ہیش ٹیگ والی جنریشن

نئی نسل بات بھی اب ہیش ٹیگ میں کرتی ہے‘ لکھتی سوچتی بھی ہیش ٹیگ میں ہے۔اس ہیش ٹیگ نے زبان کی خوبصورتی جملوں کی ادائیگی اور جذبات کی چاشنی کی ہیت ہی بدل کر رکھ دی ہے۔پرانے زمانے میں جذباتی عاشق اپنے خون سے خط لکھ کر کبوتر کے ذریعے اپنی محبوبہ تک محبت نامہ پہنچایا کرتے تھے۔ جوجنونی نہیں تھے نفیس طبیعت کے مالک تھے وہ عہد و پیمان کے لیے خوبصورت شاعری کا استعمال کرتے تھے۔بات چیت کے لیے خطوط کا استعمال ہوتا تھا خوشخطی پر خاص توجہ دی جاتی تھی۔ پھر وقت بدل گیا‘ پہلے فون‘ پھر کمپیوٹر ‘انٹرنیٹ اور اب موبائل نے تمام قواعد کو بدل کررکھ دیا ہے۔دنیا کی ہر چیز موبائل فون میں سما گئی ہے۔بات چیت موبائل سے‘پیغام رسانی اورحساب کتاب موبائل فون پر ہورہا ہے‘ٹائم ‘ کیلنڈر‘ فوٹو گرافی ‘ مووی ریکارڈنگ ‘ ای میل ‘ ویڈیو کال ‘ آن لائن شاپنگ ‘دفتری کام ‘گیمز‘مختلف ایپس اور دنیا بھر سے رابطہ اسی موبائل سے ممکن ہے۔اس لیے اب وعدے وعید اور محبت بھی اس فون کی ہی مدد سے ہوتے ہیں۔اگر مجبوب کے فون پر یہ سنائی دے کہ آپ کا مطلوبہ نمبر دوسری لائین پر مصروف ہے‘ کچھ دیر بعد کوشش کریں تو یہ کوشش پھر کہیں اور ہی کی جاتی ہے‘ یہاں دوبارہ وقت نہیں ضائع کیا جاتا۔محبت کے لیے اب الفاظ گوگل سے کاپی پیسٹ ہوتے ہیں‘ تصویریں انسٹاگرام سے مستعار لی جاتی ہے اور ہیش ٹیگ ٹوئٹر سے لے کر محبت نامہ یا تو فیس بک پر پوسٹ ہوتا ہے یا واٹس ایپ پرخفیہ مراسلہ بھیجا جاتا ہے۔ بات بن جائے تو'' میڈ فار ایچ ادر‘‘ لکھا جاتا ہے وگرنہ ایک دوسرے کو بلاک کردیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر کوئی درمیانی راستہ نہیں ہے‘ یا آر یا پار۔کبھی سفاک محبوب محبت نامے کے سکرین شاٹ لے کردنیا میں پھیلا کر عاشق نامراد کا مذاق بنا دیتے ہیں۔اس لئے ہیش ٹیگ کی دنیا میں احتیاط لازم ہے۔
رشتے جذبات مصنوعی ہوتے جارہے ہیں‘ صرف سیلفی کی حد تک خاندان اکٹھا ہوتا ہے‘ اس کے بعد سب فون میں لگ جاتے ہیں۔میاں بیوی ایک گھر میں موجود ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔شوہر فیس بک یا ٹوئٹر پر لگے ہوتے ہیں تو بیویاں انسٹاگرام اور آن لائن سٹورز پر کپڑے دیکھ رہی ہوتی ہیں۔جب ایک جیسی روٹین سے تنگ آجاتے ہیں تو کوئی پرانی تصویر‘ جس میں کسی وقت میاں بیوی کے درمیان اچھا تعلق تھا‘ وہ لگا کر بیوی لکھ دیتی ہے ہیش ٹیگ کپل گولز جبکہ انا انہیں آپس میں بات کرنے کا موقع نہیں دیتی‘ دونوں نے کام اور سوشل میڈیا کو زندگی بنالیا ہے اور زندگی ہیش ٹیگ کے گرد گھومتی رہتی ہے۔
بچوں کی بات کریں ‘وہ بھی خاندان سے کٹ کر رہتے ہیں ان کے ہاتھ میں موبائل‘ ٹیب‘ لیپ ٹاپ وقت سے پہلے پکڑا دیے جاتے ہیں تاکہ ماں باپ ان کے معصومانہ سوالوں سے جان چھڑواسکیں اور یوں دوریاں ہمیشہ کے لیے قائم ہوجاتی ہیں۔جب بچوں کو ماں باپ کی ضرورت تھی تو ماں باپ انٹرنیٹ اوراپنی زندگی میں مصروف تھے ‘جب آگے چل کر ماں باپ کو بچوں کی ضرورت ہوگی تو وہ بھی موبائل اور اپنی زندگی میں مصروف ہوں گے۔بچے ٹک ٹاک پر ناچ رہے ہیں ‘ سنیپ چیٹ پر کتے بلی والے فلٹرز منہ پر لگا کر تصاویر بنوارہے ہیں‘ ماں باپ کو کچھ پتہ ہی نہیں‘ بچوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر لکھا ہے ہیش ٹیگ مائی لائف مائی رولزاور الیومیناٹی کے سائنز لگے ہیں۔پاپا کی پرنسز ‘پرنس وغیرہ اپنی تصاویر اور گانوں پر اداکاری والی ویڈیو اپ لوڈ کرتے ہیں۔ڈاکٹرز‘ اداکاروں‘ کھلاڑیوں کے نام سے جعلی اکاؤنٹس سوشل میڈیا پر موجود ہیں‘ جہاں سے تصاویر اپ لوڈ کرکے سادہ لوح عوام اور بچوں کوشرپسند بے وقوف بنا جاتے ہیں۔ 
کچھ بچے پی یو بی جی نامی ایک پرتشدد ویڈیو گیم کی لت کا شکار ہوگئے ہیں۔پانچ سے چھ گھٹنے میچ کھیلتے ہیں‘ جس میں وہ غیر لوگوں کے ساتھ رابطے میں ہوتے ہیں اور اس ویڈیو گیم میں ایک دوسرے کو گولیاں ماری جاتی ہیں‘تاہم ہیش ٹیگ جنریشن کے ماں باپ کے پاس اتنا ٹائم کہاں ہے کہ وہ اپنے بچوں کے کمروں میں جھانکیں کہ بچے کیا کررہے ہیں۔اسی طرح آن لائن غیر لوگوں کے ساتھ رابطے میں آنے کی وجہ سے بچے بلیک میلنگ کا شکار بھی ہوجاتے ہیں ۔کچھ کیسز میں وہ جنسی تشدد کا شکار بھی ہوتے ہیں‘ مگر ان کے کرب اور تکلیف سے گھر والے بے خبر ہوتے ہیں۔
اب آتے ہیں بڑے بزرگ ‘جو اِس ہیش ٹیگ جنریشن کی توجہ کے سب سے زیادہ مستحق ہیں‘ لیکن یہ نئی نسل باتھ روم سے لے کر بیڈ روم تک اور کار ڈرائیونگ ‘ شاپنگ اور آؤٹنگ تک ایک پل کے لیے بھی اپنے ہاتھوں سے اپنے موبائل الگ نہیں کرتی ۔ وہ کیا کسی بڑے کی بات سنیں گے۔ بزرگ جب بہت مشکل سے یہ ٹیکنالوجی سیکھ لیں تو نواسے نواسیوں اور پوتے پوتیوں کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے سوشل میڈیا پر ان کو ایڈ ہی نہ کریں‘ ان کو بلاک کرکے کہتے ہیں کہ ہم تو سوشل میڈیا یوز ہی نہیں کررہے۔ ہیش ٹیگ سٹڈیز از مائی اونلی فوکس۔یہ بات جھوٹ ہے‘ اپنے دیسی بڑوں کو یہ برگر بچے ایڈ کرنے سے اس لیے کتراتے ہیں کہ ان کے فیک امیج جوکہ انہوں نے یورپ سے مفت میں یا ادھار لیا ہے‘ کہیں اس جھوٹ کا پول نہ کھل جائے۔اپنی شناخت اور بنیاد پر شرمندہ ہونے والے کبھی خوش نہیں رہ پاتے۔
اس کے بعد وہ کیٹیگری آتی ہے جو ہیش ٹیگ سے پیسہ بنارہی ہے۔ ایک تو وہ بلاگرز ہیں جو پروفیشنل ہیں اور متعدد اداروں کو ٹرینڈ بنانے میں مدد دیتے ہیں‘ لیکن دوسری طرف ٹرولز ہیں جو سیاسی جماعتوں کے چاہنے والے ہیں ‘پیسے لے کر مخالفین کے لیے گالی گلوچ والے ٹرینڈ چلاتے ہیں اور انہوں نے پاکستانی ٹوئٹرٹائم لائن ٹرینڈز اور ہیش ٹیگ کو آلودہ کردیا گیا ہے۔یہ تمام لوگ قابلِ سزا ہیں اور ان کو پالنے والے بھی شریکِ جرم ہیں۔ وہ لوگ جو اچھے ہیش ٹیگ استعمال کررہے اور ملک اور قوم کی خدمت کررہے ہیں‘ آٹے میں نمک کے برابرہیں۔
بہت سی پاکستانی مائیں بھی سوشل میڈیا کے استعمال سے واقف نہیں ہیں۔ان کی زندگی کا اصل مقصد'' میرا گھر میری جنت‘‘ ہے ا ور یہ کوئی ہیش ٹیگ نہیں ہے یہ گھر‘ رشتے ان کی زندگی کا محور اور اصل مقصد ہیں۔اس کے لیے انہیں سوشل میڈیا کے لائیکس کمنٹس ‘ہٹس اور شیئرز نہیں چاہئیں۔ وہ سارا دن گھر میں کام کرتی ہیں اپنے والدین ‘ساس‘ سسر اور بچوں کی خدمت کرتی ہیں‘ صرف اپنے شوہر اور بچوں کی توجہ کی طالب رہتی ہیں‘ لیکن کوئی ان سے بات نہیں کرتا۔شوہر سوشل میڈیا پر سال میں کبھی ایک بار لکھ ہی دیتا ہے: ہیش ٹیگ مائی وائف گریٹ شیف ‘لیکن بیوی کے سامنے کبھی اس کی یا اس کے بنائے ہونے کھانوں کی تعریف نہیں کرتا۔مئی کے پہلے اتوار کو ماں کا عالمی دن منایا جاتا ہے‘ جس کا مقصد دنیا بھر کی ماؤں کو خراج تحسین پیش کرنا ہوتا ہے۔بیشتر لوگ سوشل میڈیا پر بے تحاشا پوسٹس لگاتے ہیں: ہیش ٹیگ مائی ماما مائی پاور ‘ ہیش ٹیگ آئی لو مام ‘ ہیش ٹیگ ماں تجھے سلام‘ لیکن اصل زندگی میں ماں انتظار کرتی رہ جاتی ہے کہ کب اس کے بچے آئیں گے‘ چاہیے کوئی موم بتی‘ کیک یا تحفہ نہ لائیں ‘اسے گلے لگا کر یہ کہہ دیں‘ بغیر ہیش ٹیگ کے: ماں تم مجھے دنیا میں سب سے پیاری ہو ‘میں تم سے بہت پیار کرتا ہو۔کیا آپ نے چند پل اصل میں اپنی ماں کے ساتھ ہیش ٹیگ کی دنیا سے دور گزارے ہیں؟مئی کے پہلے اتوار کو ماں کا عالمی دن منایا جاتا ہے‘ جس کا مقصد دنیا بھر کی ماؤں کو خراج تحسین پیش کرنا ہوتا ہے۔بیشتر لوگ سوشل میڈیا پر بے تحاشا پوسٹس لگاتے ہیں: ہیش ٹیگ مائی ماما مائی پاور ‘ ہیش ٹیگ آئی لو مام ‘ ہیش ٹیگ ماں تجھے سلام‘ لیکن اصل زندگی میں ماں انتظار کرتی رہ جاتی ہے کہ کب اس کے بچے آئیں گے‘ چاہیے کوئی موم بتی‘ کیک یا تحفہ نہ لائیں

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں