پاکستان ایئر فورس کی تاریخ‘ جرأت اور شجاعت کی مثالوں سے بھری پڑی ہیں۔ قوم پر جب بھی مشکل وقت آیا‘ پاک فضائیہ کے شاہینوں نے دشمن کے دانت کھٹے کیے۔ میں نے ہمیشہ کتابوں میں پاک فضائیہ کی تاریخ بہت شوق سے پڑھی‘ اس کے ساتھ ٹی وی پر مختلف دستاویزی فلمیں بھی دیکھی ہیں ‘ جن میں پاک فضائیہ کے شاہینوں نے اپنی جان کی پروا کیے بغیر ہمیشہ وطن ِ عزیزکی حفاظت کی۔یہی وجہ ہے کہ بچپن سے ہی پاک فضائیہ کے یونیفارم کی گریس ‘پائلٹس کی بہادری اور طیاروں کی گھن گرج کی میں قدر دان ہو گئی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں چھوٹی تھی‘ تب اسلام آباد کے ایف نائن پارک میں ایئر شو ہواکرتا تھا ‘تو ہم سب بچے ضد کرتے تھے کہ ہمیں یہ شو ‘لازمی دیکھنا ہے ۔اس وقت کے ایئر چیف مصحف علی میر خوداس ایئر شو فلائی پاس کی قیادت کرتے تھے ۔ہم سب بچے‘ اس ایئر شو کے دوران خوب پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے تھے ۔خاص طور پرجب پائلٹس اپنے طیاروں کو عمودی گھما کر یکدم اوپر لے کر جاتے اور پھر اتنی ہی تیزی سے واپس نیچے لاتے‘ تو ایک دم سانس رکتی ہوئی محسوس ہوتی تھی‘ لیکن وہ کمال مہارت سے اپنے طیاروں کو فضا میںاڑاتے تھے ۔
2001 ء کی مسلح افواج کی پریڈ میں ایئر چیف مصحف علی میر نے ایف سولہ طیارہ اڑایا ۔مجھے یاد ہے کہ اس پریڈشو میں بچوں کو جانے کی اجازت نہیں تھی تو ہم سب بچے آپا کے ساتھ اس پریڈ کی ریہرسل یا تو ایف نائن پارک سے دیکھتے تھے یا پریڈ گراؤنڈ میں خصوصی اجازت کے بعد ریہرسل دیکھنے جاتے تھے ۔ہم سب بچے جہازوں کو دیکھنے کیلئے دیر تک انتظار کرتے تھے ‘اگر گھر سے باہر جانا ممکن نہیں ہوتا تو پھر ٹیرس پر جہازوں کا انتظار رہتا تھااور ہم بچے وہاں سے دیکھ کر انہیں ہاتھ ہلاتے اور نعرے لگاتے تھے ۔ جب جنگی جہاز آتے تھے‘ تو ان کی گھن گرج بہت زیادہ ہوتی تھی‘ لیکن اس سے ہمارا جذبہ حب الوطنی زیادہ ہوجاتااور ہم سب مل کر پاکستان زندہ باد اور ایئر فورس زندہ باد کے نعرے لگاتے ۔ایئر چیف مصحف علی میر شہید کی شخصیت بہت کرشماتی تھی ‘ان کی بدولت پاکستان جے ایف 17تھنڈر بنانے میں کامیاب ہوا۔جب ان کا طیارہ 2003 ء میں کریش ہوا تھا‘ تو میں کتنے ہی دن روتی رہی اور اپنی کلاس میں بھی میرے آنسو نہیں رک رہے تھے‘ تو میری ٹیچر نے مجھے چپ کراتے ہوئے نصیحت کی کہ ان کیلئے ہمیشہ دعا کرنا کہ وہ ہم سب کے پہلے ہیرو تھے اور ہیرو رہیں گے ۔میں کبھی ایئر چیف مصحف علی میر شہید سے نہیں ملی۔ صرف انہیں ایک مرتبہ ٹی وی پر دیکھا یا ان کا جہاز فضاء میں دیکھا ‘لیکن ان کی جرأت وبہادری کی وجہ سے ان کیلئے میرے دل میں عقیدت آج بھی ہے ۔جب بھی کوئی جہاز فضاء میں اڑتا ہوا نظر آتا ہے توپاک فضائیہ کے اس شاہین کے ساتھ میں مصحف علی میر شہید کیلئے بھی دعا کرتی ہوں۔
بعد ازاں پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ سے جب پریڈ پر پابندی لگ گئی‘ تو میں نے کئی برس پریڈ اور طیاروں کی گھن گرج کو مس کیا۔پریڈ کے ترانے‘ دستے اور فلوٹ اکثر یوٹیوب پر دیکھتی اور پرانی یادیں تازہ کرتی‘ پھر سانحہ اے پی ایس کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ دشمن کے دل پر دھاک بٹھانے کیلئے پریڈ کا انعقاد دوبارہ ہوگا۔پریڈ ہمارا مان ہے ۔آلات ِحرب کی نمائش دشمنوں پر لرزہ طاری کردیتی ہے۔اس لئے اس کا انعقاد نا گزیر ہے ۔میں تعلیم مکمل کر کے صحافت کے ساتھ منسلک ہوگئی‘ تو مجھے نہیں پتا چلا کہ طیارے کئی سال بعد ریہرسل کیلئے آئیں گے تو میرے بچپن کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ میں آفس کا کام کررہی تھی کہ اچانک ہیلی کاپٹرز کی آواز آئی۔ میں کیمرہ لے کر باہر نکلی تو زندگی میں پہلی بار پاکستان کی بری‘ بحری اور ہوائی فورسز کی ایوی ایشنز کو اتنا قریب سے دیکھا ۔میں نے چندتصاویر لیں اور جھٹ سے انہیں ٹویٹر اورفیس بک پر پوسٹ کردیا ۔ میں نے کوبرا ‘فینس ‘ پیوما ‘ بیل 412‘ایم آئی 17‘ زولو ٹین جیسے جہازوں کو پہلی بار اتنی قریب سے دیکھا ۔جب یہ شیر دل فارمیشن میرے قریب آئی تو میں نے بچوں کی طرح بے فکری اور خوشی کے ساتھ نعرے لگائے اور میری آنکھوں میں آنسو گئے ۔جب ایف سولہ اور جے ایف 17 تھنڈر آئے تو میری خوشی کی کیفیت دیدنی تھی ۔ اس دن مجھے اپنے ہیرو مصحف علی میر کی یاد پھر آگئی ۔2015 ء کے بعد میرا معمول بن چکاکہ جب بھی ایئر شو کیلئے جہاز آتے ہیں‘ میں ان طیاروں کی تصاویر ضرور بناتی ہوں۔اب ‘تو سوشل میڈیا صارفین اکثر مجھے پوچھتے ہیں کہ جے ایف 17 ٹھنڈر کی نئی تصاویر کب شیئر کررہی ہیں ؟2015 ء کے بعد سے اب تک میں نے تمام ایئر شوز کی فوٹو گرافی کی ہوئی ہے ۔جہاز دیکھ کر جذبہ حب الوطنی مزید بڑھ جاتا ہے ۔ان طیاروں کیلئے اب بھی مجھے گھنٹوں انتظار کرنا پڑے‘ تو میں کرتی ہوں‘ کیونکہ ان سے میرا ایک عقیدت کا رشتہ ہے‘ جو بچپن سے قائم ہے ۔
جب یہ پاک فضائیہ کے شاہین فضا میں ہوتے ہیں تو میں بے اختیار دعا کرتی ہوں یااللہ! قوم کے ان بیٹوں کی حفاظت فرمانا ۔یہ شاہین ہمارا غرور‘ فخراور مان ہیں۔ 27فروری2019 ء کو جس طرح ہماری پاک فضائیہ کے شاہینوں نے بھارت کا غرور خاک میں ملایا‘ وہ تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔گروپ کیپٹن فہیم خان نے معراج طیاروں کے ساتھ بھارت کی طرف سٹرائیک کی‘ جبکہ دو بھارتی طیارے سکواڈرن لیڈر حسن صدیقی اور ونگ کمانڈر نعمان علی خان نے گرائے ۔نعمان علی خان نے ابھی نندن کا مگ 21 مار گرایا اور حسن صدیقی نے ایس یو 30 گرایا۔اس دن فخر سے میراسر فخر سے مزید بلند ہوگیا ‘ کیونکہ پاکستان ایئر فورس ہمارا غرور ہے اوران کی موجودگی ہماری سلامتی کی ضامن ہے ۔کل پھر جب جہازوں کی آواز آئی تو چہرے پر خوشی چھا گئی کہ آگئے‘ ہمارے شاہین‘ 23 مارچ کے ایئر شو کی ریہرسل کرنے کیلئے! میں نے امی سے کہا: آئیں آپ بھی میرے ساتھ ان کو دیکھیں !جب ایف سولہ اور جے ایف 17 تھنڈر کے پائلٹس اپنے طیاروں کو فضا میں بلند کررہے تھے تو امی بسم اللہ‘ بسم اللہ کا ورد کر رہی تھیں ۔
کل بھی جب جہاز آئے‘ تو میں آرٹیکل لکھ کررہی تھی۔ ایک ایف سولہ طیارہ میری نظروں کے سامنے سے گزرا‘ لیکن میرے کیمرے کا لینز سیٹ نہیں تھا‘ اس لیے تصویر نہ لے سکی۔اتنے میں فون پر میسیج آیا کہ ایک ایف سولہ گر کر تباہ ہو گیا ہے ۔پہلے تو آنکھوں پر یقین نہیں آیا ۔دو منٹ پہلے طیارہ فضا میں تھا اور اب کریش ہوگیا؟شاید یہی زندگی ہے۔ ہم سب نے اپنے خالق حقیقی کے پاس جانا ہے ۔پائلٹ جس وقت طیارے کو اوپر سے نیچے لارہا تھا‘ جو فضائی مظاہرے کا حصہ ہوتا ہے‘ اس دوران طیارہ حادثے کا شکار ہوگیا ۔ویڈیو دیکھ کر آنکھوں سے آنسووں نکل آئے‘ اللہ سے دعا کی کہ یا اللہ پائلٹ محفوظ ہو! مگرشہادت پائلٹ کے نصیب میں لکھ دی گی تھی۔ ونگ کمانڈر نعمان اکرم شہید ہو چکے تھے۔اللہ تعالی‘ شہید کے خاندان کو صبر جمیل عطا فرمائے( آمین)۔
ستمبر2019ء میں ٹی وی انٹرویو میں نعمان اکرم نے کہا تھا کہ قوم بے فکر رہے‘ ان کی حفاظت کیلئے ہم موجود ہیں ۔انہوں نے اپنی زندگی کا نصب العین شہادت کو قرار دیا تھا۔ آج ان کوشہادت نصیب ہو چکی ۔ایئر چیف مجاہد انور خان نے شہید پائلٹ نعمان اکرم کو بیسٹ مارکس مین کی شیر افگن ٹرافی سے نوازا ۔یہ مقابلہ کراچی میں گزشتہ برس ہوا تھا ۔یہ پی اے ایف کا سکوارڈرن مقابلہ تھا اور نعمان اکرم کی کارگردگی بہترین رہی تھی۔پورا پاکستان آپ کے لئے درجات کیلئے دعاگو ہے۔ نعمان اکرم‘ آپ ہمارے ہیرو ہو !اللہ تعالی آپ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے !(آمین ثم آمین)