کچھ تصویریں ایسی ہیں جو بولتی ہیں اور دنیا کی سفاکی‘ ظلم و بربریت سامنے لا تی ہیں۔ ان تصویروں سے ظالم کے ظلم آشکار ہوتے ہیں اور مظلوم کیلئے حساس لوگوں کا دل کانپ جاتا ہے۔جب بھی جنگیں ہوتی ہیں سب سے زیادہ ظلم کا نشانہ بچے بنتے ہیں۔جنگ ان سے ان کے پیارے چھین لیتی ہے‘ وہ دربدر ہوجاتے ہیں‘ ان پر تشدد اور ظلم ہوتا ہے۔بچے نفسیاتی اور جسمانی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔کاش یہ جنگیں نہ ہوں تاکہ بچوں سے ان کا بچپن نہ چھینا جائے۔
ویتنام جنگ کی 1972 ء میں ایک تصویر منظر عام پر آئی جس میں پانچ بچے روتے ہوئے بھاگ رہے تھے اور ان کے عقب میں فوجی اور دھواں تھا۔ اس میں ایک بچی کے بدن پر کپڑے بھی نہیں تھے‘ وہ روتی ہوئی بھاگ رہی تھی‘ اس بچی کو نیپام گرل (Napalm Girl) کا نام دیا گیا۔ اس بچی کا اصل نام کم پھک تھا۔یہ تصویر امریکی ادارے کے ساتھ منسلک فوٹوگرافرنک اوٹ نے کھینچی تھی جس کو پولٹزر پرائز ملا۔کم پھک اب پچاس کا ہندسہ پار کرگئی ہے‘ کینیڈا میں رہتی ہے اور اقوام متحدہ کے ساتھ جنگ میں متاثرہ بچوں کیلئے کام کررہی ہیں ‘ ان کوعالمی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔
جس وقت نک اوٹ نے کم پھک کی تصویر لی تھی اس کے کپڑوں کو آگ لگ گئی تھی‘ کپڑے جل کر اس کے بدن سے اتر گئے تھے۔نک نے ننھی کمِ پر پانی ڈالا اور اس کو ہسپتال لے گئے۔آج بھی اُس کے جسم اور کپڑوں پر لگی آگ کے نشان اس کے جسم پر موجود ہیں اور ان کا علاج اب تک ہورہا ہے۔اس کے بعد افغان بچی کی تصویر دنیا کے سامنے آئی۔ سٹیو میکری نے 1985ء میں یہ تصویر بنائی تھی۔اس تصویر کو افغان مونا لیزا کہا گیا اور تصویر افغان جنگ اور عام شہریوں پر جنگ کے اثرات کی عکاسی کرتی ہے۔اس بچی کی آنکھوں کی خوبصورتی اور ان میں چھپے درد نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔2002ء میں اس کی شناخت دنیا کو معلوم ہوئی ‘وہ پاکستان میں مقیم ہے اور اس کا نام شربت گُل ہے۔وہ شادی شدہ ہے اور اس کے تین بچے ہیں‘ وہ سب ناصر باغ مہاجر کیمپ میں رہائش پذیر ہیں۔
شربت گُل کیلئے زندگی کا سفر آسان نہ تھا‘ اس نے خود اپنی شہرہ آفاق تصویر پہلی بار 2002ء میں دیکھی اور اس کے وطن افغانستان میں آج بھی جنگ جاری ہے۔جعلی شناختی کارڈ رکھنے پر شربت گل کو گرفتار بھی کرلیا گیا تھا۔ اس وقت بہت سے حلقوں نے یہ مطالبہ کیا تھاکہ انہیں پاکستان کی شہریت اعزازی طور پر دے دی جائے۔
2015 ء میں ایک بہت پیاری بچی کی تصویر منظر عام پر آئی‘ گول مٹول چہرہ‘ بڑی بڑی حیران آنکھیں اور اوپر اٹھے ہاتھ یہ تصویر ترکی کے فوٹوگرافر عثمان ساگرلی نے کھینچی تھی۔ جس وقت انہوں نے کیمرہ اس بچی کے سامنے کیا اس نے ڈر کر ہاتھ اٹھا لیے وہ سمجھی شاید فوجی ہے ‘بندوق نکال رہا ہے۔یہ تصویرشام کے ایک مہاجر کیمپ میں لی گئی تھی ۔اس بچی کا نام ایدی ہادیہ تھا۔اس جنگ میں شام کے بچوں نے بھاری قیمت چکائی‘ حلب میں جب بمباری کی گئی تو تباہ ہونے والی عمارت میں سے ایک بچہ زندہ نکلا‘ وہ خون ‘ مٹی اور دھوئیں سے ایسا لگ رہا تھا جیسے پتھر کا ہوگیا ہو۔اس بچے کاعمران داقنیش تھا اور اس کی تصویر ایمبولینس میں لی گئی تھی۔2015 ء میں ہی جنگ سے تنگ ایک خاندان سمندر کے راستے محفوظ جگہ پر جانا چاہتا تھا۔ اس خاندان کے سربراہ عبداللہ نے غیرقانونی طور پر بارڈر پارکرانے والوں کو رقم دی اور ان کا خاندان کشتی پر سوار ہوگیا۔طوفان نے ان کی کشتی کو کنارے نہیں لگنے دیا اور ننھا ایلان کردی اپنے بھائی اور والدہ سمیت ڈوب گیا اور ننھی لاش ترکی میں بودرم کے ساحل سے ملی۔ایلان کردی کا بے جان وجود ساحل کی ریت میں اوندھے منہ پڑا تھا۔لال رنگ کی شرٹ‘ نیلی نیکر اور کالے جوتے پہنے ایلان ابدی نیند سوگیا ‘لہریں اس کے وجود سے ٹکرارہی تھیں۔وہ محفوظ مقام پر پہنچ گیا تھا‘ لیکن زندہ نہیں تھا۔ ساری دنیا اس تصویر کو دیکھ کر غم زدہ ہوگئی۔صدر طیب اردوان نے اس سانحے پر غم و غصے کا اظہار کیا۔ترکی کی عدالت نے ان انسانی سمگلرز کو 125 سال کی سزا سنائی۔صدر اردوان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے ایلان کردی کی تصویر سب کو دکھائی اور کہا کہ انسانیت کی قسمت مٹھی بھر ممالک کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ جاسکتی۔
اسہی طرح 2017 ء میں ایک روہنگیا مسلمان بچے کی کیچڑ میں لپٹی ہوئی تصویر سامنے آئی‘ اس کے خاندان نے میانمار میں مظالم سے تنگ آکر بنگلہ دیش جانے کی کوشش کی لیکن کشتی ڈوب گئی اور ننھا شوہات پانی میں ڈوب گیا ۔بعد میں اس کی لاش ریت سے ملی۔یمن میں بھی پانچ سال سے جنگ جاری ہے‘ اس جنگ میں بھی سب سے زیادہ بچے متاثر ہوئے ہیں۔ انہیں بیماریوں اورغذا کی قلت کا سامنا ہے۔اتنا کچھ منظر عام پر آنے کو باوجود آج بھی ظلم جاری ہیں‘ جنگیں بھی جاری ہیں اور بچے اسہی طرح ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے بچوں کو قتل کیا جارہا ہے‘ ان پر تشدد کیا جارہا ہے‘ ان کی بینائی چھینی جارہی ہے‘ ان کو تعلیم کا حق حاصل نہیں اور اب تو وادی میں انٹرنیٹ کی بھی بندش ہے۔بھارتی فوج ان بچوں کو اغوا کرکے لے جاتی ہے‘ ان پر تشدد کرتی ہے اور بعد میں ان کی لاشیں پھینک کر کہتے ہیں یہ عسکریت پسند تھے‘ حالانکہ وہ بچے معصوم ہوتے ہیں‘ ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔بھارتی فوجیوں نے کشمیر میں بچوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے ہیں۔ بچوں کے والدین کو قتل کرکے انہیں یتیمی کے دکھ دیے ہیں۔ عقوبت خانوں میں ان پر تشدد کیا گیا‘ ان کے ناخن اکھاڑ دیے گئے ‘کچھ کو زخمی حالت میں پھینک دیا جاتا ہے تو کچھ کی جان لے کر بھارتی فوج ان کو میڈیا کے سامنے ''آتنک وادی‘‘ بنادیتی ہے ‘ مگر وہ معصوم ہوتے ہیں۔2016 ء میں دس ہزار کشمیری سویلینز کو پیلٹ گن سے نشانہ بنایا گیا۔سری نگر میں گیارہ سال کے آٹھویں کلاس کے طالب علم ناصر شفیع قاضی لاپتہ ہوئے‘ بعد میں اس معصوم بچے کی لاش ملی‘ اس کا بازو ٹوٹا ہوا تھا اور اس کے جسم میں چار سو سے زائد پیلٹ گن کے چھرے پیوست تھے۔اس معصوم بچے کے جسم پر تشدد کے نشان بھی تھے اورسر کے بال بھی نوچ دئے گئے تھے۔2016ء میں شوپیاں کی انشہ مشتاق نابنیا ہوگئیں کیونکہ بھارتی فوجیوں نے پیلٹ گن اس کی طرف فائر کی تھی۔پھر ننھی حبا دنیا کے سامنے آئی جس کی ایک آنکھ کی بینائی پیلٹ گن سے متاثر ہوئی۔ اس کی دائیں آنکھ میں چھرے لگے جس سے وہ شدید تکلیف میں مبتلا ہوگئی‘ آنکھ سے خون بہنے لگا۔یاد رہے پیلٹ گن شکاری استعمال کرتے ہیں‘ یہ ایک شاٹ گن ہوتی ہے جس سے بیک وقت پانچ سو چھرے نکلتے ہیں یہ جانوروں اور انسانوں کیلئے بہت مہلک ہوتے ہیں۔ 2018ء میں آٹھ سال کی آصفہ کو اغوا کیا گیا‘ اس کو مندر میں رکھا گیا‘مسلسل بے ہوشی کی دوائیاں دی گئیں‘ ریپ ہوتا رہا اور اس کو مار دیا گیا۔جب اس کی لاش ملی تو اس کی ٹانگیں اور بازو ٹوٹے ہوئے تھے ‘پورے جسم پر نیل تھے ‘ گلا دبا ہوا تھا اور سر پتھر سے کچل دیا گیا تھا۔کشمیری مسلمان بچی کا ریپ کرنے والے ہندو تھے اور بی جے پی نے ان کا ساتھ دیا‘ جبکہ پانچ اگست2019 ء کے بعد سے 31 ہزار نوجوانوں کو بھارتی فوج نے اغوا کرلیا۔
اب پھر وہی بربریت کی تاریخ دہرائی گی‘ سوپور سے تعلق رکھنے والے تین سالہ عیاد کے سامنے اس کے نانا کو بھارتی فوجیوں نے قتل کردیا۔ اپنے نانا کی لاش پر بیٹھ کر وہ معصوم بچہ رو رہا تھا اور بھارتی فوجیوں سے ڈر رہا تھا۔ یہ تصویر جب منظرعام پر آئی تو سب لوگ شدید رنج میں مبتلا ہوگئے۔ ننھا عیاد اپنے نانا کے ساتھ سوپور جارہا تھا کہ بھارتی فورسز نے ان کو گاڑی سے نکال کر مار دیا۔جب عیاد واپس اپنے گھر پہنچا تواس نے بتادیا کہ اس کے نانا کو بھارتی فوجیوں نے ہی مارا ہے۔عیاد کے اس بیان کے بعد بھارت کا مکروہ چہرہ مزید بے نقاب ہوگیا ہے۔میں یہ کہوں گی کہ ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے‘ بھارت کشمیریوں کا حق ِخود ارادیت زیادہ دیر تک روک نہیں پائے گا‘ ان مظالم کے جواب میں قہرِ خداوندی ضرور برپا ہو گا اور ظالم ہر جگہ نیست و نابود ہوجائیں گے۔