انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیااور شاید یہی وجہ ہے کہ تمام مخلوقات پر برتری نے اس کو تکبر اور غرور میں مبتلا کردیا ۔بعد ازاں اپنی معاشرتی‘ تجارتی ‘سیاسی ودفاعی سرگرمیوں اور طرزِ بودوباش سے انسان نے قدرت کو ہی نقصان پہنچانا شروع کردیا۔نئی نئی ایجادات کر کے انسان نے ترقی کے نام پر بڑی حد تک قدرتی نظام کو بگاڑنا شروع کر دیا۔جہاں جہاں فیکٹریاں لگائی گئیں‘ وہاں وہاں کے پانی اور فضا کوآلودہ کردیا ‘ نیززیادہ پیداوار کی خاطرفصلوں کو کیڑے مار سپرے سے آلودہ کرنا شروع کردیا ۔دوسری طرف انسان نے جنگلات کی کٹائی شروع کردی گئی ۔جدید طرزِ زندگی کے تقاضوں نے بہت کچھ بدل ڈالا۔جہاں پورا خاندان ایک گاڑی استعمال کرتا تھا‘ اب چار افراد پر مشتمل گھرانے کے پاس چار گاڑیاں ہوتی ہیں۔یوںگاڑیوں کی بہتات اور ان سے نکلنے والا دھواں‘ آلودگی‘ سموگ‘ کینسر اور دمہ کا باعث بن چکا اور انسانوں کو نگل رہا ہے ‘ لیکن انسانوں کو ابھی بھی احساس نہیں کہ ان کی وجہ سے زمین کے ماحول اور آئندہ آنے والی نسلوں کو کتنا نقصان پہنچ رہاہے ۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے زیر اثر انسان کبھی سیلاب ‘تو کبھی قحط‘ کبھی سونامی‘ تو کبھی ہیٹ ویو کا شکار ہورہا ہے ۔گلیشئرز پگھل رہے ہیں ‘زلزلے آرہے ہیں ‘ زمین کا کٹاؤ بڑھ رہا ہے ‘آئے روز آنے والے نت نئے طوفان تباہی مچا رہے ہیں اور اوزون کی تہہ کمزور ہورہی ہے ۔سمندر کو کچرا پھینک پھینک کر آلودہ کیا جارہا ہے۔ مچھلیوں اور دوسری آبی مخلوقات میں پلاسٹک کی آلودگی سے موت بانٹی جارہی ہے ۔فضا‘ زمین اورپانی کو آلودہ کرنے اور خوراک کو زہریلا کرنے تک بات نہیں رکی‘ بلکہ انسان جنگلی حیات اور پرندوں کو بھی نقصان پہنچا رہا ہے ۔میک اپ کے نام پر جانوروں پر درد ناک ٹیسٹ کئے جاتے ہیں ۔فیشن کے نام پر ان کی کھال اتار لی جاتی ہے اور دانت تک نکال لیے جاتے ہیں۔جانوروں کو جنگلوں سے لاکر پنجرے میں بند کرکے ٹکٹ لگا کر ان کا تماشالگایا جاتا ہے ۔اپنا بوجھ انسان ان پر لاد دیتے ہیں تو کبھی ان جانوروں کو نچا کر انسان پیسے کماتا ہے اورجس جانور کو قابو میں نہ کر سکے ‘ اس کو مار دیا جاتا ہے۔کتنے ہی جانور اور پرندے ہیں‘ جو انسان کی بربریت کا شکار ہو چکے ہیں اور آج ان کی نسلیں معدوم ہونے کو ہیں۔ ہمیںان جانوروں کے سر انسانوں کے محلات میں مل جاتے ہیں ۔
بات یہیں نہیں رکی‘ انسانوں نے باردو‘ گولی اور بم بنالیا اور ایک دوسرے کو بھی مارنا شروع کردیا۔یہاں تک کہ ہیروشیما اورناگاساکی میں ایٹم بم گرا دئیے اورکہا جاتا ہے کہ آج تک وہاں تابکاری موجود ہے اور کئی افراد معذور پیدا ہو رہے ہیں اور کئی قسم کی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں‘ جبکہ ذہن نشین رہے کہ امریکا نے افغانستان پر جب حملہ کیا تھا‘ تو کہا جاتا ہے کہ اس نے مدر آف آل بم استعمال کیا تھا ۔الغرض ایک دوسرے پر جنگیں مسلط کرکے لاکھوں انسانوں کا قتل عام کیا گیا‘ لاتعداد بچے یتیم ہوگئے اور عورتیں بیوہ ہوگئیں۔کئی جنگ زدہ علاقوں میں لوگ پتے اور کیڑے مکوڑے کھانے پر مجبور ہوئے ۔فلسطین‘ افغانستان‘ عراق‘ شام اور کشمیر کے عوام آج بھی انسان کے جنگی جنون کے باعث تڑپ اور سسک رہے ہیں‘ لیکن اقوام متحدہ اور تمام ممالک تماشادیکھ رہے ہیں ۔روہنگیا مسلمانوں کو سمندروں میں دھکیلاجا رہا ہے ۔ ان کے پاس سر چھپانے کیلئے زمین کا ٹکڑاتک نہیں‘ لیکن دنیا کا کوئی ملک ان بے سہارااور لاچار مسلمانوں کی مدد کرنے کو تیار نظر نہیں آتا۔آسام( بنگال) میں مسلمانوں سے ان کی شہریت چھینی جارہی ہے۔مقبوضہ کشمیر 5 اگست 2019ء سے لاک ڈاؤن کا شکار ہے ۔یوں تو مقبوضہ جموں و کشمیر میںظلم و جبر کا سلسلہ 1947 ء سے جاری ہے۔ بھارتی فوج کشمیری مردوں کو چن چن کر قتل کررہی ہے۔ عورتوں کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے۔ چھوٹے بچوں کو اغوا کیا جا رہا ہے ۔پیلٹ گنوں سے کشمیریوں کو نابینا کیا جارہا ہے۔ ان کے املاک پر بھارتی سرکار زبر دستی قبضہ کررہی ہے ۔انہیں تعلیم‘ صحت اور انٹرنیٹ جیسے بنیادی حقوق سے محروم کیا جارہا ہے اور دنیا چپ سادھ کر تماشا دیکھ رہی ہے۔
اب‘ قدرت نے پوری دنیا کو ہی لاک ڈاؤن کردیا ہے۔ شاید زمین بھی ان زیادتیوں و ظلم سے تنگ آگئی ہے اور چاہتی ہے کہ اشرف المخلوقات کہلانے والے انسان کواب کچھ عرصہ ایک دوسرے سے اور زمین سے دور کر دیا جائے ۔کورونا وائرس دنیا بھر کے ممالک میں اپنا قہر برسا رہا ہے ۔شہر کے شہر بند ہو رہے ہیں۔دنیا کے کئی ممالک میں اس وقت لاک ڈاؤن ہے اورہر طرف خوف کا راج ہے ۔لاشیں سڑکوں پر پڑی ہیں اور کوئی اٹھانے والا نہیں۔دنیا کے پاس کورونا وائرس سے پھیلنے والی بیماری کا کوئی علاج نہیں اور نہ ہی کوئی دوا ہے ۔ہر ملک دوسرے ملک سے کترا رہا ہے۔ پروازیں بند ہو چکی ہیں۔کورونا وائرس کے خوف نے امیر اور غریب کا فرق مٹا دیا ہے ۔لوگ سپر مارکیٹوں میں اشیائے خورونوش کیلئے لڑ رہے ہیں ۔امیروں کو یوں لڑتا دیکھ کرغریب حیران ہیں کہ ان کو کیا ہو گیا ہے۔سب ہی ایک دوسرے سے ڈر رہے ہیں۔امیر سیاسی لیڈران جو بھاگ بھاگ کر یورپ و امریکا علاج کیلئے جاتے تھے‘ آج وہ بھی ملک سے باہر جانے سے کترا رہے ہیں‘ کیونکہ اس بیماری کا علاج کہیں موجود نہیں ۔آج غیر ملکی اثاثے‘ دولت اور دُہری شہریت سب کسی کے کام نہیں آرہے ہیں ۔ آخری حل صرف اور صرف دعا ہے ۔ہمیں اللہ کے حضور اپنے گناہوں کی معافی مانگنا ہوگی‘ان حکمرانوں کو اللہ کے حضور معافی مانگی ہوگی ‘جنہوں نے ناحق لوگوں کا قتل ِعام کیا‘اپنی زمین سے پیار کرنا ہوگا۔ اس دنیا کی دیگر مخلوقات پر رحم کرنا ہوگا۔ شاید کہ یہ عذاب ہمارے سر سے ٹل جائے۔زمین ہمارا بوجھ اٹھا اٹھا کر تھک گئی ہے۔ اس لئے شاید قدرت نے ہمیں گھروں تک محدود کردیا ہے ۔کل صرف کشمیر میں لاک ڈاؤن تھا‘ آج پوری دنیالاک ڈاؤن ہے ۔کاش ! دنیا میں ناانصافی ختم ہوجائے اور سب پیار و محبت سے رہیں‘ کیونکہ اسلام نے ہمیں چودہ سو سال قبل‘ جو آداب ِزندگی بتائے ‘حلال اور حرام کی تمیز کرائی‘ کاش کہ ان تعلیمات پر سب عمل کریں اور حرام اشیائے خور ونوش سے دور رہیں ۔سؤر‘ چمگادڑ‘ سانپ اور جنگلی جانوروں کے گوشت کھانے کی وجہ سے یہ وائرس انسانوں میں منتقل ہوئے اور تباہی مچا رہے ہیں ‘اگر سب رزق ِحلال کھاتے ہوتے تو آج انسان شاید اس کورونا وائرس کا شکار نہ ہوتے۔نماز اوروضو ‘جس کا ہمیں پانچ بار حکم ہے‘ آج عالمی ادارۂ صحت ہمیں دن میں کم از کم پانچ بارہاتھ منہ دھونے کا کہہ رہا ہے اوربار بار کہہ رہا ہے کہ اگر کوروناوائرس سے بچنا ہے تو خود کو صاف و پاک رکھیں ۔
کورونا وائرس کے خلاف ویکسی نیشن اور علاج جانے کب دریافت ہوگا ؟اس کا تاحال کچھ پتا نہیں ۔دنیا بھر میں عبادت گاہیں بند ہورہی ہیں۔ سکولز‘ کالجز اور دفاتر بند ہورہے ہیں۔ایئر پورٹس بند ہو رہے ہیں۔تجارتی سرگرمیاں ماند پڑ رہی ہیں۔سیاحتی مقامات بند ہو رہے ہیں۔ یہاں تک کہ انسانوں کا آپس کا ملنا ملانا بند ہو رہاہے۔ایسے میں صرف اور صرف اللہ کا در ہے‘ جو توبہ اور دعا کیلئے ہمیشہ کھلا رہتا ہے اور کبھی بند نہیں ہوتا ہے۔ اللہ کا کہنا ہے کہ میں تمہاری شہ رگ سے زیادہ قریب ہوں‘ لہٰذا اس سے معافی مانگی جائے اور انسانیت کی بقا کیلئے دعا کی جائے کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا سے اس وبا کا خاتمہ کردے ۔(آمین)
آخر میں بار دیگر اس بات کا اعادہ کہ انسانوں کو چاہیے کہ وہ زمین سے پیار کریں‘ زمین دوست سرگرمیاں شروع کریں‘ درخت لگائیں‘حلال کھائیں اور ایک دوسرے پر رحم کریں‘ شاید کہ قدرت انسانوں کو معاف کردے !