لالچ بری بلا ہے

وہ بہت کامیاب تاجر تھا ۔اس کے پاس اللہ کا دیا ہوا سب کچھ تھا۔ بڑا گھر‘ اچھی بیوی‘ نیک اولاد اور وہ جس کام میں ہاتھ ڈالتا تھا‘ وہ اس کو اتنا منافع دیتا کہ دنیا اس کی ترقی پر حیران رہ جاتی تھی۔ملک بھر میں اس کے کیش اینڈ کیری اور میڈیکل سٹورز تھے ۔اس کے برینڈ کا نام بہت بڑا تھا اور لوگ اس کے برینڈ پر بھروسہ کرتے تھے ۔اس کے سٹورز کی چین روز بروز پھیلتی ہی جا رہی تھیں اور وہ دونوں ہاتھوں سے منافع سمیٹ رہا تھا۔ایک دن اس کو خیال آیا کہ کیوں نہ اس منافع میں مزید اضافہ کیا جائے۔ اس نے اپنے با عتماد سٹاف کو ساتھ ملایا اور منافع کے لیے ذخیرہ اندوزی‘ ملاوٹ اور جعلی اشیا بھی اپنے سٹورز کا حصہ بنا دیں۔اس کے با اعتماد ملازمین ‘اندرون شہر سے جعلی بوتلیں اور پیکنگ والے ڈبے بنواتے اوران پر امپورٹیڈادویات کے سٹیکرز چسپاں کرتے اور لوکل لیباٹریز سے ادویات بنواکر اس میں بھر دیتے تھے ۔یوں صرف پانچ روپے میں تیار ہونے والے جعلی وٹامنز اور دیگر ادویات تیار کرکے سٹورز پر پانچ سو روپے میں بیچی جانے لگیں۔ لوگ یہ سمجھتے یہ تو ملک کے بہت بڑے سٹورز ہیں اور یہاں ہمیں جعلی ادویات نہیں دی جا سکتیں۔لوگ اپنے خون پسینے کی کمائی سے یہ ادویات خریدتے‘ لیکن انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ جو ادویات وہ کھا رہے ہیں‘ وہ جعلی ہیں۔
وہ تاجر بہت خوش تھا کہ اتنا پیسہ صرف ان جعلی ادویات کی وجہ سے آرہا ہے تو اس نے سوچا کہ مزید ادویات کو بھی جعلی بنا کربیچا جائے ۔اس نے باڈی بلڈنگ کرنے والے نوجوانوں کے لیے جعلی سپلیمنٹ بنوائے اوروہ بھی اپنے سٹورز پر رکھ دئیے۔باڈی بلڈنگ کرنے والے نوجوان وہ سپلیمنٹ خرید کر استعمال کرنے لگے‘ تو نوجوانوں کو لگا کہ ان کا جسم تندرست و توانا ہورہا ہے‘ لیکن اصل میں یہ سپلیمنٹ ایک قسم کا زہر تھا اوراسے استعمال کرنے والے بہت سے نوجوان دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہوگئے ۔تھوڑا بہت اس سپلیمنٹ کا نام سامنے آیا‘ لیکن اس تاجر نے ان سب لوگوں کو خرید لیا‘ جو ایکشن لینے والے تھے ۔بعد ازاں اس نے اپنے سٹورز پر دالوں‘ مرچ مصالحوں میں مختلف اشیاء کے برادے کی ملاوٹ شروع کر دی‘دودھ میں پانی اور چاولوں میں کنکر ہوتے ‘ لیکن لوگ خوشی خوشی سب کچھ خرید لیتے‘ کیونکہ اس تاجر کے کیش اینڈ کیری سٹورز میں اے سی لگے ہوئے تھے‘ ہر ہفتے لکی ڈرا ہوتے تھے۔میوزک‘ فوارے اور اسی طرح کے کئی لوازمات نے سٹورز کو فائیو سٹار ہوٹلز جیسا بنایا ہوا تھا۔ اس تاجر کے سٹورز ملک کے کونے کونے میں پھیل رہے تھے ۔
اب‘ اس تاجر کا لالچ اتنا بڑھ گیا کہ اس نے دالوں‘ مرچ مصالحوں اور فوڈ سپلیمنٹ کے ساتھ ساتھ جان بچانے والی ادویات میں بھی ملاوٹ شروع کردی ۔کیا یہ جاتا کہ آدھی دوائی اصلی ہوتی اور آدھی نقلی۔ لوگ ایمرجنسی میں وہ ادویات خرید کرلے جاتے اور ان ادویات کو استعمال کرنے والے اکثر مریض تڑپ تڑپ کر مرجاتے ۔دوسری طرف وہ تاجر دنیا کو دکھلاوئے کے لیے رفاعی اورفلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا۔ کبھی دسترخوان لگا کر غریبوں کو کھانے کھلاتا ‘تو کبھی بیوا عورتوں میں سلائی مشینیں تقسیم کرتا۔ یہ سب کچھ اس کی رعیاکاری تھی اور وہ دنیا کو دکھلاوئے کے لیے یہ سب کچھ کرتا تھا۔
بات یہیں نہیں رکی‘ بلکہ اس تاجر نے اپنے سٹورز پر جعلی میک اپ کا سامان اور پرفیومز بھی بیچنا شروع کردیئے۔ وہ باہر کے ممالک کے برینڈز کی کاپی اشیاء خریدتا اور اپنے سٹورز پر ان کو اصل کہہ کر ہزاروں روپے میں بیچتا اور خواتین کی بڑی تعداد ان کوخرید کر استعمال کرتی ۔دریں اثناء کئی خواتین ان جعلی میک اپ کی پراڈکٹس کی وجہ سے جلدی امراض کا شکار ہوگئیں ‘ لیکن کوئی اس کیش اینڈ کیری سٹورز پر شک بھی نہیں کرسکتا تھا‘ کیونکہ ان سٹورزکا تو نام ہی بہت بڑا تھا‘ نیز وہ تاجر اتنے فلاحی کاموں میں حصہ لیتا تھا کہ لوگ اسے نہایت نیک اور پارسا شخص سمجھتے تھے۔
اللہ نے بھی اس تاجر کی رسی دراز کر رکھی تھی اور وہ تاجر صرف اورصرف دولت سمیٹنے میں مصروف تھااور خوب مزے کر رہا تھا۔ اس کا گھر کیا تھا‘ بلکہ ایک محل تھا۔ دس پندرہ جدید گاڑیاں‘ اس کے محل نما گھر میں کھڑی رہتی تھیں۔ اس کے پاس ذاتی جہاز تھا۔ دنیا بھر میں اس کی پراپرٹی تھی۔جب ملک میں آٹے‘ چینی وغیرہ کا بحران آتا‘ تووہ کچھ دن ذخیرہ اندوزی کرکے مگرمچھ کے آنسو بہاتا کہ حکومت کتنی بری ہے‘ عوام کا خیال ہی نہیں کرتی اورپھر کچھ روز بعد اپناذخیرہ کیا ہوا مال بیچتا اور خوب منافع کماتا۔ لوگ مہنگے داموں اشیا خرید کر بھی شکر ادا کرتے کہ اس تاجر کے سٹورز پر اشیائے ضروریہ دستیاب تو ہیں۔ذخیرہ اندوزی ‘رعیا کاری‘ منافقت اور لالچ نے اس تاجر کے دل پر مہر لگا دی تھی‘پھر مکافات ِعمل ایسا ہوا کہ اس کی بیٹی کا بیٹا اس لئے مرگیا ‘کیونکہ جو بچوں کا دودھ وہ بیچ رہا تھا‘ وہ ملاوٹ شدہ تھا۔ اس کی بیٹی صدمے سے پاگل ہوگئی اور اس کے شوہر نے اسے اپنے گھر سے نکال دیا۔ادھراس تاجر کا بیٹا‘ جس جم میں جاتا تھا‘ اس نے بھی وہی فوڈ سپلیمنٹ استعمال کیا‘ جو اس کے باپ نے ہی جعلی تیارکروایا ہوا تھا اوریوں تاجر کا بیٹا اسے مسلسل استعمال کرتا رہا‘ جبکہ اس تاجرکو اس کاعلم نہ تھا اوراس کے جعلی فوڈ سپلیمنٹ سے اس کے بیٹے کو ایک دن دل کا دورہ پڑا‘ جس سے وہ جم میں ہی دم توڑ گیا۔
کچھ روز بعدتاجر کی بیوی کو اپنے جواں سال بیٹے کی وفات کے صدمے سے ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ بھی ہسپتال میں اپنے خاوند کے سٹور سے منگوائی ہوئی جعلی ادویات کی وجہ سے وفات پاگئی۔یوں اس تاجر نے‘ جن کے لیے یہ سب کچھ کیا تھا‘ وہ سب ایک ایک کر کے اس دنیا سے چلے گئے۔تاجرخود بھی نیم پاگل ہو گیا۔ کچھ دن بعد اس کے گودام‘ جس میں جعلی ادویات بنتی تھی‘ میں آگ لگ گئی اور وہ تمام ملازمین بھی جھلس کر مرگئے‘ جو اس کے جرائم میں برابر کے شریک تھے ۔
لیکن آج بھی کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ اس تاجر کو کسی کی نظر لگ گئی تھی ‘ کیونکہ اس کا کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا تھا؛حالانکہ اصل میں یہ مکافات عمل تھا‘ کیونکہ کہتے ہیں کہ کوئی بھی گناہ چھپ نہیں سکتا۔ اس کی سزا دیر یا بدیر اسے کے کرنیوالے کو ضرور ملتی ہے‘ چاہیے وہ سزا اسے دنیا میں ملے یا پھرآخرت میں ۔
آخر میں اس کہانی سے سبق یہی ملتا ہے کہ موجودہ حالات میں کوروناوائرس کی وبا ء کے دوران جو لوگ ذخیرہ اندوزی کررہے ہیں اور زیادہ منافع کمانے کا سوچ رہے ہیں‘ وہ یہ کہانی پڑھ کر کچھ عبرت حاصل کریں کہ ابھی بھی ان کے پاس واپسی کا وقت ہے۔انہیں چاہیے کہ وہ اللہ سے سچی توبہ کریں اور صرف اور صرف نیک اعمال کریں‘ نیز اپنے آپ سے یہ عہد کریں کہ کسی بھی چیز کی ذخیرہ اندوزی نہیں کریں گے‘ بلکہ لوگوں کی ہر ممکن مدد کریں گے۔کورونا وائرس جیسی مہلک وباء کے موجودہ حالات میں صرف اور صرف نیکیاں کمائیں گے‘ ناکہ زیادہ منافع کمانے کے چکر میں ذخیرہ اندوزی کریں گے‘ کیونکہ کہیں ان کے ساتھ بھی اس تاجر جیسانہ ہو ‘ کیونکہ سچ ہے کہ لالچ بری بلا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں