سائبر کرائم میں اضافہ اور اس سے بچاؤ…(2)

سائبر سپیس میں ہم خود کو کیسے محفوظ بناسکتے ہیں؟ اس کے لئے بہت سی احتیاط اور بیشمار طریقے ہیں۔ سب سے پہلے تو خواتین کے زیر استعمال فون اور لیپ ٹاپ بازار میں نہ بیچے جائیں۔ یہ اگر پرانے ہو جائیں تو گھر کے کسی اور فرد کے استعمال میں لے آئیں لیکن بازار میں مت لے کر جائیں۔ اکثر نجی تصاویر اور وڈیوز فون مرمت یا فروخت کرانے میں لیک ہو جاتی ہیں۔ خواتین کے زیر استعمال پرانا فون بھلے توڑ دیں لیکن مارکیٹ میں مت بیچیں۔
سوشل میڈیا استعمال کرتے وقت کچھ ضابطے بنائیں؛ اپنی تصاویر پبلک کے لئے اوپن نہ کریں نہ ہی ٹیگ پبلک کریں، اجنبیوں سے بات کرنے سے گریز کریں۔ فیس بک پر فرینڈ ریکویسٹ کی آپشن بند کر دیں۔ خواتین کی ڈی پیز بھی چوری ہو جاتی ہیں، اس کے لئے اپنا نام اس پر بڑا کرکے لکھ دیں؛ کاپی تو پھر بھی ہوجائے گی لیکن قابلِ استعمال نہیں رہے گی۔ بہت سی خواتین کی تصاویر فوٹو گرافرز کے پیج سے بھی چوری ہو جاتی ہیں‘ اس لئے ان کو پابند کیا جائے کہ بنا اجازت تصویر اَپ لوڈ نہ کریں۔
ٹویٹر یا فیس بک پر اگر آپ کو اپنے نام سے کوئی فیک اکائونٹ نظر آئے تو اپنے سب جاننے والوں کو کہیں کہ اس کو مشترکہ طور پر رپورٹ کریں، اس طرح وہ اکائونٹ بلاک ہو جائے گا۔ اپنے اکائونٹس کو دو طریقوں سے محفوظ کریں؛ ایک ای میل کے ساتھ منسلک کرکے، دوسرا موبائل فون نمبر کے ذریعے، اس سے آپ کا اکائونٹ ہیکنگ سے محفوظ رہے گا۔ کسی بھی پبلک مقام پر یا نیٹ کیفے پہ اپنا بینکنگ اکائونٹ ہرگز نہ کھولیں، ایسی جگہوں سے ہیکنگ کا سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ اپنا پاسورڈ کسی سے بھی مت شیئر کریں؛ اگر کبھی بھی‘ کوئی بھی آپ سے پاسورڈ مانگے تو اس کو ہرگز مت دیں۔ اکثر ہیکرز گروہوں کی شکل میں کام کرتے اور لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں۔ انٹرنیٹ بینکنگ کو صرف اپنے فون اور ذاتی لیپ ٹاپ پر ہی استعمال کریں۔ بینک اکائونٹ کا ایس ایم ایس اور ای میل الرٹ سبسکرائب ضرور کریں۔
اگر اپنا فون بیچنا ضروری ہو تو اس میں سے تمام چیزیں کاپی کریں اور فون سے ڈیٹا ڈیلیٹ کردیں۔ اس کے بعد فون کو فیکٹری ری سیٹ کریں۔ اپنا گوگل اکائونٹ یا آئی کلائوڈ لاگ آئوٹ کر دیں اور فون سے اپنی سم اور میموری کارڈ نکال لیں۔ اس کے بعد دوبارہ فون میں غیر ضروری وڈیوز، تصاویر اور ڈیٹا بھریں (اس بار کوئی پرسنل ڈیٹا نہ ہو) اس کے بعد سارا ڈیٹا دوبارہ تلف کر دیں۔ یہ عمل دو‘ تین بار دہرایں۔ آج کل فون چوری عام ہے تاہم آئی ایم ای آئی نمبر سے آپ کا فون مل سکتا ہے۔ اگر فون چوری ہو جائے تو اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ پر اس کو پوسٹ کریں اور تمام پاسورڈز تبدیل کر دیں۔ اپنے فون پر پاسورڈ ضرور لگائیں اور بائیو میٹرک یا چہرے کی شناخت والا پاسورڈ لگائیں۔ اسی طرح اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس کے پاسورڈ طویل اور مشکل رکھیں اور ان میں ہندسے اور ایلفابیٹ دونوں شامل ہو۔ کبھی بھی اپنا یا کسی فیملی ممبر کا نام یا اپنی تاریخ پیدائش پاسورڈ نہ بنائیں۔ کسی بھی ایسے لنک کو مت کھولیں جس پر کسی تحفے کا لالچ دیا گیا ہو، زیادہ تر وائرس ایسے لنکس کو کھولنے سے ہی آتے ہیں۔اپنے وائی فائی کے پاسپورڈ اور یوزر نیم‘ جو کمپنی کی طرف سے دیے گئے ہیں‘ فوری چینج کر دیں اور مشکل اور طویل یوزر نیم اور پاسورڈ رکھیں۔ جس وقت انٹرنیٹ استعمال میں نہ ہو‘ ڈیوائس کو بند کر دیں۔ ویب کیم (Web Cam) بھی ہیک ہو سکتے ہیں؛ اگر آپ یہ استعمال نہیں کرتے ہیں تو کیمرے پر ٹیپ لگا دیں۔ کبھی بھی نجی لمحات کو فلمبند نہ کریں نہ ہی اپنی ایسی تصاویر یا وڈیوز کا تبادلہ کریں اور نہ ہی ویب کیم پر ایسا کوئی کام کریں جو بعد میں پشیمانی کا باعث بنے۔ حال ہی میں ایک خاتون کے ساتھ ایسا ہوا‘ وہ اپنے شوہر سے ویب کیم کے ذریعے بیرونِ ملک بات کرتی تھی اور اس کا لیپ ٹاپ اُس شخص نے ہیک کر لیا جس سے اس نے لیپ ٹاپ کی سروس کرائی تھی۔ وہ شخص بعد ازاں دونوں میاں بیوی کو بلیک میل کرنے لگا، اس لئے اپنی حفاظت خود کریں اور کیمرے کے سامنے لباس اور گفتگو کا خاص خیال رکھیں۔اپنی ڈیوائس پر اینٹی وائرس ضرور انسٹال کریں اور غیر مستند ایپس کو ڈائون لوڈ مت کریں۔ بچوں کو وی پی این مت ڈائون لوڈ کرنے دیں اور خود کو بھی فحش ویب سائٹس سے دور رکھیں، یہ بھی پورا سسٹم ہیک کر لیتی ہیں۔ جب بھی آن لائن خریداری کریں تو ہر فیس بک‘ انسٹا گرام اکائونٹ، گروپ اور پیج پر بھروسہ نہیں کریں، صرف بڑے برینڈز یا ایسے اکائونٹس سے شاپنگ کریں جن کو صارفین کی طرف سے اچھے ریویو ملے ہوں۔ اگر آپ آن لائن شاپنگ کر رہے ہیں تو کیش آن ڈلیوری آپشن پر کلک کریں، اگر کارڈ سے خریداری کر رہے ہیں تو ایسا صرف بڑے برینڈز پر کریں، ان کے ساتھ ایسی شاپنگ محفوظ ہے۔اگر آپ پبلک لائف میں ہیں تو اپنے گھر والوں کیلئے الگ نمبر اور سوشل میڈیا اکائونٹ بنائیں اور پبلک کیلئے الگ۔ غیر ضروری گروپس میں ایڈ مت ہوں اور اپنی لائیو لوکیشن اور چیک اِن شیئر مت کریں۔ مہنگی چیزوں کی نمائش مت کریں اور سوشل میڈیا پر یہ بھی مت پوسٹ کریں کہ آپ سفر میں ہیں۔ کسی پبلک مقام پر انٹرنیٹ یوز کرکے اپنی ہسٹری ڈیلیٹ کر دیں اور اپنے اکائونٹس یاد سے لاگ آئوٹ کریں۔ فری وائی فائی پر اپنی نجی چیزوں تک رسائی مت دیں۔ سب سے زیادہ لوگ فلیش ڈرائیو؍ یو ایس بی گم ہونے کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں، اس کو کی چین کے ساتھ لگائیں، اس طرح اس کے گم ہونے کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ اس میں بھی نجی دستاویزات اور تصاویر مت رکھیں۔کوئی بھی شخص آپ سے حساس معلومات مانگے تو اس شخص کے نمبر کو فوری بلاک کر دیں۔ کسی بھی شخص کو اپنا شناختی کارڈ نمبر یا اس کی فوٹو کاپی مت دیں، اگر کسی کام میں یہ دینا ضروری ہو تو اس پر دو لائنیں کھینچ کر اس کام کا لکھ کر دیں۔ اپنا انگوٹھا کہیں مت لگائیں۔ اپنی دستاویزات جیسے شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس اور پاسپورٹ وغیرہ ہرگز کسی کو مت دیں، اسی طرح پراپرٹی کے کاغذات لاک میں رکھیں۔
ٹویٹر‘ فیس بک‘ انسٹاگرام‘ یوٹیوب وغیرہ پر صرف مستند اور اصل اکائونٹ کی خبر کو شیئر کریں اور جعلی اکائونٹس کو رپورٹ اور بلاک کریں۔ اس وقت بچے اور خواتین سب سے زیادہ آن لائن ہراسگی کا شکار ہو رہے ہیں، بلیک میلنگ کی وجہ سے اکثر افراد خودکشی کر لیتے ہیں، اس لئے ہمیں سائبر قوانین کی سزائوں پر عملدرآمد اور انصاف کے نظام کو مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ سائبر کرائم کی زد میں آ جائیں تو گبھرانے یا بلیک میل ہونے کے بجائے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو شکایت کریں۔ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ انسٹاگرام، ٹویٹر اور فیس بک پر موجود ہے، ان سے وہاں مدد لی جا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ دفتر بھی جایا جاسکتا ہے تاکہ آپ کے مسئلے کا حل نکل سکے۔ اس کے ساتھ سائبر ریسکیو ہیلپ لائن 9911 پر کال کریں اور سٹیزن پورٹل پر بھی شکایت درج کروائی جا سکتی ہے۔ 11 اگست 2016ء کو الیکٹرونک جرائم کے تدارک کے لئے سائبر کرائم ایکٹ کی منظوری دی گئی تھی جس کے تحت کسی کے ڈیٹا پر غیر قانونی رسائی پر 3ماہ قید اور جرمانہ، ڈیٹا کی چوری پر 6ماہ قید و جرمانہ، جرم کی تشہیر پر 7سال قید و جرمانہ اور سائبر سپیس پر دہشت گردی پر 14سال قید کی سزا ہے۔ کسی کے شناختی کارڈ کے غلط اور بنا اجازت استعمال پر اور کسی کے نام پر کا غیر مجاز سم کا اجرا اور سائبر سٹاکنگ پر 3سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ کسی شخص کے خلاف بے بنیاد معلومات شیئر کی جائیں تو اس پر 3سال قید، کسی کی تصاویر کو فوٹو شاپ کرنے، عریاں تصاویر اَپ لوڈ کرنے پر 5سال قید کی سزا ہے اور نفرت آمیز مواد کی تشہیر پر 7سال قید کی سزا ہے۔ سوشل میڈیا احتیاط کے ساتھ استعمال کریں‘ کسی بھی شخص کا اکائونٹ ہیک کرنا، اس کی عزت سے کھیلنا، ڈیٹا کی چوری، آن لائن ہراسان کرنا، جعلی شناخٹ، نفرت آمیز مواد، غیر قانونی سم کا اجرا اور چوری کی ڈیوائس استعمال کرنا سائبر کرائمز ہیں‘ اس کام سے دور رہیں اور سائبر سپیس کو سب کے لئے صاف رہنے دیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں