گیم آف تھرونز اِن افغانستان

جب افغانستان میں جنگ ہورہی تھی ‘تو بہت سے افغان مہاجرین پاکستان آگئے۔ کچھ کیمپوں میں رہے ‘کچھ نے پاکستان کے شہروں میں سکونت اختیار کرلی۔مجھے یاد ہے کہ نوے کی دہائی کے وسط میں اسلام آباد میں ہماری گلی میں بھی دو افغانی خاندان آئے تھے‘ان میں 35 سال کی نبیلہ خاتون ‘ ان کی 7 سال کی بیٹی مشگان اور 6 سال کا بیٹا عکرمہ‘ ایک گھر کی زیریں منزل میں رہائش پذیر ہوئے اور دوسرے گھر کے ایک چھوٹے پورشن میں 60 سالہ افسانہ بی بی ‘ 30 سالہ دیبا اور 35 سالہ فیونا‘ منتقل ہوئے تھے۔دونوں خاندانوں کے تمام مرد افغان جنگ میں جاں بحق ہو گئے تھے۔نبیلہ خاتون کا انحصار صرف اقوام متحدہ کی امداد پر تھا‘ جبکہ دیبا باجی پڑھی لکھی تھی‘ وہ ایک این جی او کے ساتھ منسلک ہو گئی تھیں۔مشگان بہت خوبصورت بچی تھی‘ جیسے کوئی گڑیا ہو‘ لیکن وہ بہت خوفزدہ رہتی تھی۔جب بھی ہم سب بچے کھیل رہے ہوتے وہ چھپ کر ہمیں دیکھتی رہتی‘ لیکن کھیل میں شامل نہیں ہوتی تھی۔دیبا باجی بہت خوش اخلاق تھیں‘ ان کے پاس افغانستان کی بہت سی یادیں تھیں اور وہ ہم سب بچوں کو وہاں کی کہانیاں سناتی تھیں۔ 
اقتدار ‘طاقت اور پیسے کی جنگوں میں نقصان ہمیشہ عورتوں اور بچوں کا ہوتا ہے۔یہ ہی افغان عورتوں اور بچوں کے ساتھ ہوا اور ہورہا ہے۔مجھے مشگان کی محرومی اور فیونا آپی کی تکلیف دیکھ کر جنگ سے ہمیشہ کیلئے نفرت ہوگئی۔مشگان کے پاس اچھے کپڑے کھلونے کچھ نہیں تھا اور فیونا باجی اپنے بچوں سے محروم ہوچکی تھیں۔ سرزمین ِافغان کو ہر دور میں بڑی طاقتوں نے اپنا میدانِ جنگ بنا کر رکھااور یہاں کے وسائل کو لوٹا گیا‘یہاں کے عوام کا قتل ِعام کیا گیا‘ لیکن کوئی بھی بیرونی طاقت اس سرزمین پر ٹک نہیں سکی‘ یہاں کے عوام نے ہر بیرونی حملہ آور کو شکست دی ‘لیکن جنگوں نے افغان عوام کو بدحال کردیا ہے۔ ''گیم آف تھرونز‘‘ کئی طاقتور خاندانوں کے درمیان جنگ کی کہانی پر مشتمل ایک مشہورڈراما سیریل ہے‘ جس کے کئی سیزن ریلیز ہو چکے ۔اس کی کہانی میں اقتدار کے حصول کیلئے بادشاہ‘ ملکہ ‘سردار‘ شہزادے خون کی ندیاں بہا دیتے ہیں۔ اس ساری کشمکش میں صرف اور صرف عوام کا استحصال ہوتا ہے۔ہر علاقے کے الگ وار لارڈز ہوتے ہیں اور ان کا اپنا قانون ہوتا ہے۔ایسا ہی حال افغانستان کا ہے۔ ہر علاقے میں الگ گروپ قابض ہے۔ اس کا اپنا قانون ہے۔تھوڑے سے خطے پر امریکا اور نام نہاد افغان حکومت بھی موجود ہے۔ باقی افغانستان میں طالبان اور دیگر گروہوں کا قبضہ ہے۔افغانیوں کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ بہادر قوم ہیں‘ غیور ہیں اورکسی سے بھی ڈرتے نہیں۔کوئی بھی بڑی سلطنت کوئی بھی سپر پاور ان کو تسخیر نہیں کرسکی۔مسلسل جنگوں نے اس خطے کو بڑی سلطنتوں کا قبرستان بنا دیاہے۔
کہا جاتا ہے کہ تاج ِبرطانیہ کا سورج غروب نہیں ہوتا تھا‘ لیکن وہ بھی افغانستان کو فتح نہیں کرسکے۔دنیا کی پہلی سپر پاور روس کو اس خطے میں شکست ِفاش ہوئی اور بعد ازاں اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔نائن الیون کے بعد یہاں اکتوبر 2001ء میں پھر جنگ کا آغاز ہوا‘ جس میں پاکستان بھی امریکا کا اتحادی بنا۔طالبان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا اورحامد کرزئی کو عبوری حکومت سونپ دی گئی‘ ان کی حکومت صرف ان کے صدارتی محل تک ہی تھی۔خیر بعد ازاں پاکستان نے ملک بھر میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بعد خود کو اس جنگ سے الگ کرلیا اور مختلف آپریشنز کے بعد وطن ِ عزیز سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کردیا‘ جبکہ امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان میں حالات کو سنبھالنے میں ناکام رہے۔ ایک لاکھ سے زائد فوج رکھنے کے باوجود وہ افغانیوں پر قابض نہیں ہوسکے۔دوسری طرف افغان جنگ میں پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک نے بھاری نقصان اٹھایا‘ جبکہ امریکا اور اتحادی افواج کے قریباً3500 فوجی ہلاک ہوچکے۔امریکا نے بتدریج اپنی افواج‘ افغانستان سے کم کرنا شروع کر دیں۔2015 ء میں پاکستان نے طالبان اور امریکا کے درمیان مری میں مذاکرات کروائے‘جولائی 2018ء سے طالبان اور امریکا کے درمیان پھرمذاکرات کا آغاز ہوا‘ان مذاکرات میں کئی اتار چڑھاؤ آئے ‘یہاں تک کے بات چیت رک گئی‘ یعنی ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا‘تاہم 2019ء میں صدر ٹرمپ نے دوبارہ مذاکرات کا عندیہ دیا۔دسمبر 2019ء سے فروری 2020ء کے درمیان پھر ملاقاتیں ہوئیں۔
29 فروری 2020ء وہ تاریخ ساز دن ہے‘ جس دن موجودہ سپر پاور امریکا کو بھی افغانستان سے باعزت واپسی کا راستہ اختیار کرتے ہوئے طالبان سے معاہدہ کرنا پڑا۔ امریکا اور طالبان کے درمیان اس معاہدے کے تحت امریکی فوج کا انخلا شروع ہوجائے گا‘5 فوجی اڈے خالی کردئیے جائیں گے اور فوجیوں کی تعداد کم کی جائے گی۔سرزمین ِافغان‘ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔کہا جا رہا ہے کہ معاہدے کے مطابق‘ طالبان کے 5 ہزار قیدی رہا کئے جائیں گے اور دوسری طرف طالبان ایک ہزار قیدی فوجیوں کو چھوڑیں گے اور پھر مذاکرات کا دور شروع ہوگا۔دوحہ میں امریکا کی طرف سے زلمے خلیل زاد اور طالبان کی طرف سے ملا عبد الغنی برادر نے معاہدے پر دستخط کئے۔امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو نے تقریب میں شرکت کی‘تاہم یہاں یہ سوال جنم لے رہا ہے کہ کیا طالبان جمہوری نظام کو قبول کریں گے؟طالبان خواتین کے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟یہ بھی امکان ہے کہ بھارت کی طرف سے معاہدے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے‘ کیونکہ راء اور این ڈی ایس اپنامنفی کردار ادا کرسکتی ہیں‘ کیونکہ بھارت کو یہ بات قبول نہیں کہ پاکستان کی مغربی سرحد کی طرف کے حالات پرسکون ہوجائیں۔اشرف غنی کی حکومت میں بھی کچھ لوگ ان مذاکرات سے خوش نہیں‘ نیزیہ بات بھی غور طلب ہے کہ دوحہ میں ہونے والی تقریب میں افغان صدر نے شرکت نہیں کی۔ 
پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذہبی‘ ثقافتی اور برادرانہ تعلقات ہیں۔ان کو ماضی میں بھارت نے خراب کرنے کی کوشش کی‘ نیز اس معاہدے سے دونوں ممالک ایک دوسرے کے مزید قریب آجائیں گے اور پاکستان کے بیانئے کی جیت ہوئی ہے۔
اگر افغانستان کے گیم آف تھرونز میں سردار‘ قبیلے‘ گروہ ماضی کے طرح لڑتے رہے تو ہار صرف عوام کی ہوگی۔قیام امن کیلئے تمام فریقین کو لچک دکھنا ہوگی۔پاک افغان بارڈر پر حالات معمول پر آنے سے دونوں ممالک کے تعلقات پر اچھا اثر پڑے گا اور تجارتی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوگا۔اس معاہدے میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا‘ جس سے پاک امریکا تعلقات میں گرمجوشی آئی ہے۔یہ معاہدہ ا مریکی صدر ٹرمپ کو ووٹرز کے سامنے فیس سیونگ میں مدد دے گا‘تاہم معاہدہ کی کامیابی فریقین کی اس معاہدے کی پاسداری پر منحصر ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق ‘گزشتہ دس برس میں ایک لاکھ افغان شہری جنگ میں لقمہ اجل بن چکے‘تاہم یہ تعداد اس سے زیادہ ہے۔افغانستان میں چار نسلیں جنگ کی نظرہو چکیں۔ ناگزیر ہے کہ یہاں کے عوام کی فلاح کا سوچا جائے‘ ان کو اچھی زندگی دینے کیلئے ہم سب کو مل کر کوشش کرنا ہوگی‘ تاکہ افغان بچے پڑھیں لکھیں اور بم دھماکے اور بارودی سرنگیں ان کی زندگیوں سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نکل جائیں۔
پاکستان اس وقت 30 لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کررہا ہے۔فیونا اور مشگان کو ماضی میں ملنے والے دکھوں اور تکلیفوں کا مداوا تو کوئی نہیں کیا جا سکتا‘ لیکن اگر ان کے وطن افغانستان کی خواتین‘ بچوں‘ اوربزرگوں کو اچھا مستقبل دے دیا جائے ‘تو شاید ان کے زخم مندمل ہوجائیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں