شجرکاری اور پھل دار درخت

پاکستان کے صرف چار فیصد رقبے پر جنگلات ہیں ‘جوکہ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے انتہائی کم ہیں۔درختوں کی افادیت سے کسی کو انکار نہیں۔درخت زمین کا زیور ہیں ۔ان کا تنا‘چھال‘ شاخیں پتے‘پھل ہر چیز انسان کے کام آتی ہے۔ سب سے اہم چیز جو درخت ہم انسانوں کو دیتے ہیں‘ وہ آکسیجن ہے‘ جس سے ہم زندہ رہتے ہیں۔ درخت ‘انسان کے سب سے اچھے دوست ہیں‘اس لئے ان کو لگانا اور ان کی حفاظت کرنا ہم سب پر فرض ہے۔
کسی بھی خطے میں متوازن آب و ہوا کیلئے 25 فیصد رقبے پر جنگلات ہونا ضروری ہے۔جنوبی پنجاب میں بیری‘شریں‘سوہانجنا‘کیکر‘ کچنار ‘ پیلو‘املتاس‘پھلائی‘کھجور ‘ ون‘جنڈ‘فراش اورآم لگایا جائے۔وسطی پنجاب میں نہری علاقے ہیں ‘اس میں املتاس‘ شیشم‘ جامن‘ توت‘ سمبل‘ پیپل‘ بکاین‘ارجن‘لسوڑا اور مورنگا لگایاجائے۔شمالی پنجاب میں کچنار‘ پھلائی‘کیل‘ مورنگا‘پاپلر‘انجیر‘اخروٹ‘بادام‘دیودار‘اوک کے درخت لگائے جائیں۔ سطح مرتفع پوٹھوہار اور اسلام آباد کیلئے موزوں درخت‘ دلو‘ پاپولر‘ کچنار‘ بیری‘ چنار‘ مورنگا اور زیتون ہیں۔ساحلی علاقوں میں پام ٹری اور کھجور لگانا چاہیے۔کراچی میں املتاس‘ برنا‘ نیم‘جامن‘پیپل‘ناریل اور اشوکا لگایا جائے۔اندرون سندھ میں کیکر‘بیری پھلائی‘ون‘فراش‘ آسٹریلین کیکرلگائے جائیں۔ بلوچستان میں ون کرک ‘ پھلائی‘ کیر‘ بڑ‘چلغوزہ اورپائن کے درخت لگائے جائیں۔ کے پی کے میں شیشم‘دیودار پاپولر‘ کیکر‘ ملبری‘ چنار‘ پائن ٹری‘ پڑتل‘ناشپاتی‘سپروس‘صنوبر‘چلغوزہ‘ اخروٹ‘ سیب‘ ناشپاتی‘ آڑو‘ آلو بخارہ لگایا جائے۔اس حوالے سے پھلوں کے درختوں کے حوالے سے پروفیسر طاہر صدیقی سے خصوصی گفتگو کی گئی‘ وہ1988ء سے ایگریکلچر یونیورسٹی فیصل آباد سے منسلک ہیں اوراس وقت چیئرمین شعبہ فارسٹری ہیں۔ان کی 45 مطبوعات شائع ہوچکی ہیں۔
پروفیسر طاہر صدیقی نے بتایا کہ پھل دار درخت اللہ کی نعمت ہیں‘جس طرح پاکستان میں مختلف موسم پائے جاتے ہیں ‘اس ہی طرح یہاں پر پھل بھی مختلف انواع کے پائے جاتے ہیں اورموسم کے حساب سے میسر آتے ہیں۔آم ‘پھولوں کا بادشاہ ہیں۔دنیا بھر میں پاکستانی آم بہت مشہور ہے اور اس کی بہت ڈیمانڈ ہے۔اس کا ذائقہ اور مٹھاس منفرد ہے۔آم‘ سندھ اورپنجاب دونوں صوبوں میں ہی کاشت ہوتا ہے۔پنجاب میں یہ ملتان‘ بہاولپور مظفر گڑھ رحیم یار خان میں پیدا ہوتا ہے‘تاہم پنجاب کے گھروں میں بھی اکثر ایک یا دو آم کے درخت نظر آجاتے ہیں۔سندھ میں آم کا اصل علاقہ میرپور خاص ‘ ٹھٹھہ‘ سانگھڑ اورحیدر آباد ہے۔خیبر پختونخوا میں یہ ڈیرہ اسماعیل خان‘ پشاور اور مردان میں پایا جاتا ہے۔آم‘ خشک موسم اور گرمی کو پسند کرتا ہے۔آم کی بہت سی اقسام ہیں‘ جن میں چونسہ‘انور رٹول‘لنگڑا‘سندھڑی اوردوسہری وغیرہ شامل ہیں۔آم ‘باغات کی صورت میں لگایا جاسکتا ہے اور کچھ لوگ شوقیہ بھی اس کواپنے گھروں میں لگاسکتے ہیں۔
پروفیسر طاہر صدیقی نے بتایا کہ میرے گھر میں آم کے تین درخت ہیں اور ان کا پھل اتنا ہوجاتا ہے کہ بازار سے خریدنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔اس کا درخت بڑا ہوتا ہے‘ اس لئے گھر کی دیوار سے دور رکھا جائے اور ایک دوسرے سے فاصلے پر لگایا جائے۔ جامن طبی لحاظ سے بہت مفید ہے۔پنجاب میں بکثرت پایا جاتا ہے۔یہ 1228 ہیکٹر رقبے پر موجود ہے۔ایک تحقیق کے مطابق‘ جامن کی پیداوار 7691 ٹن کے قریب ہوتی ہے۔زرعی یونیورسٹی میں جامنوں کی بہار آتی ہے۔ یہاں پر بہت درخت لگے ہیں اور بہت پھل دیتے ہیں۔شوگر کے مریضوں کیلئے اس کا پھل بہت مفید ہے اور یرقان میں بھی مفید ہے۔یہ پاکستان کے سب علاقوں میں لگایا جاسکتا ہے۔اس کو شروع میں احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے‘ لیکن جیسے جیسے یہ بڑا ہوتا جاتا ہے ‘ تومضبوط ہوجاتا ہے اور اپنی ضروریات زمین سے پوری کرلیتا ہے۔بیری کا درخت بھی ہمارا ایک ایسا دیسی درخت ہے‘ جس سے کھیلوں کا سامان تیار کیا جاتا ہے۔بیر ی کے درخت دو طرح کے ہوتے ہیں۔حیدر آباد‘ خیرپور ‘ملتان ‘بہاولپور‘ سرگودھا‘ لاہور‘ سانگھڑ اورجہلم میں بیری کا درخت عام پایا جاتا ہے۔اس کی لکڑی بھی بہت کار آمد ہے۔چائنہ میں بیری کا اچار بہت شوق سے کھایا جاتا ہے۔زرعی یونیورسٹی فیصل آباد نے بھی بیری کا اچار تیار کیا ہے۔
علاوہ ازیں کھجور بہت لذیذ پھل ہے۔ اس کے درخت کو لگانے کی بہت افادیت ہے۔یہ پھل طاقت کا خزانہ ہے۔یہ عرب ممالک کا پھل ہے۔کھجور حضرت محمدﷺ کی مرغوب غذا تھی۔جھنگ (پنجاب) میں ڈیٹ پام ریسرچ انسٹیٹیوٹ بھی بنا ہوا ہے۔ مظفر گڑھ میں اس کے باغات پائے جاتے ہیں۔سندھ میں خیر پور اور سکھر‘ بلوچستان میں تربت پنجگور‘ کے پی کے میں ڈیرہ اسماعیل خان میں کھجور کے درخت پائے جاتے ہیں۔کھجور کے اوپر والے حصے پر دھوپ ہونی چاہیے اور نچلا حصہ تر رہنا چاہیے۔کھجور کا درخت گھر میں بھی لگایا جاسکتا ہے۔یہ سخت جان درخت ہے اورہر جگہ آسانی سے لگ جاتا ہے۔فالسہ بھی بہت منفرد اور لذیذ پھل ہے۔پاکستان میں اس کو بڑے پیمانے پر لگایا جاسکتا ہے۔ اس کا پھل صرف گرمیوں میں ملتا ہے۔پپیتا بھی باآسانی سندھ پنجاب میں لگایا جاسکتا ہے۔کراچی اور ٹھٹھہ میں یہ خوب اچھی طرح پھلتا پھولتا ہے۔اس کو گرم مرطوب ہوا کی ضرورت ہوتی ہے۔اس لحاظ سے کراچی میں اس کو ضرور لگانا چاہیے۔یہ بلڈ پریشر اور ہارٹ کے مریضوں کیلئے بہت اہم ہے۔
بادام یہ خاص طور پر بلوچستان میں ہوتا ہے۔یہ خشک علاقوں کا پھل ہے۔ یہ اگنے میں بہت دیر لیتا ہے اور بہت عرصے بعد پھل دیتا ہے۔پوٹھوہار میں جہاں پانی دستیاب ہو وہاں بادام لگایا جاتا ہے۔اخروٹ بھی پاکستان میں بکثرت پایا جاتا ہے۔اخروٹ کی پاکستان میں 226 اقسام پائی جاتی ہیں۔خیبر پختونخوا‘ مالاکنڈ ڈویژن‘ سوات‘دیر‘بنیر‘ شانگلہ‘ کاغان‘ بلتستان اورنیلم ویلی اس کے خاص علاقے ہیں۔
اگر ہم پھل دار بیلوں کی بات کریں تو انگور کو گھر میں لگایا جاسکتا ہے۔ انگور بہت پھل دیتا ہے۔پنجاب میں یہ گھروں میں بہت لگایا جاتا ہے۔اسلام آباد میں بھی اس کی بیلیں آسانی سے اگ جاتی ہیں۔ان کے علاوہ آڑو‘امرود اور لیموں کے پودے بھی گھر وںمیں لگائے جا سکتے ہیں۔آڑو کا پودا پنڈی ‘جہلم چکوال اور اٹک میں یہ باآسانی لگ جاتا ہے۔ناران کاغان شمالی علاقے میں یہ بکثرت پایا جاتا ہے۔امرود بھی گھر میں لگایا جاسکتا ہے۔ وسطی جنوبی پنجاب میں یہ بکثرت موجود ہے۔لیموں کو بھی باآسانی گھر میں لگایا جاسکتا ہے اور یہ بہت پھل دیتا ہے۔سردیوں میں اس کا پھل زیادہ ہوتا ہے اور گرمیوں میں یہ کم پھل دیتا ہے۔جگراو رمعدے کیلئے یہ لاجواب ہے ۔لیموں اور اسپغول کو ساتھ کھایا جائے تو پیٹ کی بیماریوں سے بچ سکتے ہیں۔گھر پر گنجائش کی حساب سے درخت ضرور لگائیں۔کیلا باغات میں ہونا چاہیے‘ اس کو گھر میں نہیں لگانا چاہیے‘ کیونکہ یہ بہت پانی استعمال کرتا ہے اور اس پر سانپ بھی آجاتے ہیں۔ 
پروفیسر طاہر صدیقی کا کہنا ہے کہ گھروں میں چھوٹے درخت اور پودے لگائے جائیں۔کچھ پودے‘ درخت اور بیل بوٹے پورے پاکستان میں لگائے جاسکتے ہیں۔ امرود‘ لیموں اور انگور پورے پاکستان میں لگا سکتے ہیں۔پودے کی دیکھ بھال بہت ضروری ہے۔ اس کو موسم کی شدت ‘کیڑوں سے بچانا ضروری ہے۔اس کو پانی کھاد دینا بھی ضروری ہے۔گھر میں درخت لگاتے وقت پودے کی جڑ جتنا گڑھا کھودیں اورپودے کو درمیان میں لگا کر چاروں طرف مٹی بھردیں۔اس پر پانی ڈالیں ‘اس کی حفاظت کریں۔اگر پودا کمزور ہو تو اس کے ساتھ چھڑی یا ڈنڈی باندھ دیں‘ اس کی گوڈی کریں ‘اس کو کھاد دیں ‘نیزاسے دیوار یا گیٹ سے دور لگانا چاہیے۔
پروفیسر طاہر صدیقی نے آخر میں اپنا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ہر شہری کو چاہیے کہ شجر کاری مہم میں حصہ لے اور اپنے مرحومین کے نام پر ایک ایک درخت ضرور لگائے‘ کیونکہ درخت قیمتی سرمایہ ہیں‘ ہمیں جس قدر ہو سکے ان کی قدر کرنی چاہیے!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں