سوشل میڈیا کا مثبت اور منفی استعمال

نشر و اشاعت، ابلاغ اور باہمی رابطوں میں سوشل میڈیا کی بہت اہمیت ہے۔ سوشل میڈیا نے دنیا کو سمیٹ کر موبائل اور لیپ ٹاپ میں بند کر دیا ہے۔ ہر انسان دوسرے کے ساتھ سوشل میڈیا پر رابطے میں ہے۔ کورونا کی وبا جس وقت اپنے عروج پر تھی‘ سوشل میڈیا کی وجہ سے لوگوں کی بہت مدد ہوئی، سب ایک دوسرے سے رابطے میں رہے، ایک دوسرے کی خیریت معلوم کرتے رہے، تنہائی کا احساس کم ہوگیا۔ یہاں پر کورونا کے حوالے سے معلومات شیئر ہوتی رہیں اور صارفین بروقت آگاہ ہوتے رہے۔ سوشل میڈیا پر بہت سے صارفین نے اپنے اپنے علاقوں کے گروپ بنا رکھے ہیں‘ یہاں پر بھی اہلِ علاقہ ایک دوسرے سے باخبر رہتے ہیں اور علاقے کے بارے میں مثبت اور منفی خبریں ملتی رہتی ہیں۔ اس وقت بارشوں کا موسم ہے‘ ایک گروپ میں سوشل میڈیا صارف نے وڈیو بنا کر دیگر ممبران کو اطلاع دی کہ دریائے کورنگ میں طغیانی ہے‘ وہاں جانے سے گریز کریں۔ کتنے ہی لوگوں نے روٹ تبدیل کر لیا اور بہت سے ممبران نے سفر ہی مؤخرکر دیا۔ اس کے ساتھ سوشل میڈیا پر بہت سے گروپ فوٹوگرافی اور کوکنگ کے لئے بھی بنے ہوئے ہیں‘ یہاں پر لوگ اپنے موبائل اور کیمرہ کلکس شیئر کرتے ہیں، ایک ساتھ فوٹوگرافی واک کرتے ہیں۔ فوڈیز کی بات کریں تو یہ اپنے بنائے ہوئے کھانوں کی وڈیوز اور تصاویر بھی اَپ لوڈ کرتے ہیں، علاوہ ازیں ڈائننگ آپشنز کے حوالے سے بھی ممبران کو آگاہ کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ شعر و شاعری، فیشن، خرید و فروخت، میک اَپ سٹائلنگ، ادب، سکول‘ کالج ری یونینز، سیاحت، صحافت کے لئے بھی بہت سے پیجز، گروپس، یوٹیوب چینلز اور انسٹا گرام اکائونٹس بنے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر وی لاگ اور ٹریول لاگ لوگ بہت شوق سے پوسٹ کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا نے ہر شخص کو سٹار بنا دیا ہے‘ ادھر کچن میں کچھ بنا کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کریں، ادھر داد و تحسین سیمٹ لیں، بلی کے بچے نے شرارت کی‘ آپ نے ریکارڈ کی، سوشل میڈیا پر لاکھوں سراہیں گے۔ بچے نے پہلے الفاظ بولے یا پہلا قدم اٹھایا، آپ کا پورا خاندان ایک ساتھ سوشل میڈیا پر اس خوشی میں شریک ہو سکتا ہے۔ کتنے ہی لوگوں کی قسمت سوشل میڈیا نے بدل دی‘ ننھے احمد شاہ کی وڈیو اس کے ٹیچر نے اَپ لوڈ کی تھی‘ لاکھوں لوگوں نے اس وڈیو کو دیکھا‘ ٹی وی چینلز سے آفرز آئیں‘ آج احمد شاہ ایک سٹار ہے‘ یوٹیوب سے بھی کما رہا ہے۔ سوشل میڈیا نے ننھے احمد کو سٹار بنا دیا۔ اس کے علاوہ ایک سالہ بے بی شیف کوبی (Kobe) ہے جس کے انسٹاگرام پر تیس لاکھ سے زائد فالورز ہیں اور ہر طرف اس کی کوکنگ اور شرارتوں کی دھوم ہے۔
سوشل میڈیا کو لوگ اپنے بزنس کے پھیلائو کے لئے بھی استعمال کر رہے ہیں، تمام ہی بڑے اور چھوٹے برینڈز فیس بک‘ انسٹاگرام‘ یوٹیوب اور ٹویٹر پر موجود ہیں۔ کتنے ہی صارفین آن لائن خریداری کرتے ہیں اور یوں برینڈز کا کاروبار پھل پھول رہا ہے، اس سے صارفین کے لئے بھی خریداری کرنا آسان ہوگیا ہے۔ کورونا لاک ڈائون میں زیادہ تر لوگ گروسری بھی آن لائن کر رہے تھے اور ادویات بھی گھر کے دروازے تک پہنچ رہی تھیں۔ اس دوران وٹس ایپ اور فیس بک خریداری کے لیے بہت زیادہ استعمال ہوئے۔
اگر ہم بات کریں سیاسی، سماجی اور شوبز شخصیات کی تو وہ بھی سوشل میڈیا کا سہارا لے کر اپنا پیغام پہنچاتی ہیں‘ لائیو سٹریمنگ کے ذریعے لوگوں سے رابطے میں آتی ہیں، اپنی تصاویر‘ وڈیوز پوسٹ کرتی ہیں‘ اپنے کام کی تفصیلات جاری کرتی ہیں۔ ان کے پرستار ان سے انٹریکشن کرتے ہیں۔ جن لوگوں کے اکائونٹس یوٹیوب اور فیس بک پر مونیٹائزڈ ہیں‘ وہ ان سے پیسے بھی کما رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کو تعلیمی مقاصد کے لئے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ سکول‘ کالجز اور یونیورسٹیز کے پیجز بھی بنے ہوئے ہیں اور یہاں سے انتظامیہ طالب علموں کے ساتھ رابطے میں رہتی ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران تمام طالب علم آن لائن کلاسز لیتے رہے۔ بہت سے افراد سوشل میڈیا پر خدمتِ خلق بھی کر رہے ہیں اور لوگوں کی مدد بھی کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ جو لوگ جانوروں سے پیار کرتے ہیں‘ انہوں نے جانوروں کو ریسکیو کرنے کے لئے گروپ بنا رکھے ہیں جہاں پر آوارہ بلیوں اور کتوں کے لئے بھی کام کیا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا کے مثبت استعمال سے ہم دنیا بھر میں دوست بنا سکتے ہیں، دنیا بھر کی سیر بنا ویزہ کر سکتے ہیں اور ہر جگہ کی سوغاتیں خرید سکتے ہیں۔ خبر چند لمحوں میں دنیا بھر میں پہنچ جاتی ہے۔ بہت سے لوگ اس کو دنیا میں اسلام کی تبلیغ و تعلیم کے لئے بھی استعمال کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں سماجی انقلاب لانے کے لئے بھی اب سوشل میڈیا اور ہیش ٹیگز کا سہارا لیا جاتا ہے، ماضی قریب میں ترکی میں بغاوت کو ناکام بنانے، وال سٹریٹ پر احتجاج، عرب سپرنگ اور لیبیا کے انقلاب میں سوشل میڈیا نے اہم کردار ادا کیا۔ یہاں پر لوگ رابطے میں رہتے ہیں اور اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کرتے ہیں؛ تاہم سوشل میڈیا کا سب سے اچھا استعمال وہ کر رہے ہیں جو اس کو اپنے دین کی ترویج اور وطن کا مثبت چہرہ اجاگر کرنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ وہ مذہب دشمن اور ملک دشمنوں کا رضاکارانہ طور پر مقابلہ کرتے ہیں اور لوگوں تک اصل حقائق پہنچاتے ہیں۔
جہاں سوشل میڈیا کے اتنے مثبت پہلو ہیں‘ وہاں اس کے منفی پہلو بھی بہت نمایاں ہیں۔ سب سے زیادہ تو یہ کہ لوگ اس پر بہت وقت ضائع کرتے ہیں‘ سارا سارا دن فون ہاتھ میں ہوتا ہے‘ سوشل میڈیا پر تو وہ سب کے ساتھ رابطے میں ہوتے ہیں لیکن جو ساتھ بیٹھے حقیقی رشتہ دار ہوتے ہیں‘ ان کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ لوگ سوشل میڈیا کو جعلسازی کے لئے استعمال کرتے ہیں، یہاں خواتین کے نام سے جعلی اکائونٹس بناکر لوگوں کو بے وقوف بنایا جاتا ہے اور ان سے رقم ہتھیا لی جاتی ہے۔ لوگوں کی تصاویر اور وڈیوز کا غلط استعمال کیا جاتا ہے‘ ان کو بلیک میل کیا جاتا ہے۔ لوگوں کے اکائونٹس ہیک کر لیے جاتے ہیں، ان کی شناخت چوری کر لی جاتی ہے جن سے ان کو شدید ذہنی اذیت پہنچتی ہے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے لوگ سٹریس اور پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بات یہاں تک بھی پہنچ جاتی ہے کہ لوگ اس کا استعمال ترک کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہاں پر سائبر بُلنگ بھی ہوتی ہے، لوگوں کی شکل، شخصیت اور انداز کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ بعض افراد اچھی چیزوں پر بھی اپنا خبثِ باطن عیاں کرنے سے باز نہیں آتے اور غلط اور غلیظ کمنٹس کرتے ہیں۔ اس سے لوگوں کی پرائیویسی بھی متاثر ہوتی ہے اور لوگوں کے رشتوں کو بھی ٹھیس پہنچتی ہے۔ سوشل میڈیا کا مسلسل استعمال کھانے پینے اور سونے کے اوقات کو متاثر کرتا ہے اور انسان بیمار پڑ جاتا ہے۔
بعض منفی ذہنیت کے حامل افراد نے سوشل میڈیا پر باقاعدہ ٹیمیں بنا رکھی ہیں جہاں سے وہ لوگوں کو نشانہ بناتے اور ان کے خلاف مہمیں چلاتے ہیں۔ بہتان تراشی کی جاتی ہے‘ خاص طور پر خواتین کی کردار کشی کی جاتی ہے۔ قومی شخصیات اور اداروں کے خلاف منظم منفی مہمیں چلائی جاتی ہیں۔ ایسے لوگ زیادہ تر غیر ممالک میں بیٹھے ہوتے ہیں اور اس کام کے عوض بھاری فنڈنگ کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مذہبی شعائر کی تضحیک کر کے لوگوں کو بھڑکایا جاتا ہے‘ اس سب کا بہترین حل یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو رپورٹ کرکے بلاک کیا جائے۔ سوشل میڈیا کا انفرادی‘ اجتماعی‘ دینی‘ معاشرتی یا سیاسی طور پر استعمال کرنا سمجھ میں آتا ہے لیکن یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ماحول کو خراب کرنے والے ٹرولز کیا چاہتے ہیں؟ یہ اجتماعی طور معاشرے کو بگاڑنا چاہتے ہیں، یہ لوگوں کی زبانیں خراب کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ سوشل میڈیا پر مثبت بات نہ ہو، ان کا مقصد بداخلاقی‘ نسلی و لسانی تعصب اور فرقہ واریت کو فروغ دینا ہے‘ اس لئے اس کا بہترین حل ہے کہ ان کو نظرانداز کر کے گمنامی میں پڑا رہنے دیں اور ہرگز جواب مت دیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں