لواحقین کا نوحہ

کورونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن میں اپنے پیاروں سے دور رہ کر وہ تنگ آگئے تھے‘ عید بس اُن کے ساتھ منانی تھی‘ اسی بات کی جلدی تھی۔کورونا کا ڈر بھی تھا‘ لیکن پیاروں سے ملنے کی بیتابی بھی تھی۔ کسی کوکراچی میں بہت ضروری کام تھا‘ جس کیلئے سفر کرنا ضروری تھا تو کسی نے رمضان کا آخری جمعہ اپنے پیاروں کے ساتھ کراچی میں منانا تھا۔ ایک بچی کی تو روزہ کشائی بھی تھی‘ لیکن لاہور سے کراچی جانے والی فلائٹ میں کچھ خرابی ہوگئی۔جس وقت جہاز لینڈنگ کے قریب ہوتا ہے اس وقت سب اپنا سامان سمیٹ رہے ہوتے ہیں‘ کوئی اپنا لیپ ٹاپ پیک کررہا ہوتا ہے تو کوئی کھانے کی ڈش ائیر ہوسٹس کو واپس کررہا ہوتا ہے‘ کوئی شوقین لینڈنگ کی ویڈیوبنانے کیلئے ریڈی ہوتا ہے تو کوئی مسافر تسبیح کررہا ہوتا ہے کہ ہم خیریت سے لینڈ کرجائیں۔سب خوش ہوتے ہیں کہ ہم منزل پر پہنچ گئے‘ سب کو رشتہ داروں سے ملنے کی خوشی ہوتی ہے ۔جب جہاز لینڈ ہوتا ہے تواکثر بچے تالیاں بجاتے ہیں کہ ہم خیریت سے پہنچ گئے۔بہت سے لوگ فضائی میزبانوں کو شکریہ کہتے ہیں ۔سفر کی خوشگوار یادیں ساتھ لے کرجاتے ہیں۔
جس وقت پی آئی اے کا طیارہ لینڈنگ کی کوشش رہا تھا مسافروں کو مکمل امید ہوگی کہ ہم لینڈ کرجائیں گے۔ پائلٹ بہت پراعتماد تھے کہ وہ بیلی لینڈنگ کرجائیں گے‘ لیکن قسمت میں کچھ اور لکھا تھا ۔جب جہاز نے پہلی کوشش کی اور دوبارہ اڑان بھری تو انجن فیل ہوگئے۔مے ڈے مے ڈے کی آواز کے ساتھ ہی بہت سے لوگوں کیلئے زندگی ختم ہوگئی اور بہت سے لوگوں کیلئے زندگی ہمیشہ کیلئے بدل گئی۔جیتے جاگتے انسانوں کو اعداد اور باڈی کہنا شروع کردیا گیا۔یہ کتنا دل کو تکلیف دیتا ہے کہ انسان کے پیارے کو باڈی لاش اور نعش کہا جائے۔ان کے پیاروں کو لے کر غیر سنجیدہ اور غیر اخلاقی رویہ اپنایا جائے۔ایک اورعجیب سلسلہ شروع ہوا کہ سوشل میڈیا ہٹس اور سٹیزن جرنلزم کے نام پر لوگ از خود ویڈیو اور تصاویر پھیلانا شروع کردیتے ہیں جس سے سانحے میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو مزید اذیت ہوتی ہے۔کسی کا ملبے میں دبا ہاتھ پاؤں آپ کیلئے سوشل میڈیا پر ہٹ ہونے کا ذریعہ ہوگا‘ لیکن یہ کام انتہائی غیر انسانی ہے ۔ مرنے والا کسی کا پیارا تھا ‘کسی کی زندگی تھا۔ یہ ہی پی آئی اے کی فلائٹ 8303کے ساتھ ہوا طیارہ آبادی پر گرا اور گھر اور طیارہ دونوں تباہ ہوگئے۔وہاں پر ان گنت موبائل سے ویڈیو بنانے والے امدادی کارکنوں کے کام میں خلل ڈالتے رہے جس کی شکایت جے ڈی سی کے ظفر عباس نے بھی کی اور کہا کہ لوگوں کو جتنا کہہ دو لوگ نہیں رکتے‘ ویڈیو شوٹ کرتے رہتے ہیں۔ یہ سلسلہ واٹس ایپ اور سوشل میڈیا پر جاری رہا‘ ویڈیو اور غیر مستند خبریں پھیلتی رہیں‘ لوگ از خود مسافروں کے مرنے اور زندہ ہونے کے اعلانات کرتے رہے۔مسافروں کے گھر والو ں پر اس وقت کیا بیت رہی ہوگی یہ بات لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔تاہم سوشل میڈیا وارئرز جھوٹ پھیلاتے رہے۔
مجھے یاد ہے جب اسلام آباد میں 2010 ء میں ایئربلیو کا طیارہ مارگلہ کی پہاڑیوں سے ٹکرایا تھا تو ہر طرف مسافروں کے اعضا بکھرے پڑے تھے۔ اس دن شدید بارش تھی تو آگ بھی جلدی بجھ گئی‘ لیکن کراچی میں ایسا نہیں ہوا وہاں طیارہ آبادی پر گرا اور آگ لگ گئی جس سے مسافر اور نیچے گلی میں تین خواتین جھلس گئیں اور جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے‘ دو مسافر زندہ بھی بچ گئے۔اب اس ساری صورتحال میں حکومت ہسپتال اور انتظامیہ کو بہت ہمدردانہ رویہ رکھنا چاہیے انہیں لواحقین کے ساتھ شفقت برتنی چاہیے‘ لیکن ہمارے ہاں اس چیز کا فقدان ہے۔سانحہ ہوتا ہے تو ہر طرف خوف اور سنسی پھیل جاتی ہے۔ہسپتالوں میں ایسے کاونٹر ہونے چاہیں جہاں سانحات کی صورت میں لواحقین کو تسلی دی جائے۔ائیرپورٹ میں بھی ایک شعبہ ہونا چاہیے جوسانحات میں مسافروں کے گھر والو ں کو شفقت اور تسلی سے ڈیل کرے۔مسافروں کے لواحقین میڈیا پر اپیل کرکے اپنا دکھ بیان کر رہے ہیں۔ دو جاں بحق ہونے والے مسافروں کے بیٹے عدیل رحمان نے ٹویٹ کئے کہ میں نے اس سانحے میں اپنے امی ابو کو کھو دیا‘ انہیں قومی ائیرلائن کی طرف سے بار بار کال آرہی ہے کہ آپ کا مسافر سے کیا رشتہ تھا؟ کیا آپ کو باڈی مل گئی؟انہوں نے لکھا کہ لوگوں کو ہمارے دکھ درد اور تکلیف کا احساس نہیں ہے‘ہر شفٹ چینج ہونے کے بعد ہمیں نیا فون آجاتا ہے اور یہی سوال پوچھا جاتا ہے۔رات دو بجے آنے والی کال پر انہیں شدید حیرت ہوئی کہ یہ کون سا وقت ہے بات چیت کیلئے جس میں لواحقین سے معلومات اکھٹی کی جائیں۔اس کے بعد ایک اور ویڈیو جوکہ اس شہری نے خود ریکارڈ کی ہے جس نے یہ کہا کہ اس حادثے میں انہوں نے بیوی اور تین بچوں کو کھودیا‘ انہوں نے اپنے ویڈیو میسج میں کہا کہ انہوں نے اپنی بیوی بیٹی کو جیولری سے پہنچانا لیکن ان کاچودہ سال کا بیٹا اور پانچ سال کی بیٹی اب بھی لاپتہ ہے۔ جائے وقوعہ پر لال ٹیپ لگا دی گئی ہے اور کوئی کچھ نہیں بتا رہا کہ کیا کرنا ہے۔میں ادھر ادھر بھاگ رہا ہو ں‘کوئی مدد نہیں ‘میری التجا ہے کسی کو بغیر ڈی این اے میتیں نہ دی جائیں۔پولانی فیملی میں میاں بیوی اور تین بچے بھی اس جہاز میں سوار تھے ان کے لواحقین میں سے ایک نے ٹویٹ کیا کہ مردہ خانے کے باہر وقت گزارنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ایسی صورتحال میں سب سے اہم کام داد رسی‘ ہمددری اور شفقت کے بول بولنا ہوتا ہے‘ وہ کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ایک دن سوگ کے بعد سب واپس اپنی زندگی میں مگن ہوں گئے‘ لیکن ان کیلئے زندگی مشکل ہوگی جن کے پیارے اس سانحے میں چلے گئے۔لوگوں کی شناخت تکلیف دہ مرحلہ ہے کیونکہ بلندی سے گرنا پھر آگ لگ جانا‘ نعشوں کو مسخ کردیتا ہے اور ڈی این اے ایک طویل اور صبر آزما مرحلہ ہے اس لئے حکومت لواحقین کا ساتھ دے۔ فیصل ایدھی کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا ہے کہ کچھ لواحقین قانونی اجازت کے بغیر اجازت نامے کے ساتھ لاشیں لے گئے ہیں۔یہ نہیں ہونا چاہیے تمام لاشیں ڈی این اے رزلٹ کے ٹیسٹ کے بعد ہی دینی چاہیں۔ کوئی تو بولے ‘ لواحقین کو تسلی تو دے‘ حکومت اتنی خاموش کیوں ہے‘ وزیراعظم کہاں ہیں؟ سندھ حکومت کہاں ہے؟ کتنے لوگ لواحقین کے گھروں میں گئے؟کورونا کے باوجود اجلاس اور پریس کانفرنسیں چل رہی ہیں تو لواحقین سے مل لینے میں کیا قباحت ہے؟ اتنی خاموشی کیوں ہے‘یہ بہت بڑا قومی سانحہ ہے‘اس کے ساتھ اس سانحے میں تین خواتین گلی میں بھی جھلس گئیں ‘ یہ تنیوں زیرعلاج ہیں‘ ان کی مدد اور ان کے گھر والوں کی داد رسی کرنا بھی حکومت کا فرض ہے۔
کوئی تو بولے ‘ لواحقین کو تسلی تو دے‘ حکومت اتنی خاموش کیوں ہے‘ وزیراعظم کہاں ہیں؟ سندھ حکومت کہاں ہے؟ کتنے لوگ لواحقین کے گھروں میں گئے؟کورونا کے باوجود اجلاس اور پریس کانفرنسیں چل رہی ہیں تو لواحقین سے مل لینے میں کیا قباحت ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں