فرید خان کا بنیادی تعلق چارسدہ سے ہے اور وہ برسوں پہلے روزگار کی تلاش میں شہر اقتدار اسلام آبادآیا اور اس کے مضافات میں واقع ایک کچی بستی میں رہائش پذیر ہو گیا۔ فرید خان چھلی‘ جس کو بھٹہ کہا جاتا ہے کی ریڑھی لگاتا تھا۔ وہ چھلی ریت والی‘ چھلی ریت والی کی آوازیں لگاتا ہوا‘ روزانہ ایک کونے میں آ کر کھڑا ہوجاتا‘ جس کے قریب چار سکول واقع تھے؛ تین سرکاری اور ایک پرائیوٹ سکول۔ فرید خان کو ریت والی چھلیاں بیچ کر مناسب آمدن ہوجاتی تھی‘ کیونکہ بچے اور بڑے سبھی‘ اس سے چھلی خریدتے تھے۔سکول ٹائم کے بعد چھلی ریت والی کی آواز لگاتا ہوا‘ وہ شہر کی مختلف گلیوں میں نکل جاتا تھا ‘جہاں دیگر لوگ بھی اس سے چھلیاں خرید کر کھاتے تھے۔
فرید خان کا لباس اگرچے پرانا ہوتا ‘ تاہم صاف ستھرا ہوتاتھا۔ اس کے جوتے جو شاید لنڈا بازار سے خریدے گئے تھے‘ کافی بوسیدہ تھے‘ کیونکہ وہ سارا دن گلیوں میں گھوم پھر کر چھلیاں بیچتا تھا‘ اسی لیے اس کے جوتے کے تلوے گِھس چکے تھے اور اس نے جوتے کے اندر ایک گتا رکھا ہوتا تھا۔دراصل اسے چھلیاں بیچ کر جو منافع ہوتا ‘وہ چار سدہ میں اپنے خاندان کوبھیج دیتا تھا ‘باقی پیسوں سے وہ مزید مال خرید لیتا اور جس کمرے میں وہ دیگر دس لوگوں کے ساتھ رہتا‘ اس کا کا کرایہ ادا کر دیتا تھا۔ چھلیاں بیچتے ہوئے اس کو جب بھوک لگتی تو وہ ایک چھلی نکال کر کھالیتا اور پانی کسی بھی گلی کوچے کے نلکے سے پی لیتا۔ایک بڑی کوٹھی کے مالک نے اپنے گھر کے باہر ٹھنڈے پانی والا کولر لگارکھا تھا ‘ جب کبھی اس کی اس گلی سے گزر ہوتا‘ تو وہ خوب جی بھر کر پانی پیتااور مالک کو خوب دعائیں دیتا۔ کبھی اس کا زیادہ عیاشی کو دل کرتا تو وہ کھانے کیلئے نان اور آلو کی ٹکی خرید لیتا‘اسے مٹن‘ مرغی یا مچھلی کی شکل دیکھنا کبھی نصیب نہ ہوتا‘ کیونکہ اتنی مہنگائی میں گوشت اس کیلئے سونا چاندی کے مترادف تھا۔ مجھے سکول کے چوکیدار نے بتایاکہ ایک دن میں فرید خان کو حکومت کی طرف سے کھولے گئے لنگر خانے میں لے گیا‘ تو اس نے لنگرخانے چاول اور سبزی کھانے کے بعد بتایا کہ اسے بہت دنوں بعد یہ کھانا نصیب ہوا ہے۔اس نے کھانے کے بعد اللہ کا بہت شکر ادا کیا اور حکمرانوں کو دعا بھی دی ‘لیکن لنگر خانہ اس کی کچی آبادی سے بہت دُور ہے۔ کاش! اس کی بستی کے پاس بھی کوئی دسترخوان لگاتایا لنگر خانہ کھلوا دیا جاتا۔فریدخان نے ڈرتے ڈرے کچھ کھانا رات کے لیے بھی مانگ لیا‘ تو لنگر خانے کے منتظم نے خوش اخلاقی سے اس کو ایک شاپر کھانا ڈال دیا اور کہا کہ یہ کھاناآپ سب کیلئے ہی بنایا ہے‘ جتنا مرضی کھائیں اور ساتھ بھی لے جائیں۔ فریدخان کی آنکھوں میں آنسو آگئے‘ کیونکہ اسے گھر کی یاد آگئی تھی‘ جہاں اس کی اماں اور بیوی گرم گرم کھانا اس کو بناکردیتی تھیں‘ لیکن گزشتہ دو سال سے وہ گھر نہیں جاسکا۔اس نے بتایا کہ اسے اپنی اماں کی آنکھوں کاآپریشن کرانا ہے‘بہن کی شادی کرنی ہے اور اس کے بچوں کے سکول کے خرچے سبھی کچھ اس کی ریڑھی سے جڑا ہوا ہے۔اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر لنگر خانے کا منتظم بولا: بھائی کیا ہوا؟ فریدخان بولا: بہت دن بعد اچھا کھانا کھایا تو آنکھوں میں آنسو آگئے اور گھر کی یادآگئی۔ منتظم بولا: ہم سب ہی پردیسی ہیں۔ بس‘ پیٹ کی دوزخ نے ہم سب کو اپنے گھر اپنی جنت سے دُور کررکھا ہے۔فریدخان نے وہ کھانا اپنی ریڑھی پر رکھا اور ریڑھی کوکھینچتا ایک گھنٹہ پیدل چلنے کے بعد اپنی بستی پہنچا اور اپنے کمرے میں ساتھ رہنے والے دوستوں کوبھی یہ کھانا کھلایا۔ فرید خان نے بتایا کہ یہ مہینے کا آغاز تھا۔ میرے پاس ان دنوں پورے بارہ ہزار جمع تھے‘ میں ایک قریب کریانہ سٹور پرجاتاہوں‘کریانہ سٹور والا خٹک بھائی پتا نہیں مجھ سے پیسہ لے کر ایک موبائل کے بٹنوں کو دباتا ہے اور کچھ دیر بعد میرے پیسے چارسدہ کے ایک جنرل سٹور پر پہنچ جاتے ہیں اور وہ پیسے میری اماں کو دے آتا ہے ۔ نہ میرے پاس فون تھا‘ نہ ہی گھر والوں کے پاس‘ کبھی بات کرنی ہوتی تو خٹک سٹور والے سے اپنے گاؤں چارسدہ کے جنرل سٹور والے کے توسط سے اپنے خاندان والوں سے بات چیت کر لیتا ۔ایک دن میں چھلی کی ریڑھی لے کر سکول پہنچا تو سکول کو جلدی سے بند کروایا جا رہا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ ا متحان میں سکول کیسے بند ہوسکتے ہیں۔بڑے سکول گیا تو وہاں بھی چھٹی تھی ‘میرا سارا مال ریڑھی میں ہی پڑا رہ گیا۔سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا ہورہا ہے؟ رات جب سب ساتھی کمرے میں واپس آئے‘ تو ایک ساتھی رشید نے بتایا کہ ہوٹل کے ٹی وی پر اس نے دیکھا کہ کوئی وائرس آگیا ہے ‘ جس سے سب مر رہے ہیں۔ دوسرا ساتھی جمیل کہنے لگا کہ ہمیں کچھ نہیں ہوگا‘ ہم تو جس جگہ رہتے ہیں‘ وہاں جو پانی بہتا ہے‘ وہ کالے رنگ کا ہے‘ ہوا میں بھی کچرے کی بو زیادہ ہے‘ہم ایک کمرے میں دس دس لوگ رہتے ہیں تو ہمیں پہلے کچھ نہیں ہوا تو اب کیا ہوگا؟یہ سن کر سب ہنسنے لگے‘ پھر رشید نے کہا کہ یہ مذاق کی بات نہیں‘ ہم سب کو گھر پر رہنا ہوگا‘ جب تک وائرس چلا نہیں جاتا۔فرید خان کے بقول ‘وہ رات ہم د س لوگوں نے جاگتے ہوئے گزاری۔ سب یہ سوچ رہے تھے کہ پیچھے اپنے اپنے گھر والوں کو پیسے کیسے بھیجیں گے؟ جب کوئی انسان باہرہی نہیں جا سکے گا‘ تو ہم کام کیسے کریں گے اور کمائیں گے کیسے؟ اورہمارا خرچہ کیسے پورا ہوگا؟ہم سب نے پیسے جمع کرکے تھوڑی دال ‘چاول اور آٹا خرید کی گھر پر رکھ لیا۔چائے بنانے کی عیاشی ہم کر نہیں سکتے تھے ‘ کیونکہ کون دودھ ‘پتی اور چینی کیلئے پیسے خرچ کرے‘ تو ہم نے پنساری سے قہوہ خرید کر رکھ لیا۔ فرید خان کے بقول ؛اب جب باہر سب کچھ بند ہوگیا ہے‘ تو ایک دن میں اپنی ریڑھی لے کر باہر نکلا‘ تو آدھا دن گزر چکا تھا‘ لیکن بمشکل میری آٹھ دس چھلیاں فروخت ہوئی تھیں۔میں مایوس ہونے لگا کہ گھر پر کیا خرچہ بھیج سکوں گا یا نہیں‘ نیز کمرے کے کرایہ کیسے ادا کروں گا؟گھر والوں کی خیریت معلوم کرنے کیلئے خٹک بھائی کے سٹور پر گیا تو وہاں بھی تالا لگا ہوا تھا۔وبا نے سب کو ڈرا دیا تھا۔ایک ساتھی راجو نے کہا کہ سب ہاتھ بار بار دھوئیں‘ نلکا ہمارے گھر سے کافی دور تھا۔ ہم بالٹی میں پانی بھر لائے۔ راجو ایک صابن بھی لے آیا تھا۔میرے پاس کافی چھلیاں موجود تھیں‘ اس لیے ہم سب کو یقین تھا کہ دس پندرہ دن گزر ہی جائیں گے۔ہم ایک وقت کھانا پکاتے ہیں اور دوسرے وقت چھلی کھالیتے ہیں اور رات کو قہوہ پی کر سو جاتے ہیں۔اس مہینے بڑی مشکل سے چارسدہ پیسے بھیجے ہیں۔میرے ساتھی رشید نے ایک موبائل والے سے کہہ کر یہ کام کروایا اور میں نے اماں کو فون پر تسلی بھی دی ہے۔
فرید خان کے بقول ‘ ہمیں باہر جانے کی اجازت نہیں‘پتانہیں کب بیوی بچوں اور اماں سے دوبارہ رابطہ ہو‘ میں اسی سوچ میں تھا کہ باہر ایک ٹرک رکنے کی آواز آئی۔ کچھ نوجوان بچے بچیاں آٹا‘گھی ‘دالیں‘ بیسن‘ چینی اور مصالحوں والے پیکٹ لیے کھڑے تھے۔ انہوں نے منہ ڈھکا ہوا تھا اور ہاتھوں پر بھی دستانے پہنے ہوئے تھے۔ وہ ہم سب کو قطار بنانے کا کہہ رہے تھے۔انہوں نے بتایا کہ کوئی وائرس ہے؛کوروونا‘جو ایک دوسرے سے لوگوں کو لگ رہا ہے۔ اس لئے بار بار ہاتھ دھوئیں اور منہ کو ڈھانپ کررکھیں‘ نیزگھروں پر رہیں۔ یہ کہہ کر انہوں نے ہم سب کو مفت راشن دینا شروع کر دیا۔ ہم سب کو آٹا‘ گھی ‘دالیں اور مصالحے مل گئے۔ یہ اتنا راشن ہے کہ ہمارے دو مہینے آرام سے گزر جائیں گے۔ان بچوں نے ہم سب کو ایک ایک صابن بھی دیا۔میرے دل سے ان بچوں کیلئے بہت سی دعائیں نکلیں۔آخر میں صرف اتنا کہنا ہے کہ کیاآپ نے اپنے علاقے میں فرید خان جیسے کسی انسان کی مدد کی ہے؟