قرآن مجید میں ایسی بہت سی اقوام کا ذکر ہے‘ جن کے برے اعمال کی وجہ سے ان پر عذاب نازل کیا گیا۔اس کی بڑی وجہ سرکشی‘ کفر ‘ قتل وغارت‘ ناپ تول میں کمی‘ سود‘جنسی بے رہروی‘حق تلفی‘انبیا کی نافرمانی‘فسق وفجور تھی۔جن قوموں پر عذاب آیا ان میں قوم نوح ‘ قوم لوط ‘ عاد و ثمود ‘ اہل مدین اور بنی اسرائیل کا ذکر ہے۔حضرت موسیٰ ؑ کی قوم پر نافرمانی کی وجہ سے اللہ نے پانچ طرح کے عذاب مسلط کئے ‘جن میں بارش‘ طوفان‘ ٹڈیوں کا حملہ ‘ قمل کا عذاب اور ہر چیز کو گھن لگ جانا شامل تھا‘پھر مینڈک اور اس کے بعد خون کا عذاب آیا‘ نیزفرعون اپنے لشکر سمیت دریائے نیل میں ڈوب گیا۔قرآن پاک میں ان واقعات کو پڑھ کر ہم سب کو سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔
اس وقت پاکستان بھی دو وباؤں کی زد میں ہے‘ جس میں ایک توکورونا وائرس انسانی جانیں نگل رہا ہے اوردوسرے ٹڈی دل ہماری فصلوں کو چٹ کررہے ہیں۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اتنی شدید وبا میں سب اللہ تعالیٰ کے حضور جھک جاتے اور اپنے گناہوں پر نادم ہوتے‘ لیکن پاکستان میں اس وقت کچھ اور ہی ہورہا ہے‘جن قوموں پر عذاب آیا‘ ان کو اللہ نے بہت نعمتیں دے رکھی تھیں‘ لیکن انہوں نے ناشکری‘ سرکشی کی اور جرائم کا ارتکاب کیا‘ جس کے باعث اللہ کی ناراضی کا شکار ہوگئے‘جس وقت27 فروری کو میں نے پہلا کورونا وائرس پر آرٹیکل لکھا تو سب نے کہا کہ کیوں ڈرا رہی ہو؟ یہ ہمیں نہیں ہوگا‘ یہ صرف کفار کو ہوگا‘ لیکن ایسا نہیں ہوا کورونا وائرس دنیا بھر میں پھیل گیا اور ہر رنگ ونسل کو اس نے متاثر کیا۔پاکستان میں جس دن پہلا کورونا کیس سامنے آیا‘ بجائے اس کہ تاجر حضرات توبہ کرتے‘ انہوں نے ماسک اورسینی ٹائزرز تک چھپا لئے۔جس وقت جزوی لاک ڈاؤن چل رہا تھا‘ اس وقت بہت سے تاجروں نے گاہکوں سے من مانی قیمتیں وصول کی۔اس کے ساتھ عالمی ادارۂ صحت کے احکامات کو حکومت اور عوام نے ہوا میں اڑا دیا‘ گھومتے پھرتے رہے اوردعوتیں اڑاتے رہے‘ عید کی خریداری ضروری تھی‘ اس لئے عید کے بعد کورونا کے کیسز میں وہ شدت آئی ہے کہ اللہ کی پناہ۔ وبا کے دنوں میں ادویات ساز کمپنیوں اور پرائیوٹ ہسپتالوں نے بھی بیوپار کی ٹھان لی۔ سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کا لوڈ بہت زیادہ ہے تو جب مریض پرائیوٹ ہسپتال جاتے ہیں تو ان کی کھال تک اتارنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔لاکھوں روپے کے بل بنا دئیے جاتے ہیں اور مریض صحت یاب ہونے کی بجائے مقروض ہوجاتے ہیں۔اس کے ساتھ ایک انجیکشن ہے‘ جس کا نام ایکٹمرا(Actemra) ہے‘ یہ اینٹی وائرل ہے‘ اس سے قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے اور جسم میں انفیکشن اور سوزش کم ہوتی ہے‘ جو انجیکشن پہلے چند ہزار روپے کا مل رہا تھا‘ اب اس کی قیمت لاکھوں تک پہنچا دی گئی ہے۔پنجاب حکومت نے اس کو ایک ہزار مریضوں پر استعمال کیا اور دعویٰ کیا گیا کہ یہ مفت فراہم کیا جائے گا‘ جبکہ مارکیٹ میں یہ بلیک میں مل رہا ہے ۔اس کے ساتھ سنا مکی کے قہوے کے حوالے سے بھی یہ پوسٹ سوشل میڈیا پرگردش کررہی ہے کہ یہ کورونا کا علاج کیلئے استعمال ہوتی ہے ‘جبکہ سنا مکی قبض کشا ہے‘ اس کے زیادہ استعمال سے اسہال ہوسکتا ہے۔تاجروں کی حرکت ملاحظہ کریں کہ انہوں نے200 روپے میں ملنے والی سنا مکی کو ڈھائی ہزار روپے کلو تک پہنچا دیا ہے۔اس کے بعد پٹرول کا بحران آگیا‘ جیسے ہی قیمت کم ہوئی‘ پٹرول نا پید ہوگیا۔ اسلام آباد میں جب میں پٹرول پمپ گئی تو انہوں نے کہا کہ300 روپے سے زیادہ پٹرول گاڑی میں نہیں ملے گا‘ وہاں سے دوسرے پٹرول پمپ گئی توصرف 300 کا پٹرول ملا ۔پٹرول سستا کیا ہوا‘ ذخیرہ اندوزوں نے پٹرول کی فراہمی روک دی۔آئل کمپنیوں کے پاس ڈپووں میں وافر مقدار میں فیول ہوتا ہے‘ کیا یہ کمپنیاں جان بوجھ کر یہ سب کررہی ہیں؟وبا کے دنوں میں بھی یہ لوگ بے ایمانی سے باز نہیں آئے۔ اس وقت ایک لاکھ سولہ ہزار سے زائد کورونا کے کیسز پاکستان میں سامنے آچکے ہیں‘ جبکہ حکومتی حکمت ِعملی بری طرح ناکام نظر آتی ہے ۔غریب عوام بھوک کا شکار ہیں ‘ہزاروں لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں ‘مریض وینٹی لیٹرز نہ ہونے کی وجہ سے مر رہے ہیں‘ ان کے لواحقین ادویات اور وینٹی لیٹرز کیلئے سوشل میڈیا پر مدد مانگ رہے ہیں‘ دوائیاں مہنگی ہوگئی ہیں‘ تاہم حکومت کی رٹ کہیں نظر نہیں آرہی ہے۔
ساری دنیا اس وقت عالمی ادارۂ صحت کی طرف دیکھ رہی ہے‘ اس کی ہدایت پر عمل کررہے ہیں‘ تاہم ہماری حکومت خود کو عقل کل سمجھتی ہے۔ معاون خصوصی صحت نے عالمی ادارۂ صحت کی تجویز کو مسترد کردیا ہے ۔عالمی ادارۂ صحت نے خبردار کیا تھا کہ پاکستان کم ازکم دو ہفتہ مکمل لاک ڈاؤن کرے اور روزانہ 50 ہزار ٹیسٹ کرے۔ بائیس مئی کو لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد کورونا تیزی سے پھیلا۔عالمی ادارہ کہتا ہے لاک ڈاؤن میں نرمی وہاں ہوتی ہے ‘جہاں صحت کا نظام اچھا ہو ‘ وبا قابو میں ہو‘ حفظان صحت کے اصولوں پر عمل کیا جارہا ہو‘وبا سے بچنے کیلئے حفاظتی انتظامات مکمل ہو‘ تاہم یہ سب نہیں ہونے کے باوجود لاک ڈاؤن کو کھول دیا گیا۔وبا کے دوران کاروبار ہورہا ہے‘ نہ ہی اشیا خورونوش مہنگی کرے والو کو کچھ کہا جارہا ہے‘ نہ ادویات مہنگی کرنے والے کسی کو جواب دہ ہیں‘ نہ ہی دوائیوں کو بلیک میں بیچنے والو کو کچھ کہا جارہا ہے ‘پٹرول کی ذخیرہ اندوزی کرنے والے آزاد ہیں۔وبا میں منافع کمانے والے بیوپاری روزِ قیامت اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے؟ سوچتی ہوں کہ اس قوم پر اب‘ اللہ کا کون سا عذاب آئے گا؟