’’احساس آمدنی پروگرام‘‘ اور پاکستانی!

سردیوں میں ایک بچہ روزانہ رات 9بجے کے قریب ''گرم انڈے ‘ گرم انڈے‘ کی آواز لگاتا۔ اس کی آواز مجھے کچھ دیر مسلسل سنائی دیتی رہتی اور پھر غالباً وہ اپنے ''گرم انڈے‘‘ بیچنے کے لیے کسی اور گلی میں مُڑ جاتا تھا۔ میں سارا دن کام کی مصروفیت کی بعد جب کمبل اوڑھ کر آرام سے خبرنامہ دیکھ رہی ہوتی ‘تو اس کی آواز مجھے چونکا دیتی اور میں سوچنے لگتی کہ اتنی سخت سردی میں ایک بچہ اسلام آباد جیسے پوش شہر میں اس وقت انڈے بیچ رہا ہے‘ اگر وفاقی دارالحکومت میں یہ حالات ہیں تو باقی ملک میں غربت کا کیا عالم ہوگا ؟
جنوری کے مہینے میں ایک رات سخت بارش کے دوران جب اس کی آواز آئی تو مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے اس کو ٹیرس سے آواز دی: رکو بچے ! میں نے نیچے جا کرگیٹ کھولا تو عجیب منظر دیکھا ۔اس بچے نے کو شاپر پہن کر خود بارش سے بچانے کیلئے برساتی بنا رکھی تھی اور اس کو شدیدٹھنڈ لگ رہی تھی‘ لیکن وہ پیسے کمانا چاہتا تھا ۔شاید پیسے کمانے کی ضرورت‘ موسم کی شدت سے زیادہ شدید تھی۔ اس نے ہاتھ میں ایک کولر پکڑا ہوا تھا‘ جس میں ابلے ہوئے انڈے تھے۔وہ مجھے کہنا لگا: باجی! کتنے انڈے چاہیں ۔میں نے کہا: تھوڑا شیڈ میں آجاؤ ‘بہت ٹھنڈ ہے ‘تم اتنے چھوٹے ہو‘ اس وقت باہر کیا کررہے ہو‘ کیا تمہیں ڈر نہیں لگتا؟وہ کہنا لگا: میرانام اقبال ہے ‘میں کچی بستی میں رہتا ہو‘صبح بستی کے قریب ایک سرکاری سکول میں پڑھتا ہوں‘اس کے بعد مدرسے میں قرآن پاک پڑھتا ہوں اور رات کو گرم انڈے بیچ کر گزارہ کرتا ہوں۔میں نے اس کو کہا: پانچ انڈے دے دو۔میں نے اس کو پیسے دئیے‘ تو وہ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے کمال مہارت سے انڈے چھیلنے لگا ۔اسی دوران میں ایک پلیٹ لے آئی اوران انڈوں میں سے دو انڈے اس کو کھانے کیلئے دے دئیے اور باقی خود رکھ لیے۔ وہ منع کرتا رہا‘ لیکن میں نے اسے کہا: میں تم سے بڑی ہوں‘ لہٰذا میرا کہا مان لواور یہ انڈے کھا لو!
پھرمیں نے اس سے پوچھا: تمہارے گھر میں کون کون ہے؟ تو اس نے بتایا کہ میں ‘ میری امی اور ایک بہن اورہم جلد یہاں سے چلے جائیں گے‘ کیونکہ اسلام آباد کی انتظامیہ نے ہمیں جگہ خالی کرنے کیلئے کہہ دیا ہے ۔میں نے سوچا غریب کو بے دخل کرنا کتنا آسان ہے ۔اس نے مجھے بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے کچھ عرصہ پہلے اس کی امی کو ایک مرغا اور مرغیاں دی تھی‘ جو اب بڑھ کر پندرہ ہوگئی ہیں۔ میں سردیوں میں انڈے بیچتا ہوں اور گرمی میں ٹافیاں اورپین وغیرہ‘ جس سے میرا اور میری بہن کے سکول کا خرچہ نکل آتا ہے ۔میری امی گھروں میں صفائی کا کام کرتی ہیں‘ باقی گھر کا خرچہ ان کے ذمے ہے ۔میں نے کہا: جو پیسے میں نے دئیے ہیں‘ اس کا کیا کرو گے؟ تواس نے کہا کہ اس سے میں اپنے لئے اردو کا رجسٹر‘ بہن کیلئے انک ریمور لوں گا۔میں نے کہا: میں اور پیسے دے دیتی ہوں‘ تو اس نے کہا نہیں باجی! آپ کا بہت شکریہ‘ کیونکہ میں صدقہ خیرات نہیں لیتا‘اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھ سلامت بنائے ہیں اور میں محنت کرنے پر یقین رکھتا ہوں‘ بھیک مانگنا اور صدقہ خیرات لینا جائز نہیں سمجھتا ہوں۔ میں نے اس بچے( اقبال )کو بہت ساری دعائیں دیں اور مجھے امید ہے کہ وہ زندگی میں بہت آگے جائے گا ۔اس رات کے بعد وہ مجھے پھر نہیں ملا ‘شاید وہ پنڈی شفٹ ہوگیا ہو گا‘ تاہم حکومت کی طرف سے ایک چھوٹا سا قدم جس میں اس کی امی کو مرغا اور مرغیاں ملی تھیں‘ اس کے خاندان کو چھوٹے پیمانے پر خود کفیل کرچکا ہے ‘اسی طرح گزشتہ دنوں مستحقین کو وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے بھینسیں بھی دی گئی ہیں ‘جن کے دودھ سے دہی بن سکتا ہے‘ دیسی گھی بن سکتا ہے۔یوں غریب شخص دودھ خود بھی استعمال کرسکتا ہے اور بازار میں بیچ بھی سکتا ہے اور کچھ پیسے بھی کما سکتا ہے ۔الغرض حکومت کے ایسے چھوٹے چھوٹے اقدامات غریبوں کو بہت فائدہ پہنچا رہے ہیں ‘ لہٰذا یہ جاری رہنے چاہئیں‘ بلکہ اس طرح کے مزید سکیمیں اور منصوبے بھی شروع کیے جانے چاہئیں۔
کل تک بہت سے امیر لوگ حکومت کے ان اقدامات کا مذاق اڑا رہے تھے۔اپنے فرانس کے ٹی سیٹ میں ہالینڈ کا لو فیٹ پاؤڈر ملاتے ہوئے وہ عوام کو حکومت کی طرف سے بھینسیں ملنے کا مذاق اڑا رہے تھے ۔اپنے دو دو لاکھ کے فون سے ٹویٹ کرکے بھینس وصول کرنے والے غریب کا مذاق اڑارہے تھے ‘تو ان کو یہ عرض کرنا ہے کہ ہر کوئی آپ کی طرح امپورٹڈ لو فیٹ پاؤڈر ملک افورڈ نہیں کر سکتا ۔آپ چائے کا دودھ تک لو فیٹ پاؤڈر ملک کی شکل میں لیتے ہیں اور پینے کیلئے دودھ کا ڈبہ کسی مہنگے اور معروف برینڈ کاخریدتے ہیں تو اُن کو یہ احساس نہیں ہوسکتا کہ ایک بھینس غریب کیلئے کیا اہمیت رکھتی ہے یاایک مرغا اور مرغی کیسے کسی غریب کی زندگی میں آسانی لاسکتے ہیں ۔میرا ایسے امیر دانشوروں سے سوال ہے کہ مائیکرو اکنامکس کو زیربحث لانے والے ایسے دانشور مائیکرو اکانومی کو زیر بحث کیوں نہیں لاتے ہیں؟ غریب کا مسئلہ این آر او ‘نواز شریف کی واپسی یا سیاسی جوڑ توڑ نہیں‘ بلکہ اس کا مسئلہ روٹی دال ہے۔ ا س کا مسئلہ چھت ہے ۔ا س کا مسئلہ صحت اور علاج ہے ۔غریب کو تن چھپانے کیلئے کپڑا مل جائے۔ پیٹ بھرنے کیلئے روٹی دال مل جائے اور سر چھپانے کیلئے چھوٹی سی چھت دستیاب ہو‘ تو اس کی کل دنیا بس یہی ہوتی ہے ۔وزیر اعظم عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ مستحق خواتین کوایک بھینس ‘گائے اور تین بکریاں دیں گے ‘ تاکہ وہ اپنا گھر چلا سکیں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ہماری نصف سے زیادہ آبادی آج بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ زراعت سے منسلک ہے۔مویشی پالنا بھی دراصل زراعت ہی کے زمرے میں آتا ہے اور دیہات میں رہنے والوں کیلئے مویشی اہم اثاثہ ہوتے ہیں‘لہٰذا وزیر اعظم عمران خان سے گزارش ہے کہ کسی کی تنقید کی پروا نہ کریں‘ کیونکہ امیر دانشور‘ غریب عوام کا درد نہیں سمجھ سکتے ہیں ۔''احساس آمدنی پروگرام‘‘ غریبوں کی فلاح کے لئے بہترین منصوبہ ہے ۔اس سے غریب عوام کی مشکلات میں کمی ہوگی۔اس پروگرام کا60فیصد حصہ خواتین ہوگئیں۔ ''احساس آمدنی پروگرام ‘‘کیلئے 15 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں‘ لاکھ خاندان اس سے مستفید ہوں گے ‘ اس کو مزید وسعت دی جائے۔''احساس آمدنی پروگرام‘‘ سے غریبوں کی آمدن میں اضافہ ہوگا اور وہ خوشحال ہوں گے ‘ لہٰذاعوام خود کفالت سے اپنی آمدنی کو بڑھاسکیں گے‘ جوکہ ملکی معیشت پر بھی خوشگوار اثر ڈالے گا۔
پاکستان کی دیہی آمدنی کا انحصار زراعت اور لائیو سٹاک پر ہے ۔''احساس آمدنی پروگرام‘‘ عوام کیلئے خوشحالی کا باعث بنے گا۔لیہ سے اس پروگرام کا آغاز ہوچکا۔ اس کی افادیت کچھ عرصے میں نظر آنا شروع ہوجائے گی۔23 اضلاع میں اس پروگرام کو شروع کردیا گیا ہے‘ جس کے تحت مویشی‘ زرعی آلات‘ رکشہ اور چھوٹے کاروبار کیلئے مدد دی جائے گی‘اگر بغیر کرپشن اصل مستحقین تک ان کا حق پہنچ گیا ‘تو کم آمدنی والے افراد ‘غربت سے باہر آسکیں گے ۔یہ ریاست کی طرف سے اہم اقدام ہے اور قابل ِستائش ہے کہ غریب عوام کو خود کفیل کیا جائے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں