"JDC" (space) message & send to 7575

معیشت اور سیاسی مفادات

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ملکی معاشی حالات چند برسوں سے بہت مخدوش ہیں۔ ملک قرضوں کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ قرض کی بھی متعدد اقسام ہیں‘ اندرونی قرضے‘ بیرونی قرضے اور گردشی قرضے‘ گویا ایک گرداب ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدت پکڑ رہا ہے۔ ملکی معیشت کو سیاسی جماعتوں اور خود ہم نے ڈیفالٹ کے قریب پہنچایا ہے۔ الیکشن قریب ہیں لیکن کیا کسی پارٹی نے اقتصادی مسائل حل کرنے کا کوئی روڈ میپ دیا ہے؟
ملکی معیشت اب ہڈیوں کا ایک ایسا ڈھانچہ بن چکی ہے جس پر کہیں کہیں ہی گوشت رہ گیا ہے اور سیاستدان اس بچے کھچے گوشت کی آخری بوٹیاں نوچ رہے ہیں۔ پی ڈی ایم کی حکومت جاتے جاتے اپنے پارلیمنٹ ممبران کو اس فراخدلی سے ترقیاتی فنڈ دے کر گئی ہے کہ آپ یقین نہیں کریں گے۔ان فنڈز سے وہ عوامی خدمت کا ڈھونگ رچا ئیں گے۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ الیکشن کمیشن اس پر خاموش تماشائی بنا رہا۔ یہ پیسہ عوام کا ہے لیکن اسے سیاستدان الیکشن جیتنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں گویا مقتدر طبقہ حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ کرا رہا ہے‘ اپنے اپنے ووٹروں کو صلائے عام دے رہا ہے کہ خوب مٹھائی کھاؤ‘ وہ مٹھائی جو ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے بنی ہے۔
ہمارے ملک کا باوا آدم ہی نرالا ہے‘ گلیاں پکی کرنا‘ چھوٹی سڑکوں کی تعمیر‘ پکی نالیاں بنانا‘ یہ کام یونین کونسل‘ میونسپل کمیٹی اور تحصیل کونسل کے کرنے کے ہیں مگر یہاں یہ کام ایم این اے کرتے ہیں۔ کبھی آپ نے سنا ہے کہ انگلینڈ میں ہائوس آف کامنز کا ممبر اپنی کائونٹی کی سڑکوں کی مرمت کرا رہا ہو یا امریکہ میں کوئی اس طرح کے چھوٹے چھوٹے کام کرا رہا ہو۔ وہاں یہ کام کائونٹی کونسل کراتی ہے یا میئر‘ اور ان دونوں کو عوام منتخب کرتے ہیں۔
اقتصادی منصوبہ بندی ایک پروفیشنل عمل ہے جسے ماہرینِ معاشیات مل کر انجام دیتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ایم ایم احمد اور ڈاکٹر محبوب الحق ہمارے پلاننگ کمیشن کے اُس زمانے میں سربراہ تھے جب دوسرے ترقی پذیر ممالک ہمیں رشک سے دیکھتے تھے۔ دونوں غیر سیاسی تھے۔ اس زمانے میں ممبرانِ اسمبلی میں ترقیاتی فنڈز بھی تقسیم نہیں ہوتے تھے۔ لہٰذا ملکی وسائل وہیں صرف ہوتے تھے جہاں ان کی ضرورت ہوتی تھی اور معیشت کو فائدہ پہنچتا تھا۔ پلاننگ کمیشن میں متعدد ایسے ماہرین تھے جو اچھی سے اچھی یونیورسٹیوں سے پی ایچ ڈی کرکے پاکستان واپس آئے تھے۔ پلاننگ کمیشن میں سیاسی مداخلت بہت کم تھی۔ فیصلے سوچ سمجھ کر اور میرٹ پر ہوتے تھے۔ آج ذرا پوچھیں کہ موجودہ پلاننگ کمیشن میں کتنے ڈاکٹریٹ ہیں اور فیصلے کیسے ہوتے ہیں‘ تو آپ کو ترقی کے معکوس سفر پر حیرت نہیں ہو گی۔ آج اقتصادیات کے قریب المرگ جسم پر سیاسی گروہ بیٹھے ہوئے ہیں۔
اسلام آباد سے لاہور کا فاصلہ براستہ جی ٹی روڈ 270کلو میٹر تھا جو براستہ موٹروے 380کلو میٹر ہو گیا ہے۔ موٹروے ملک کی دفاعی ضرورت بھی تھی لیکن یہ ضروری نہیں تھا کہ یہ اتنی ہی طویل ہوتی‘ لیکن کہا جاتا ہے کہ ایک بااثر سیاست دان‘ جن کا تعلق چکری سے تھا‘ موٹروے کو اپنے حلقے سے گزارنا چاہتے تھے۔ موٹروے چکری سے گزری تو اسے سالٹ رینج سے بھی گزارنا پڑا حالانکہ ٹیکنیکل لحاظ سے یہ راستہ درست نہیں۔ایک اور سیاست دان کے اثر و رسوخ کی وجہ سے بہت بڑا سپورٹس سٹیڈیم نارووال میں بنایا گیا حالانکہ یہ سیالکوٹ یا گوجرانوالہ میں بنتا تو کئی گنا زیادہ لوگ مستفید ہوتے۔ ملک کو اچھے ایتھلیٹ ملتے‘ لیکن حلقے کی سیاست ملکی مفاد پر حاوی رہی۔ گڈ گورننس کا بنیادی اصول میرٹ ہے یعنی جس کا کام اس کو ساجے۔ آپ کبھی ریسرچ کرکے دیکھیں کہ چین کی لیڈر شپ میں کتنے لوگ پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے ہیں اور ہمارے ہاں کابینہ میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ کتنے تھے اور کتنے ہیں؟
انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت کو لے لیں۔ موجودہ وزیر آئی ٹی اس شعبہ کے ماہر ہیں لیکن کیا پی ڈی ایم کی حکومت یا پی ٹی آئی حکومت میں آئی ٹی کے وزیر اس شعبہ کی باریکیوں سے واقف تھے‘ جواب یقینا نفی میں ہے۔ ہماری ایک سیاسی جماعت کی محبوب وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس رہی ہے۔ کیا اس پارٹی کے پاس تجربہ کار سول انجینئر ہیں کیونکہ پاک پی ڈبلیو ڈی کا محکمہ اسی وزارت کے دائرے میں آتا ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت میں اتنے زیادہ وزیر تھے کہ انہیں رہائش‘ گاڑیاں اور سٹاف مہیا کرنا ایک مسئلہ بن گیا تھا۔ ہاؤسنگ اینڈ ورکس کی وزارت ایک ایسی شخصیت کو دی گئی جو دراصل وزارتِ مذہبی امور کی حقدار تھی۔ وہ صاحب سول انجینئرنگ کی ابجد سے بھی واقف نہ تھے‘ مگر ان کی سیاسی جماعت مُصر تھی کہ یہی وزارت لے کر رہے گی۔
اربن سندھ کی ایک جماعت کی نظر ہمیشہ وزارتِ مواصلات پر ہوتی ہے کیونکہ کراچی پورٹ ٹرسٹ (KPT) اس کے ماتحت ہے اور کے پی ٹی ملازمتیں بانٹنے کے لیے مناسب ادارہ ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت میں رانا تنویر حسین کو وزیر تعلیم لگایا گیا۔ وہ پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں اور تعلیم و تدریس کے شعبے سے ان کا دور کا تعلق بھی نہیں۔ ان کی ایک یونیورسٹی کانووکیشن کی تقریر بڑی مشہور ہوئی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ فیصل آباد اور راولپنڈی زرعی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر رانا برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ رانا برادری تو حکمرانی کیا کرتی ہے‘ ان کا زراعت سے کیا تعلق؟ موصوف کا یہ جملہ انتہائی غیر مناسب تھا اور یہ خود تعلیم کی وزارت کے قطعاً اہل نہ تھے۔ تقریر میں ایسے ایسے الفاظ استعمال کیے گئے تھے جو یہاں لکھے نہیں جا سکتے۔ پی آئی اے ایک زمانے میں پاکستان کا افتخار تھی پھر سیاسی بھرتیوں اور ٹریڈ یونین نے اس کا بھی بیڑہ غرق کر دیا۔ یونین کے عہدے دار کام کم ہی کرتے تھے۔ صورتحال اس قدر خراب تھی کہ 2019ء میں مجبوراً یونین کو ختم کرنا پڑا۔ میں عسکری حکومتوں کا کبھی حامی نہیں رہا لیکن اس دور میں حکومتی محکموں میں قدرے ڈسپلن ضرور آ جاتا ہے۔ اگر کوئی عسکری حکومت قومی ایئر لائن سے سفارشیوں کی چھانٹی کرتی تھی تو سیاسی حکومت آکر ان کو نہ صرف بحال کر دیتی تھی بلکہ پچھلی تنخواہ اور مراعات بھی واپس دے دیتی تھی۔ جب پی آئی اے بامِ عروج پر تھی تو ایئر مارشل نور خان اس کے سربراہ تھے جو سو فیصد میرٹ اور ڈسپلن پر یقین رکھتے تھے۔ اس کے بعد ایئر لائن کے ساتھ کیا ہوا‘ وہ دکھ بھری داستان دہرانے کی ضرورت نہیں۔ ہماری شاندار ایئر لائن سیاست اور یونین بازی کی نذر ہو گئی۔
کچھ ایسی ہی کہانی ہمارے بینکوں کی بھی ہے۔ بینک دنیا بھر میں تجارت اور صنعت کے لیے قرضے دیتے ہیں لیکن ہمارے ہاں سرکاری بینکوں نے بہت سارے قرضے سیاسی سفارشوں پر دیے‘ جن میں بہت سارے ڈوب گئے۔ عوام کو مطالبہ کرنا چاہیے کہ ایسے قرضوں کے کوائف مشتہر کیے جائیں۔ پرائیویٹ بینک اس مرض سے خاصے محفوظ رہے کہ وہاں سیاسی سفارش کم چلتی ہے۔ اگر ملک کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانا ہے تو میرٹ کی پاسداری کریں ‘ Right man for the right job کی پالیسی اپنائیں۔ سیاسی جماعتیں جلد از جلد اپنے مفصل اقتصادی منشور اور روڈ میپ شائع کریں۔
اگلے مہینے میں ان شاء اللہ 77برس کا ہو جاؤں گا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ صحت اچھی ہے لیکن طبیعت اب خود نوشت ترتیب دینے پر مائل ہے اور اس کام میں کئی مہینے لگ سکتے ہیں لہٰذا قارئین سے رخصت چاہتا ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں