ہیروز کی قدر کریں!

گارڈ کی بھی کیا نوکری ہوتی ہے بہت ہی سخت اور لمبے ڈیوٹی کے اوقات کار‘ موٹے کپڑے کی نیلی یا کالی وردی کے ساتھ پرانے جوتے‘ پرانا اسلحہ دے کر ان کو سکیو رٹی پر معمور کردیا جاتا ہے۔ کبھی بلٹ پروف جیکٹ دی جاتی ہے تو کبھی اس کے بغیر ہی کام چلایا جاتا ہے۔ گرمی ہو یا سردی ‘ یہ سارا دن موسم کی شدت کو برداشت کرتے ہیں۔سخت دھوپ اور بارش میں بھی یہ اپنی ڈیوٹی دیتے رہتے ہیں۔کھانے میں جو روکھی سوکھی مل جائے کھالیتے ہیں‘پر اپنا کام ایمانداری سے کرتے ہیں۔سردی میں ڈیوٹی دیتے وقت آگ جلا کر یہ سردی کو بھگاتے ہیں اور گرمیوں میں آگ لگا کر مچھروں کو بھگاتے ہیں۔کچھ لوگ انہیں ٹین کی ڈربہ نما جگہ بنادیتے ہیں جس کو گارڈ کا ہٹ کہا جاتا ہے‘ اس میں ایک کرسی ایک ڈنڈا یا اسلحہ ہوتا اس کے علاوہ پنکھا یا ریڈیو نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی‘پھر بھی یہ شکوہ زبان پر لائے بغیر بھاگ بھاگ کر گیٹ کھولتے بند کرتے ہیں‘ مسکرا کر سب کو سلام کرتے ہیں ‘شاید ہی جواب ملتا ہو‘ لیکن مشکلات بھی ان کے اخلاق اور محنت کشی کو متاثر نہیں کرتی۔مہینے کے آخریا اگلے مہینے کے شروع میں انہیں پندرہ سے بیس ہزار کے درمیان تنخواہ ملتی ہے۔اس کے علاوہ کوئی ہیلتھ انشورنس‘ کوئی مراعات نہیں ملتیں۔اتنی قلیل آمدنی میں صرف گھر کا چولہا جلتا ہے باقی خواب ادھورے رہ جاتے ہیں۔ نہ بچے پڑھ پاتے ہیں نہ ہی سر چھپانے کی چھت بناپاتے ہیں۔اس طرح جو سکیورٹی اہلکار اور سپاہی ناکوں اور سڑکوں پر کھڑے ہوتے ہیں ان کے لئے بھی ڈیوٹی آسان نہیں۔ گرم‘ سرد موسم میں ان کو گھنٹوں ڈیوٹی دینا ہوتی ہے۔لوگ ان سے لڑتے ہیں‘ دھونس جماتے ہیں وہ پھر بھی خندہ پیشانی سے اپنا کام کرتے ہیں۔کسی کو اس چیز کی پروا نہیں ہوتی کہ ان کے سر پر سایہ ہے یا نہیں‘ ان کو پانی یا کھانا ملا ہے یا نہیں؟اگر کوئی ان سے بھول چوک ہوجائے توسب ان پر ہی انگلیاں اٹھاتے ہیں ‘لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ ان کی ڈیوٹی کتنی سخت ہے۔وہ پھر بھی اپنا کام جاری رکھتے ہیں تاکہ ہم سب کو دہشتگردی سے بچاسکیں۔
چاہے گارڈز ہو ں یا ناکوں پر کھڑے پولیس یا سکیورٹی فورسز کے سپاہی‘ سب ہماری حفاظت کے لئے کام کررہے ہیں۔جب ان کو وی آئی پیز کی حفاظت پر مامور کیا جاتا ہے تو وی آئی پیز ان کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے۔شاید ہی اشرافیہ میں سے کوئی اپنے گارڈز یا سکیورٹی پر مامور اہلکاروں کو ذاتی طور پر جانتا ہو‘ یا انہیں اس بات کا علم ہو کہ ان کی کیا تنخو اہ ہے ‘ان کی زندگی میں کیا مسائل ہیں؟وہ ان کے لئے سارا سارا دن اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ان کی حفاظت کرتے ہیں‘ ان کے لئے اپنی جان پر بھی کھیل جاتے ہیں‘ لیکن یہ بڑے لوگ ان کے لئے ایک تعزیتی پیغام دے کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ان کے لواحقین دربدر ہوجاتے ہیں‘ لیکن امیر لوگ نہ ہمدردی کرتے ہیں اور نہ ہی ان کی مالی مدد کرتے ہیں۔حکومت بھی کچھ معاملات میں بے حسی دکھا جاتی ہے۔
پاکستان سٹاک ایکس چینج کراچی پرحملہ ہوا ‘ جو بھارتی را اور بی ایل اے کی طرف سے پلان کیا گیا تھا۔دہشت گردوں کے پاس جدید اسلحہ تھا‘ دستی بم تھے‘ ان کا مقابلہ گارڈز اور پولیس نے کیا‘ ان کے پاس کیا تھا؟ پرانا اسلحہ‘ ٹوٹی ہوئی بلٹ پروف جیکٹس‘ لیکن انہوں جذبۂ ایمانی اور فرض شناسی کے ساتھ وطن اور اہل وطن کے لئے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا۔انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ ان کی تنخواہ کم ہے یا ان کے بعد ان کے غریب گھر والوں کا کیا ہوگا ۔ان کا مقصد صرف اپنے ملک کی اہم تنصیبات کو بچانا تھا‘ جہاں اربوں کا بزنس ہوتا ہے‘ جہاں بیک وقت ہزاروں لوگ موجود ہوتے ہیں۔ان فرض شناسوں نے کسی دہشت گرد کو عمارت کے اندر نہیں داخل ہونے دیا۔چاروں دہشت گردوں کو دروازے پر ہی ڈھیر کردیا۔روز یہاں سے ہزاروں لوگ گزرتے ہیں‘ یہ سب کو پہچانتے ہوںگے‘ ان کو شاید ہی کوئی دیکھتا ہو‘ لیکن انہوں نے حملے کے وقت صرف آٹھ منٹ میں دہشت گردوں کو ڈھیر کردیا۔
اس سانحے میں تین سکیو رٹی گارڈ اور ایک سب انسپکٹر نے جامِ شہادت نوش کیا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ غازیوں کی تاج پوشی ہوتی‘ ان پر پتیاں نچھاور کی جاتیں۔شہدا کے ورثا کو دلاسہ دیا جاتا ‘بڑی شخصیات جنازہ پڑھتیں‘ ان کے خاندانوں کی ذمہ داری خود لے لی جاتی۔ہر طرف میڈیا پر اور سوشل میڈیا پر شہدا کی اور غازیوں کی تصاویر ہوتیں‘ عام شہری بھی ان کو خراج تحسین پیش کرتے‘ لیکن پتہ نہیں ہمیں اپنے ہیروز کی قدر کیوں نہیں؟چاروں شہید ہونے والے غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے‘ لیکن دل سے امیر تھے‘ اتنے امیر کہ وقت پڑنے پر اپنی سب سے قیمتی چیز یعنی اپنی جان اپنے ملک کے لئے دے دی۔
سندھ پولیس کے انسپکٹر شاہد نے اپنی جان دے دی لیکن را اور بی ایل اے کے دہشت گردوں کو کراچی سٹاک ایکسچینج میں داخل نہیں ہونے دیا۔باریش شاہد کے خاندان والے اس بات پر نازاں ہیں کہ انہوں نے پاکستان کے لئے جان دی‘ لیکن دوسری طرف پریشان بھی ہیں کہ زندگی کیسے چلے گی؟انہوں نے اپیل کی ہے کہ شہید کے بچوں کو نوکری دے دی جائے‘مگر میں یہاں کہوں گی کہ اربوں کا کاروبار کرنے والے کیا اس خاندان کو ایک گھر تحفے میں نہیں دے سکتے ؟کیا شہید کے بچوں کے سر پر دستِ شفقت نہیں رکھ سکتے؟ان کاروباری افراد کو تو چاہیے کہ ان لواحقین کو سونے اور موتیوں میں تول دیتے ‘لیکن تاحال کسی کی طرف سے مالی امداد کا کوئی اعلان بھی سامنے نہیں آیا۔
اس کے ساتھ تین گارڈز نے بھی جامِ شہادت نوش کیا‘ سکیو رٹی گارڈ حسن علی شہید کی بہن بھی اسی روز انتقال کرگئی جس روز انہوں نے جام شہادت نوش کیا۔سکیو رٹی گارڈ افتخارواحد شہید نے دو دن بعد ریٹائر ہوجانا تھا ‘کمپنی ان کو نکال رہی تھی‘ لیکن فرض شناسی دیکھیں جس جگہ نوکری کی وہاں ہی جان دے دی۔ اس ملک اور اس کے عوام پر جان نچھاور کردی۔وہ پیچھے پانچ بچے چھوڑ گئے ہیں‘ جن میں سے ایک خصوصی بچہ ہے۔اس خاندان کی کفالت حکومت کے ساتھ کراچی سٹاک ایکس چینج کی امیر کاروباری شخصیات کو اپنے ذمے لینی چاہیے۔سکیورٹی گارڈ خدا یار شہید نے بھی دشمن کے دانت کھٹے کردیے اور جان وطن پر نچھاور کردی۔اس کے ساتھ زخمی ہونے والے بھی حکومت کی توجہ کے مستحق ہیں۔ 18 ہزارکمانے والے مہنگے علاج نہیں کرواسکتے۔یہاں پر غازی بھی ہماری داد و تحسین کے مستحق ہیں۔
سندھ کے صوبائی وزیرسعید غنی کا کردار اس دوران قابلِ تحسین رہا‘ وہ تینوں شہید ہونے والے سکیورٹی گارڈز کے گھر گئے اور ان سے اظہار تعزیت کیا۔این ٹی آر ریلوے کالونی میں شہید سکیورٹی گارڈ افتخار واحد کے گھر گئے اور اہل خانہ سے تعزیت کی‘لیاری کھڈہ مارکیٹ میں شہید سکیورٹی گارڈحسن بچو کے گھر گئے ‘تعزیت اور دعا کی‘ اس کے ساتھ مومن آباد اورنگی ٹاون گئے جہاں شہید سکیورٹی گارڈ خدا یار کے اہل خانہ سے ملے۔یہ بہت اچھا اقدام ہے‘ اس سے لواحقین کے دل کتنے بڑے ہوگئے ہوں گے۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے سٹاک ایکسچینج حملے میں شہید اور زخمی ہونے والوں کے لواحقین کے لئے معاوضے کا اعلان کیا ہے۔انہوں نے سب انسپکٹر شاہد شہید کے لواحقین کے لئے ایک کروڑ اور بیٹے کو سرکاری نوکری دینے کا اعلان کیا اور کہا کہ تین شہید ہونے والے گارڈز کے لئے 50 لاکھ فی خاندان منظور کرایا جائے گا۔اس کے ساتھ زخمیوں کی دس لاکھ سے مالی معاونت کی جائے گی۔یہاں پر یہ بات بھی اہم ہے کہ جن کمپنیوں نے ان گارڈز کو ہائر کیا تھا وہ ان کے لئے کیا کررہے ہیں؟ ان کی تنخواہ صرف 18 ہزار تھی اور ڈیوٹی 12 گھنٹے تھی۔اس کمپنی پر سب سے پہلے ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سکیورٹی گارڈز کے خاندانوں کی مالی معاونت کرے۔پیسے سے ہم ان کی قربانی کا قرض نہیں اتار سکتے ‘لیکن اس سے ان کو مالی معاملات چلانے میں مدد ملے گی‘ کیونکہ اب ان کے گھروں کے کمانے والے نہیں رہے۔اس کے ساتھ ان کے لئے گورنر ہاؤس اور ایوانِ صدر میں تقاریب منعقد کی جائیں اور تمغوں اور اسناد سے نوازا جائے۔اپنے ہیروز کی قدر کرو‘ جب وہ وطن کے لئے جان دینے سے نہیں کترائے تو حکومت کس سوچ میں مگن ہے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں