مجھے پالتو جانور بہت پسند ہیں‘ تاہم ہماری گلی میں کچھ عرصہ قبل ایک آوارہ کتا آنکلا۔ میں اور ہمسائیوں کے بچے اس کو کھانا دینے لگے۔ وہ اپنے کھانے کیلئے دن میں دو بار اپنے مقررہ وقت پرآتا ۔ہم نے اس کا نام سوزی رکھ دیا۔ چند دن بعد میں نے دیکھا کہ سوزی مادہ ہے اور بچے دینے والی ہے۔ میں اور میرے ننھے دوست اس کا بہت خیال رکھنے لگے‘پھر ہم نے باہر گرین بیلٹ پر اس کیلئے ایک چھوٹا سا گھر بنا دیا۔ ایک دن ہماری خوشی کی حیرت نہ رہی‘ جب اس نے چار صحت مندبچوں کو جنم دیا‘پھر محلے میں سے کسی نے سی ڈی اے والوں کو شکایت کردی۔میں گھر پر تھی کہ مجھے ایک فائر نگ کی آواز سنائی دی۔ جتنی دیر میں‘ میں گھر سے نکل کر گرین بیلٹ تک پہنچی ‘ شہری انتظامیہ کا عملہ‘ سوزی کے بچوں کو مار چکا تھا‘جن کی عمر بمشکل دو ماہ تھی۔سوزی کی جان تو بچ گئی‘ لیکن اس کی آنکھوں کا دکھ مجھے آج بھی یاد ہے۔ وہ آسمان کی طرف دیکھ کر جیسے فریاد کررہی تھی اور چلا رہی تھی۔میں نے عملے والوں سے کہا کہ ان بے زبانوں کو کیوں مارا؟ تووہ کہنے لگے کہ ہمیں اوپرسے آرڈر ہے کہ جہاں کوئی آوارہ کتا دیکھو مار دو۔اب‘ میں ان سے کیا بحث کرتی ‘جس ملک میں انسانوں کو حقوق نہیں ملتے‘ وہاں کسی بے زبان جانور کے حقوق کیا بات کی جائے ۔اس دن میں بہت اداس رہی‘ میں روئی بھی‘ محلے کے بچوں نے سوزی کو پورے سیکٹر میں تلاش کیا‘ مگر وہ کہیں نظر نہ آئی۔ اپنے بچوں کو اپنے سامنے مرتا دیکھ کر شاید اس کاانسانوں پر سے اعتبار اٹھ گیا ہو گا۔اس دن میرے دل سے دعا نکلی: یااللہ! انسانوں کے دل میں ان بے زبان جانوروں کیلئے رحم کا جذبہ اجاگر کر‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم کسی وبا یا عذاب میں پھنس جائیں۔
کہتے ہیں کہ وبا جب آتی ہے تو سب کچھ تباہ کردیتی ہے۔ یہ امیرو غریب کا فرق نہیں کرتی۔یہ قدرت کی طرف سے آتی ہے اور جتنی جلدی آتی ہے‘ اتنی ہی تباہی پھیلا کر اتنی ہی جلدی سے چلی جاتی ہے۔کچھ دن قبل تک پوری دنیا بہت تیزی رفتاری سے چل رہی تھی کہ کورونا وائرس کے عفریت نے معیشت کے پہیے کو یکدم روک کر رکھ دیا ہے۔ انسان کے غرور کو توڑ کر رکھ دیا ہے کہ وہ زمین کا مالک بنا پھر رہا ہے اور ہر چیز کو تسخیر کرنے کے چکر میں ہے۔جب ووہان میں کورونا وائرس کی وبا پھیلی تو کسی نے اس کو سنجیدہ نہیں لیا۔پوری دنیا سمجھ رہی تھی کہ یہ آفت صرف چین والوں پر آئی ہے‘ کیونکہ وہ کیوں حرام کھارہے ہیں‘ انہیں چمگادڑیں نہیں کھانی چاہیے ۔الغرض جتنے منہ اتنی باتیں‘ لیکن کسی کو یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ آفت سب کی تقدیر میں لکھ دی گئی ہے۔اب‘چند ہی دنوں میں پوری دنیا کے انسانوں کی زندگی بدل چکی ہے اور اس موذی وائرس نے زندگی کی معنویت کو بدل کر رکھ دیا ہے۔آج انسان‘ انسان سے ڈر رہا ہے۔ ہر شخص پریشان ہے کہ کون سی سانس موت کا پیغام لے آئے‘سانس لینا تک جیسے جرم بن چکا ہے۔
کورونا وائرس کے عفریت کے باعث پہلے چین کا شہر ووہان عبرت کا نشان بنا‘ پوراشہر بند ہو گیا ‘ہر طرف موت کا راج ہو گیااور ہر طرف قبرستان کی سی خاموشی چھا گئی‘ پھرکورونا وائرس نے اٹلی میں تباہی مچانا شروع کر دی۔اطالوی سڑکیں سنسان ہوگئیں ‘پیسا کا وہ جھکا ہوا مینار‘ جسے لاکھوں سیاح روزانہ دیکھنے آتے تھے‘ اب کوئی انسانی آنکھ اسے دیکھنے کیلئے وہاں نہ تھی۔آج کل وینس کے پانیوں میں رنگ برنگی کشتیاں نہیں تیر رہیں‘تاہم مچھلیاں ضرورنظر آرہی ہیں۔انسان گھروں میں مقید ہیں اور چرند پرندآزاد ہیں۔ چین کے صوبے ووہان اور اٹلی کے بعد اس کورونا وائرس کی وبا کی تباہ کاریاں ایران میں پھیل گئیں۔ہر طرف موت نے اپنی ہیبت طاری کر دی اورسیکٹروں انسان لقمہ اجل بننے لگے‘مشہد اور قم میں ہزاروں زائرین پھنس گئے اور جب اپنے ملکوں میں لوٹے تو قرنطینہ میں ان کے ساتھ جو سلوک ہوا‘ وہ سب کے سامنے ہے‘پھر کورونا وائرس سعودیہ پہنچ گیا اور حفاظت کی پیش نظر بیت اللہ شریف اور روضہ رسول پاکؐ کے دروازے بند کر دئیے گئے۔یہاں سے مسلمانوں میں خوف و ہراس کے سائے گہرے ہونے لگے کہ ایسے کون سے گناہ ان سے سر زد ہو گئے کہ بیت اللہ شریف کے دروازے ان کے لیے بند ہو گئے۔یوں تو انسان خطار کار ہے اور روزانہ گناہ اس سے سرزد ہو جاتے ہیں اور اپنے بعض گناہوں کو وہ یکسر بھول بھی جاتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ قدرت کی طرف سے جب تک اس کو احساس نہیں کروایا جاتا ‘ اس کی سرکشی نہیں رکتی ہے۔
اب تک دنیا کے196 ممالک میں کورونا وائرس اپنی دہشت پھیلا چکا ہے۔ ایک نظر نہ آنے والے دشمن نے دنیا کی سپرپاورز کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے۔پاکستانی اس خوش فہمی میں تھے کہ ہم محفوظ رہیں گے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ جہاں ڈینگی‘ پولیو اور شوگر جیسے امراض پر قابو نہیں پایا جاسکا ‘وہاں اس مہلک کوروناوائرس کا مقابلہ کیسے کیا جائے گا؟ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بیرونی ممالک سے آنے والے اس وائرس کو وطن ِعزیز میں پھیلانے کا سبب بنے‘ اگران کو قرنطینہ میں رکھا جاتا تو یہ وائرس پورے ملک میں نہ پھیلتا‘لیکن اب جبکہ یہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں اپنے پنجے گاڑ چکا ہے اور اس وبا نے ایک خوفناک صورتِ حال اختیار کر لی ہے‘ تولوگوں نے خوف سے ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا چھوڑاہے۔ کچھ لوگوں نے لاک ڈاؤن کی وجہ سے راشن اور دیگرسامان وافر مقدار میں خریدنا شروع کردیا ہے۔ کچھ لوگ اپنی جان کے خوف سے گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے ہیں۔ کل سندھ بند ہوا‘آج پنجاب بھی بند ہوچکا‘ شہر اقتدار کی سڑکیں بھی سنسان ہو چکی ہیں۔
یہ دنیا میں آنے والی پہلی وبا نہیں‘ اس سے پہلے بھی کئی قیامتیں گزری ہیں۔13ویں صدی میں طاعون کی بیماری یورپ پر حملہ آور ہوئی اور لاکھوں لوگ اس کے باعث موت کے منہ میں چلے گئے‘پھر ہیضہ ‘گردن توڑ بخار اور چیچک آیا اور انسانوں کی نسلوں کی نسلیں اجاڑ گیا۔سپینش فلو نے جنگ ِعظیم اوّل کے بعد پانچ کروڑ لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لیا‘ پھرخسرہ اور ٹی بی جیسی بیماریاں آئیں‘ جن سے آج بھی لوگ مرتے ہیں۔جزام نے بھی جنگ ِعظیم دوم کے بعد انسانوں پر حملہ کیا ‘اس بیماری میں انسان کا جسم گل سٹر جاتا تھا‘پھرایشیا فلو آیا اور 17 ہزار لوگ لقمہ اجل بن گئے۔پولیو کی وبا آئی‘ جس سے دنیا ابھی تک لڑ رہی ہے‘ پھر ماضی قریب میں سوائن فلو آیا‘ جس سے ڈیڑھ کروڑ افراد متاثر ہوئے۔ملیریا اور ڈینگی کی وبا ہر سال انسانوں پر حملہ آور ہوتی ہے۔اب نوول کووڈ 19 کورونا وائرس عالمی وبا بن کر انسانوں پر اپنا قہر برسا رہا ہے‘ اس موذی وائرس کے باعث اب تک پوری دنیا میں14 ہزار سے زائد افراد دم توڑ چکے ہیں۔
میری نظر میں تمام شہروں کے لوگ برابر کے قصور وار ہیں‘کیونکہ وہ یہ سمجھتے رہے کہ اس وبا کایہاں پھیلناناممکن ہے ‘وہ اپنے کام کاج میں مصروف رہے۔آخر میں صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ وبا کی ہمہ گیر تکلیف میں صرف دعا امید کا چراغ ہوتی ہے۔ہم سب کو دعا کرنی چاہیے۔اللہ سے مدد مانگی چاہیے۔آج مساجد بند ہیں‘ لیکن دعا کا در بند نہیں ‘ سانس کی ڈوری ٹوٹنے سے پہلے مانگی ہوئی دعا اور معافی قابل ِقبول ہے۔انسان اللہ سے معافی مانگے ‘خود میں عاجزی و انکساری پیدا کرے۔سب تنہائی میں اپنا محاسبہ کریں اور لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد ایک نئے رحم دل انسان کی صورت باہرآئیں ‘جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے محفوظ ہوں۔بے زبان جانوروں پر رحم کریں اورآخر میں یہ بطورِ خاص اللہ سے دعا ہے کہ سوزی جیسا حادثہ کسی کے ساتھ پیش نہ آئے۔