکول میں ناظم الامور‘ جسے چارج ڈی افیئرز بھی کہا جاتا ہے‘ کا رتبہ سفرا سے کم تر ہوتا ہے لیکن اسے وزارتِ خارجہ اور دیگر وزارتوں تک رسائی ہوتی ہے۔ ناظم الامور اپنی کار اور گھر پر ملک کا جھنڈا بھی لگا سکتا ہے۔
سفارتی تعلقات کا قطع کرنا شدید تر ناراضگی کا اظہار ہوتا ہے۔ پورا عملہ اور سفارت کار واپس اپنے ملک چلے جاتے ہیں۔ عموماً ایک جونیئر افسر سفارت خانے کی پراپرٹی کی حفاظت کے لیے پیچھے رہ جاتا ہے لیکن اس کی کوئی نمائندہ حیثیت نہیں ہوتی۔ تعلقات ختم ہوتے ہی پرچم سفارت خانے کی عمارت اور کاروں سے اُتارنا ضروری ہوتا ہے۔ ایسے میں کسی تیسرے دوست ملک کو اپنے مفادات کی نگرانی سونپ دی جاتی ہے۔ میزبان ملک کو تمام مراسلے نگران سفارت خانے کی وساطت سے بھیجے جاتے ہیں۔ ایران میں 1979ء کے انقلاب کے بعد اُردن اور ایران کے تعلقات منقطع ہو گئے تھے۔ ایران نے پاکستان کو اپنے مفادات کا نگران مقرر کیا تھا۔ میں ان دنوں اُردن میں پوسٹڈ تھا۔ ایران اور اُردن کے درمیان تمام خط و کتابت ہمارے توسط سے ہوتی تھی۔مسلم ممالک میں سے مصر‘ اُردن‘ عرب امارات‘ بحرین‘ مراکش‘ سوڈان‘اور ترکی وغیرہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات رکھتے ہیں۔ 1949ء میں ترکی سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کرنے والا مسلم ملک تھا۔ اب تک لیکن صرف تین مسلم ممالک نے غزہ پر جاری بمباری کی وجہ سے اپنے سفرا کو تل ابیب سے واپس بلا یا ہے اور وہ ہیں ترکی‘ بحرین اور اُردن لیکن یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ ان تینوں ممالک نے اسرائیل کیساتھ اپنے تعلقات منقطع نہیں کیے۔
اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ عرب ممالک کا حماس کے بارے میں عمومی مؤقف کیا ہے۔ عرب لیگ نے 1974ء میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کو فلسطین کی بلاشرکت غیرے نمائندہ تنظیم تسلیم کیا تھا۔ اسی مؤقف کو او آئی سی نے بھی اپنایا۔ پاکستان میں فلسطینی سفارتخانہ دراصل پی ایل او کی ہی نمائندگی کرتا ہے۔ پی ایل او نے جب اسرائیل سے خفیہ مذاکرات شروع کیے تو حماس ردِ عمل کے طور پر وجود میں آئی۔ پی ایل او نے اوسلو میں اسرائیل سے پہلے خفیہ اور پھر اعلانیہ مذاکرات کیے اور امن کا راستہ اختیار کیا۔ حماس 1987ء میں وجود میں آئی تو اس کا مؤقف تھا کہ پی ایل او نے مسلح جدوجہد کو خیر باد کہہ کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔ اوسلو معاہدہ کے بعد اسرائیل کا مکارانہ رویہ واضح ہوتا گیا۔ یہودی بستیاں مغربی کنارے پر بنتی رہیں۔ فلسطینی ریاست کا حصول دشوار تر ہو گیا۔ عرب عوام‘ جنہیں عرب میڈیا شارع عربی پکارتا ہے‘ یہ سوچنے لگے کہ فلسطین کے مسئلے کا حل اب پی ایل او یا صدر محمود عباس کے بس کی بات نہیں رہا۔یعنی وقت گزرنے کیساتھ حماس کا نقطۂ نظر مقبول ہونے لگا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ نظریاتی طور پر حماس اخوان المسلمین کے قریب ہے۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ کئی عرب حکومتیں اخوان کا ذکر بھی پسند نہیں کرتیں۔ حماس کے مخالف اکثر کہتے ہیں کہ 1987ء میں یہ پودا اسرائیل نے خود لگایا تھا تاکہ فلسطینیوں کو تقسیم کرکے پی ایل او کی مقبولیت کو کم کیا جائے لیکن آج یہ بھی حقیقت ہے کہ حماس پی ایل او سے کہیں زیادہ مقبول ہو گئی ہے لیکن عرب حکمرانوں کی نظر میں وہ قبولیت نہیں پا سکی۔ پچھلے ایک ماہ میں صرف دو عرب ممالک نے کھل کر حماس کی تعریف کی ہے اور وہ ہیں قطر اور شام۔ اُردن اور بحرین نے اسرائیل سے اپنے سفیر ضرور واپس بلا لیے ہیں لیکن اس کی بڑی وجہ لوکل پاپولیشن میں فلسطینیوں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت ہے۔ یاد رہے کہ اُردن کی نصف آبادی فلسطینی ہے لیکن دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ سب سے بڑے عرب ملک یعنی مصر کو اب تک اسرائیل سے اپنا سفیر واپس بلانے کی توفیق بھی نہیں ہوئی۔ وجہ غالباً اخوان مخالف سوچ اور امریکہ کا پریشر ہے۔
اسرائیلی حکومت کے چند نمائندوں نے غزہ کے فلسطینیوں کو حیوان کہا ہے حالانکہ اس لقب کے حقدار وہ خود ہیں کہ معصوم بچوں کو قتل کر رہے ہیں۔ ہسپتالوں پر اندھا دھند بمباری کر رہے ہیں۔ مجھے تو بینجمن نتن یاہو اور نریندرا مودی میں بڑی مماثلت نظر آتی ہے۔ دونوں مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہیں۔ دنوں توسیع پسند ہیں۔ ایک فلسطین کی آبادی کا نقشہ بدل رہا ہے تو دوسرا کشمیر میں وہی کام کر رہا ہے۔ صہیونیت اور ہندو توا ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں۔
اکثر لوگ مولانا فضل الرحمن کی اسماعیل ہانیہ اور خالد مشعل سے دوحہ میں ملاقات کو بھی سیاسی معنی دے رہے ہیں لیکن مجھے اچھا لگا کہ پاکستان کے کسی لیڈر نے جا کر حماس کو یکجہتی کا پیغام دیا کیونکہ حکومت پاکستان کے لیے حماس لیڈر شپ سے ڈائریکٹ رابطہ شاید ہمارے دیگر عرب دوستوں کو پسند نہ آتا۔ امیر جماعت اسلامی کو بھی دوحہ جا کر حماس لیڈر شپ سے ملنا چاہیے۔انڈیا نے غزہ کے معاملے میں اسرائیل کا کھل کر ساتھ دیا ہے۔ انڈین میڈیا چند روز سے شور مچا رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن دہشت گردوں سے مل کر آ رہے ہیں۔ سلامتی کونسل امریکی ویٹو کی وجہ سے غزہ میں جنگ بندی نہیں کرا سکی۔ جنرل اسمبلی میں اُردن نے جنگ بندی کی قرار داد پیش کی تو انڈیا نے ووٹ نہیں دیا مگر کیا اس سے عربوں کو کوئی طیش آیا‘ کیا اس سے عربوں کے انڈیا کے ساتھ تعلقات خراب ہو سکتے ہیں؟ میرا جواب نفی میں ہے۔ دنیا بدل چکی ہے۔ پاکستان کے لیے بھی اس بات کا ادراک ضروری ہے۔او آئی سی ممالک کا سربراہی اجلاس 12نومبر کو ریاض میں ہو رہا ہے۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اس اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اس اجلاس میں چین اور روس کے وزرائے خارجہ کو بھی بلایا جائے۔ اگر ماضی میں سشما سوراج بھارت کی وزیر خارجہ کی حیثیت سے او آئی سی کے اجلاس میں مہمانِ خصوصی کے طور پر آ سکتی ہیں تو چین اور روس کے نمائندے کیوں نہیں آ سکتے۔ غزہ کے معاملے میں دونوں ممالک کا رول مثبت رہا ہے۔
غزہ میں انڈونیشین ہسپتال قائم ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ وہاں اب پاکستانی ہسپتال بھی بن جائے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ درجن بھر ہسپتال اسرائیلی بمباری سے تباہ ہو چکے ہیں۔ اس نیک کام کے لیے ایدھی جیسی تنظیم کو عوامی چندہ مہم چلانی چاہیے۔ ہسپتال کی تعمیر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن یا یونیسف کے ذریعے کرائی جا سکتی ہے۔ یہ ہسپتال پاک فلسطین دوستی کی زندہ علامت بن سکتا ہے۔ عرب امارات نے یہ کام شروع کر دیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں