دو ٹکے کی نہیں انمول عورت تھی وہ!

وہ بہت پیاری اور معصوم سی بچی تھی‘ اس کا نام نور تھا۔وہ نہ صرف پڑھائی میں اچھی تھی بلکہ گھرکے کاموں میں بھی ماہر تھی۔ اپنی امی کا ہر کام میں ہاتھ بٹاتی۔چھوٹے بہن بھائیوں کا خیال رکھتی۔سب اس کو بہت پیار کرتے تھے ۔اس کے چہرے پر بہت نور تھا‘ اس کے والدین کہتے تھے کہ جس گھر جائے گی اپنے طور طریقے اور سلیقے سے اس گھر کو چار چاند لگادے گی ۔
نورابھی انٹر میں ہی تھی کہ رشتے آنا شروع ہوگئے اور والدین نے دور کے رشتے داروں میں اس کی نسبت طے کردی ۔اس نے شادی والے دن آرسی مصحف کی رسم میں پہلی بار اپنے شوہر کو دیکھا۔وہ خوبرو نو جوان تھے‘ ولایت سے پڑھ کر آیا تھا ۔ نوروہ اپنی کہانی اس طرح سناتی ہے ''میں نے جب سسرال میں قدم رکھا تو میری ساس نے مجھے کہا :تم ہماری بیٹی ہو بس میری یہ نصیحت پلے سے باندھ کر رکھنا کہ سلیم کو غصہ بہت جلد آجاتا ہے ۔تم بس کبھی اس کو جواب مت دینا‘ اپنی زبان پر قابو رکھنا ۔مگر جب میری شادی ہوئی میں صرف انٹر میں تھی‘ دنیا کب دیکھی تھی‘ مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ زبان چلانا کس کو کہتے ہیں ۔
سلیم کے ساتھ شادی کے شروع کے چند دن اچھے گزرگئے۔ وہ مجھے شہزادی بناکر رکھتے تھے ‘ لیکن یہ اچھے دن گزرتے دیر نہ لگی۔ مجھے ان سے پہلا تھپڑ تب پڑا جب میں نے سفید شلوار قمیض کے بجائے کالا جوڑا استری کردیا تھا کیونکہ مجھے کالا رنگ ان پر بہت پسند تھا۔ انہوں نے مجھے زور کا تھپڑ مارا تو میں بستر پر گر گئی ۔انہوں نے بازو سے پکڑ کر مجھے اٹھایا اور کہا کہ پہلی بار ہی میری بات غور سے سن لیا کرو‘ دوسری بار کہنے کی عادت نہیں مجھے ۔میں حیران تھی کہ ان کو ہو کیا گیا ہے ۔میں نے آنسو صاف کئے اور جلدی سے سفید جوڑا استری کرکے لے آئی‘ لیکن وہ ساری رات میری آنسوؤں میں کٹی۔میری سسکیاں اونچی ہوئیں تو سلیم نے سوتے ہوئے کہا :اگر دوبارہ آواز آئی تو مار مار کر وہ حال کردوں گا کہ تم عمر بھر یاد رکھو گی۔اس ساری رات میں بغیر آواز کے روتی رہی‘ میرا تکیہ آنسوؤں سے گیلا ہوگیا تھا ۔
ان کو بلاوجہ غصہ آتا تھا وہ کسی بھی بات کو لے کر کر جھگڑا شروع کردیتے تھے۔اُن کا معمول بن گیا تھا کہ وہ ہر چھوٹی چھوٹی بات پر مجھے مارنے لگتے۔ پہلے بچے کی پیدائش قریب تھی تو انہوں نے مجھے مارا ‘میں زمین پر گر گئی اور ہم اس خوشی سے بھی محروم ہوگئے۔بس اس دن میرا دل اندر سے مر گیا ‘ میں اپنے خاوند کے گھر میں ایک زندہ لاش کی صورت رہنے لگی ۔
میں مشین کی طرح کام کرتی اور چپ چاپ مار کھاتی۔انہیں ہر چیز پر اعتراض ہوتا‘ کبھی کھانا اچھا نہیں بنا ‘کبھی چائے گرم نہیں
آئی ‘کبھی کپڑے‘ کبھی جوتی‘ کبھی میرے گھر والے قصور وار اور کبھی ان کے گھروں والوں کا غصہ مجھے پر نکلتا ۔میں پوری کوشش کرتی تھی کہ انہیں شکایت کا کوئی موقع نہ دوں‘ لیکن وہ غلطی نہ ہونے کے باوجود میری تذلیل کرتے تھے ۔ 
وقت گزرتا گیا‘ ہمارے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہوگئی ۔پیسے کی فراوانی تھی‘ لیکن وہ مجھے خرچہ بہت ذلیل کرنے کے بعد دیتے اور جتنا دیتے میں کفایت شعاری سے خرچ کرتی۔ مجھے بچوں کے سامنے مار پڑتی ‘وہ بھی سہم کر رہ جاتے ۔میں نماز کے بعد ناشتہ بناتی‘ بچوں کو سکول کے لیے تیار کرتی‘ سلیم کو آفس بھیجتی‘ پھر گھر کے کام اور ساس سسر کی خدمت اور رات کو شوہر کی مار۔جس دن گالیاں اور مار نہیں پڑتی تھی‘ مجھے حیرت ہوتی تھی کہ آج سورج کدھرسے نکلا ہے ۔
ان کا رویہ اتنا تلخ تھا کہ مجھے اپنے میکے والوں سے بھی ملنے کی اجازت نہ تھی جبکہ بہت سے رشتہ دار ہم سے ان کے رویے کی وجہ سے نہیں ملتے تھے ۔اپنے ماں باپ کے جنازے پر بھی مجھے صرف دو گھنٹے کے لیے میکے جانے کی اجازت دی گئی۔مجھے سمجھ نہیں آتا تھا کہ میرا قصور کیا ہے اور وہ مجھ سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں‘ اتنا غصہ اور غرور ان میں کیوں بھرا ہوا ہے؟وہ اپنے خاندان‘ بازار یا کسی کے سامنے بھی مجھے کچھ بھی کہہ دیتے تھے۔ اکثر یہ کہتے کہ یہ تو دو ٹکے کی عورت ہے ‘اس بے وقوف عورت کو یہ نہیں کہ پتہ گھر کیسے چلتا ہے‘ یہ پھوہڑ ہے ‘اس کی تو شکل دیکھ کر مجھے طیش آجاتا ہے ۔میں اپنا چہرہ جب آئینے میں دیکھتی تو امی ابو کی آوازیں کانوں میں گونجنے لگتی تھیں کہ ہماری نور کتنی پیاری ہے ‘کتنا پیارا چہرہ ہے اس کا۔ امی ابو کی ان باتوں کو یاد کر کے میں بنا آواز کے بہت دیر تک روتی رہتی۔
اس حال میں ہماری شادی کے 25سال گزر گئے تو ایک دن ڈرتے ڈرتے میں نے اتنی جرأت کرلی اور ان سے پوچھ ہی لیا کہ میں سب کام پورا دل لگا کر کرتی ہوں‘ آپ کے گھر والوں اوربچوں کے‘ سب کے کام کرتی ہوں‘آپ کے حکم کے مطابق چلتی ہوں‘ لیکن پھر بھی آپ مجھ سے خوش کیوں نہیں ۔سلیم نے میرے منہ پر بہت زور سے طمانچے مارے اور کہا: دو ٹکے کی عورت مجھ سے سوال کرنے کی جرأت کیسے کہ تم نے؟اس دن کے بعد سے میرے سر میں درد رہنے لگا‘ میں بس دوائیاں کھالیتی اور صبر کرتی کہ یہ ہی زندگی ہے ۔دونوں بیٹوں کی شادی ہوگئی‘ بہویں گھر میں آگئیں اور بیٹی شادی ہوکر باہر کے ملک چلی گئی۔ایک دن مجھے چکر آئے میں بے ہوش ہو کر گر پڑی۔بعد میں پتہ چلا کہ وہ سر درد برین ٹیومر کی وجہ سے تھا ‘ جان لیوا مرض جو دھیرے دھیر ے مجھے موت کے قریب لے جا رہا تھا۔ اور پھر ایک روز وہ دن بھی آ گیا جب اس دنیا کو چھوڑنا تھا
سلیم کو اس کے بعد اس ''دو ٹکے کی عورت‘‘ کی قدر ہوئی جب وہ اس دنیا میں نہیں رہی تھی۔ اکثر یہی ہوتا کہ کسی کے جانے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ اس نے زندگی کو کتنا سہارا دیا ہوا تھا اور اس کا وجود کتنا اہمیت کا حامل تھا۔ سو سلیم کو بھی اب احساس ہوا تھا کہ دراصل سے سے کیا چھن گیا ہے‘ اس نے کیا کھو دیا ہے۔ اسے احساس ہوا کہ جس کو وہ بے وقعت سمجھتا تھا‘ دراصل وہی اس کے لیے اس دنیا میں سب سے بڑا سہارا تھا۔ لیکن اب خاصی تاخیر ہو چکی تھی۔ اب پچھتاوا ہی پچھتاوا تھا۔
وہ اپنے کمرے سے آوازیں دیتے رہتے‘ چلاتے رہتے اور اسی طرح گالیاں دیتے بیمار پڑے رہے ‘بہو بیٹے اپنی زندگیوں میں مگن تھے ۔نور ہمیشہ سلیم کو گرم کھانا دیتی تھی‘ گرم چائے‘ صاف کپڑے‘ ہر طرح سے عزت احترام‘ ایک وفادار بیوی مگر خادمہ کی طرح ان کی خدمت کر تی رہی‘لیکن بہویں بیٹے تو ان کو فالتو سامان کی طرح بھول ہی گئے تھے۔ سلیم کا جب دم نکلا تو 48 گھنٹے سے انہوں نے پانی نہیں پیا تھا‘ کیونکہ کسی نے ان کمرے میں جھانکا تک نہیں تھا۔سلیم کو اُس وفا شعار بیوی نور کے ساتھ والی قبر میں دفنا دیا گیا ‘ جسے عمر بھر اُس نے ''دو ٹکے کی‘‘ بھی نہیں سمجھا تھا۔ مگر اپنے خاندان کے لیے عمر بھر قربانیاں دینے والی‘ دکھ سہنے والی اور صبر کرنے والی یہ خاتون دو ٹکے کی نہیں‘ لاکھوں میں ایک تھی۔سچ پوچھیں تو اس بے لوث زندگی‘ ایثار اور اپنے گھر کو بنائے رکھنے کی فکر میں اپنی ہستی کو بھلا دینے والی خاتون انمول تھی۔ نور اور اس جیسے پر خلوص کردارروپے پیسے ‘ مال و دولت کے ترازو میں تلنے کے لائق نہیں۔ ان کا خلوص‘ سچائی اورقربانی کا جذبہ انہیں اس قسم کی سطحی چیزوں سے بہت بلند کر دیتا ہے ۔ مگر ان کی قدر اُس وقت کی جاتی ہے جب وہ اس دنیامیں نہیں رہتے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں