یومِ خواتین‘ مردوں سے نفرت کا دن نہیں!

خواتین کا عالمی دن ضرور منانا چاہیے اور ان کے حقوق کیلئے جدوجہد بھی کرنی چاہیے ‘تاہم اس دن کو مردوں کے ساتھ نفرت میں تبدیل نہیں کیا جانا چاہیے ۔یہ دن عورتوں کی کامیابیاں منانے کا دن ہے۔ اس دن ہمیں یہ عہد کرنا ہوتا ہے کہ ہم بھی معاشرے کی ترقی میں حصہ لیں گے‘ نیز ان خواتین کی مدد کریں گے‘ جو استحصال کا شکار ہیں‘ ان کیلئے آواز بلند کریں گے اور انہیں انصاف کی فراہمی تک جدوجہد کریں گے ۔
گزشتہ چند برسوں سے خواتین کے عالمی دن کو متنازع بنایا جارہا ہے ۔ذومعنی پلے کارڈز اور پوسٹرز کے ساتھ عورتوں کی آزادی کیلئے ایسے مطالبات کئے جارہے ہیں ‘جن کا خواتین کے اصل مسائل سے دور دور تک تعلق نہیں ۔میری بات سے بہت سی خواتین اختلاف کریں گی اور بہت سی خواتین اس سے اتفاق کریں گی۔ میں ذاتی طور پر مرد کی حاکمیت کی قائل ہوں‘ میرے نزدیک مرد کا درجہ‘ عورت سے بڑا ہے ۔مرد چاہیے باپ کے روپ میں ہو‘ بھائی ‘ شوہر یا بیٹے کے روپ میں ہو‘ اس کا خیال کرنا ہم خواتین پر فرض ہے ۔یہ فرض کیوں ہے؟ کیونکہ مرد بھی ہم خواتین کا خیال کرتے ہیں ؛ہمارے لیے کماتے ہیں ‘ہماری خواہشات پوری کرتی ہیں‘ ہمیں سرد گرم حالات سے بچاتے ہیں ۔مرد چاہے باپ ہو‘ سسر ‘بیٹا ‘بھائی‘ دیور‘ جیٹھ ‘استاد یا باس ہم سب کو ان کا احترام کرنا چاہے‘کیونکہ یہ شفیق رشتے زندگی میں آگے بڑھنے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔اپنا آرام اور خوشی ہماری خواہشات پر قربان کردیتے ہیں ۔
ہمارا معاشرہ خاندان کی صورت میں رہتا ہے‘ جس میں بہت سے رشتوں کی لڑی میں ہم سب پروئے ہوئے ہیں اور اگر اس لڑی میں سے کوئی ایک موتی نکل جائے تو پوری لڑی ٹوٹ جائے گی ۔اسی طرح اگرایک فرد بھی خاندان سے متنفر ہوجائے تو پورے خاندان کا شیرازہ بکھر جائے گا ۔خاندانی نظام کی بقاء کیلئے یہ ضروری ہے کہ ہم سب مل کر اوراتفاق سے رہیں اورمل جل کر ان مسائل کو حل کریں ‘جو ہم سب کو درپیش ہیں ‘ تاکہ معاشرہ امن کا گہوارہ بن سکے۔
گزشتہ برس جب عورت مارچ کا انعقاد ہوا‘ تو اس مارچ کا اصل منشور اتنا مقبول نہ ہوا‘ لیکن اس میں خواتین کی طرف سے متنازع پلے کارڈ اور بینرز زیادہ زیر بحث آئے ۔ان پلے کارڈز اور ذومعنی جملوں کی وجہ سے ملک میں نئی بحث نے جنم لیا ۔ان پلے کارڈز پر جو کچھ لکھا تھا ‘وہ ہمارے معاشرتی اقدار سے میل نہیں کھاتا اورنہ ہی ہماری زیادہ تر خواتین ایسی آزادی کی قائل ہیں‘ جو مذہبی معاشرتی اصولوں سے بڑھ کر ہو۔اس بار بھی یہ یہی ہورہا ہے۔ دونوں طرف کے فریق ایک دوسرے پر نجی نوعیت کے حملے کررہے ہیں اور انتہا پسندی کا شکار ہیں ۔میرے خیال میں یہ سب لوگ شاید متنازع ہوکر مشہور ہونا چاہتے ہیں اور کوئی بھی استحصال کی شکار خواتین کیلئے کام کرنے کو تیار نہیں ۔سوشل میڈیا پر اور میڈیا پر عورت مارچ کے حامیوں اور مخالفین کی لڑائی ہورہی ہے ۔یہ سب عروج پر ہے اور ایک دوسرے کے خلاف باتیں کی جارہی ہیں ۔بعض گروہوں کی طرف سے ان خواتین کی دھمکیاں بھی دی گئیں ۔یہ ہماری مائیں بہنیں ہیں‘ ان کی تکریم سب پر فرض ہے ۔دوسری طرف ان خواتین پر بھی فرض ہے کہ وہ اپنا پیغام معاشرتی اقدار کے مطابق دیں ۔ہمیں خواتین کے حقوق کیلئے معاشرے میں جدوجہد کرنی ہے اور ان شا اللہ ہم کریں گے!
جملہ '' میرا جسم‘ میری مرضی‘‘ ایک ذومعنی جملہ ہے‘ اس پر بحث لا حاصل ہے ۔اس طرح کی جملہ بازی سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ہمیں خواتین کے حقوق کیلئے جدوجہد کرنا ہوگی‘ لیکن اپنی مذہبی اور معاشرتی اقدار کے ساتھ! مضحکہ خیز باتیں مناشب نہیں۔پاکستانی معاشرے میں مرد گھر کا سربراہ ہے ‘وہ کماکر لاتا اس لیے اس کی بہن ‘بیوی ‘بیٹی اورماں کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس کا خیال کریں ۔کچھ گھروں میں یہ بھی ہورہا ہے کہ مرد اور عورت دونوں مل کر گھر چلا رہے ہیں ‘ایسی صورت میں دونوں کو مل کر گھر کی ذمہ داریاں تقسیم کرنی چاہیے ۔کسی بھی مارچ میں خاندانی نظام اور ان خواتین کا مذاق اڑانا‘ قطعی مناسب نہیں ۔
مرد اور عورت خاندانی نظام کے دو پہیے ہیں۔ یہ دونوں مل کر ہی معاشرے کی اصلاح کرسکتے ہیں ۔ایک دوسرے سے دشمنی کی بنیاد پر مطالبات کسی طور پر معاشرے کیلئے فائدہ مند نہیں ۔جہاں پاکستان میں خواتین کو بہت سی سہولیات حاصل ہیں ‘وہاں ان کو بہت سی جگہوں پر استحصال کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔خواتین‘ لڑکیوں اور ننھی بچیوں کو ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے‘ ان پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے‘ ان کو پسند کی شادی کا حق نہیں دیا جاتا‘غیرت کے نام پر ان کو قتل کردیا جاتا ہے ‘ بیٹی کی پیدائش کی پاداش میں خواتین کو قتل کردیا جاتا ہے ‘ بچپن میں ہی ان کی شادی کردی جاتی ہے ‘ جائیداد کے حصے سے ان کومحروم رکھا جاتا ہے ۔ونی ‘سوارا اور جہیز جیسی بہت سی رسومات ہیں‘ جن سے ان کے حقوق پر ڈاکہ مارا جاتا ہے ‘انہیں تعلیم کا حق نہیں ملتا ‘ان پر بہت سی بے جا پابندیاں لگائی جاتی ہیں ‘خواتین پر گھریلو تشدد ہوتا ہے‘ ان کو بلاوجہ طلاق ہوجاتی ہے‘ ان سے بچے چھین لیے جاتے ہیں‘انہیں ماں بننے پر نوکری سے نکال دیا جاتا ہے یاان کی پروموشن رک جاتی ہے ‘انہیں نوکری میں جلد ترقی اور زیادہ تنخواہ نہیں ملتی‘سوشل میڈیا پر ان کی تصاویر یا ویڈیوز کو منفی انداز سے وائرل کیا جاتا ہے‘ انہیں اچھی خوراک سے محروم رکھا جاتا ہے ‘ خواتین کے کردار کو متنازع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ‘ان کو سڑکوں پر چھیڑا جاتا ہے ‘ وغیرہ۔ اس کے تدارک کے حوالے سے ہمیں جدوجہد کرنا ہوگی ۔ہمیں عورتوں کو ان کے وہ حقوق دینا ہوگے‘ جن کا دین ِ اسلام میں حکم ہے ۔عورتوں کو پسند کی شادی کا حق ملنا چاہیے ۔عورتوں کو وراثت میں حصہ ملنا چاہیے ‘ تعلیم جاب اور کاروبار کرنے کا حق ہونا چاہیے‘ان کو نوکری کے ساتھ بچوں کی دیکھ بھال کا بھی حق ملنا چاہیے‘ ان کو فرسودہ رسومات کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیے ‘ نیزاچھی خوراک ‘صحت کی سہولیات‘معاشی آزادی‘ پسند کی شادی ان کا بنیادی حق ہے ۔
یہاں پر میں یہ بات کہتی چلوں کہ پاکستان میں بہت سے مسائل ہونے کے باوجود خواتین کو بہت سے حقوق حاصل ہیں ‘اگر راہ چلتی خاتون کو کوئی مردچھیڑتا ہے تو اس کو بچانے کیلئے بھی مردہی آتے ہیں ۔مرد ہی عورتوں کو استحصال سے بچاتے ہیں‘ ان کی ضروریات کا خیال کرتے ہیں ۔اس لئے دونوں طبقوں کی طرف سے انتہا پسندی کو ختم کرنا ہوگا ۔ہم سب کو مل کر اعتدال پسندی کے ساتھ ان خواتین کیلئے جدوجہد کرنا ہوگی ‘جو کئی طرح کے مظالم کا سامنا کررہی ہیں ۔گھر کے کام ہم سب مل کر بھی کرسکتے ہیں۔ شوہر کو کھانا دینے سے عورت چھوٹی نہیں ہوجاتی ۔ہم شوہر کو کھانا بھی دیں گے‘ ان کو موزے بھی ڈھونڈ کر دیں گی‘لیکن ہمیں آزادی ہونی چاہیے۔
آخر میں اسی بات کا اعادہ کہ ہمیں خواتین کایہ عالمی دن‘ مردوں کے ساتھ نفرت کی بنیاد پر نہیں منانا ‘ کیونکہ یومِ خواتین‘ مردوں سے نفرت کا دن نہیں!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں