بھارتی مظالم کی طویل داستان

وہ سب آنکھوں میں خواب سجائے پاکستان سے سرحد کے اُس پار اپنے رشتہ داروں سے ملنے گئے تھے۔ تقسیم کے وقت ان کے کچھ پیارے ہندوستان میں رہ گئے تھے‘ اُن سے ملنے کے لئے دل بے تاب رہتا تھا لیکن دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے اتار چڑھائو کی وجہ سے اپنے پیاروں سے ملنے کی کسک دل میں ہی دبی رہ گئی۔ پھر بھارت اور پاکستان کے مابین تعلقات میں بہتری آئی اور سمجھوتا ایکسپریس کے نام سے ٹرین سروس کا آغاز ہوا تو سرحد کے دونوں طرف رہنے والوں کے دل خوشی سے جھوم اٹھے کہ اب وہ اپنے پیاروں سے مل سکیں گے۔ پاکستان کی ہندو برادری بھی خوش تھی کہ وہ بھارت میں اپنے مذہبی مقامات دیکھ سکے گی۔ دوسری طرف بھارت کے سکھ یاتریوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ وہ پاکستان میں موجود اپنے مذہبی مقامات کی زیارت کر سکیں گے۔
یہ 18 فروری 2007ء کا بدقسمت دن تھا جب بھارت اور پاکستان کے درمیان چلنے والی سمجھوتا ایکسپریس دہلی سے پاکستان کی طرف رواں دواں تھی‘ اٹاری بارڈر سے اس نے پاکستان میں داخل ہونا تھا، مسافر خوش اور پُرمسرت تھے، وہ آپس میں گپ شپ کر رہے تھے، کوئی کھا پی رہا تھا تو کوئی آرام کر رہا تھا۔ سب خوش تھے کہ وہ اپنے وطن لوٹنے والے ہیں لیکن آر ایس ایس اور ہندوتوا کے پیروکاروں نے کچھ اور ہی سوچ رکھا تھا۔ ان کو یہ امن ایک آنکھ نہیں بھا رہا تھا اور انہوں نے ایسی بھیانک سازش رچائی کہ ہر ذی شعور کانپ اٹھا کہ کوئی اتنا ظالم اور سفاک بھی ہوسکتا ہے۔ آدھی رات کے قریب‘ جب سمجھوتا ایکسپریس ٹرین پانی پت کے پاس پہنچی تو اس کی دو بوگیوں میں دھماکے ہوا اور کم و بیش 70 مسافر زندہ جل گئے‘ جن میں اکثریت پاکستانیوں کی تھی۔ اتنی بڑی دہشت گردی بھارت کی سرزمین پر ہوئی اور پاکستانیوں کو زندہ جلا دیا گیا لیکن بھارتی حکومت اور عدالتوں کی بے حسی دیکھیں کہ اس کیس سے جڑے تمام ملزمان ایک ایک کر کے بری ہو چکے ہیں۔
سمجھوتا ایکسپریس بم حملے میں بھارت کی ایک انتہا پسند تنظیم کا ہاتھ تھا۔ اس کیس میں 8 ملزمان کو نامزد کیا گیا تھا، جن میں سے تین 'مفرور‘ بن گئے، ایک پولیس حملے میں مارا گیا اور چار کو بھارتی عدالتوں نے بری کر دیا۔ بھارت کے اپنے تحقیقاتی اداروں کی رپورٹس کے مطابق بھارتی شدت پسند تنظیم ابیھنو نے یہ سازش تیار کی تھی۔ آتش گیر مواد ٹرین کی دو بوگیوں میں رکھا گیا تھا جن سے دھماکا ہوا اور پوری ٹرین جل کر خاکستر ہوگئی۔ 70 افراد اس دہشت گردی کی نذر ہوئے جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے لیکن بھارت کی سفاکی دیکھیں کہ تمام ملزمان بری کرا دیے۔ آج تک سمجھوتا ایکسپریس میں زندہ جل جانے والے مسافروں کے لواحقین انصاف کے منتظر ہیں۔
2019ء میں جب سمجھوتا ایکسپریس بم دھماکے میں ملوث سوامی اسیم آنند‘ جس نے دھماکا کرنے کا اعتراف کرتے ہوئے ساری پلاننگ سے بھی آگاہ کیا تھا‘ سمیت باقی ملزمان کو بری کیا گیا تو لواحقین کے وہ زخم جن سے 2007ء سے خون رس رہا تھا‘ پھر سے ہرے ہوگئے۔ ان کے پیارے ہنستے‘ مسکراتے پاکستان سے بھارت گئے تھے مگر ان کی واپسی ہوئی تو تابوتوں میں موجود نعشوں کی صورت جو اتنی جھلس چکی تھیں کہ پہچان کے بھی قابل نہ رہی تھیں۔ یہ لواحقین اپنے پیاروں کا دکھ‘ ان کی چیخیں اور درد کبھی نہیں بھول سکتے۔ گزشتہ برس جب سمجھوتا ایکسپریس کے تمام ملزمان بھارتی عدالتوں کی جانب سے بری کر دیے گئے تو اس حادثے میں شہید ہونے والے افراد کے رشتہ داروں نے لاہور میں پنجاب اسمبلی کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ سمجھوتا ایکسپریس کا مقدمہ عالمی عدالت میں لڑے۔ پاکستان کو یقینا ایسا ہی کرنا چاہیے اور اس مدعے کو ہر جگہ اٹھانا چاہیے تاکہ بھارت کے سفاک چہرے پر سجے سیکولر ازم کے نقاب کو اتار کر اس کا حقیقی چہرہ دنیا کو دکھایا جا سکے۔
اسی طرح جب پاکستان کی نابینا کرکٹ ٹیم ٹی ٹونٹی عالمی کپ 2012ء میں شرکت کے لئے بھارت گئی تو اس کی کارکردگی بہت متاثر کن تھی‘ یہ بات شاید وہاں پر موجود انتہا پسندوں کو ایک آنکھ نہیں بھائی اور ذیشان عباسی‘ جو پاکستانی نابینا کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے‘ کے ناشتے کی میز پر گلاس میں پانی کے بجائے تیزاب رکھ دیا گیا۔ ذیشان عباسی نے تیزاب کا گھونٹ بھر لیا جس کی وجہ سے ان کی طبیعت خراب ہو گئی اور وہ الٹیاں کرنے لگے، ان کو ہسپتال لے جایا گیا جہاں کوئی ڈاکٹر موجود نہ تھا۔ کافی دیر بعد علاج معالجہ شروع ہوا تو پھر جا کر ان کی حالت سنبھلی اور اس حالت میں بھی وہ اگلے دن گرین شرٹ کے ساتھ میدان میں اترے اور میچ کھیلا۔ پاکستان کی جانب سے ایسے معاملات کو عالمی سطح پر نہیں اٹھایا جاتا، دوسری طرف بھارت میں ٹڈی دل‘ کبوتریا غبارے بھی پاکستان سے چلے جائیں تو پاکستان پر دراندازی اور دہشت گردی کا الزام لگ جاتا ہے۔ بلائنڈ کرکٹر کو مارنے کی کوشش انتہائی گھٹیا اور سفاکانہ حرکت تھی؛ تاہم کسی نے اس پر توجہ نہیں دی جو افسوس ناک امر ہے۔ کھیل امن کی نشانی ہیں اور یہ ہر چیز سے ماؤرا ہوتا ہے۔ اس دوران بھی اگر بھارت دشمنی کا مظاہرہ کرے تو ہمیں ان کی پست ذہنیت کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہئے کہ وہ کوئی موقع‘ جس سے پاکستانیوں کو نقصان پہنچایا جا سکے‘ ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ہندوتوا نظریے پر عمل پیرا فاشسٹ بھارتی حکومت صرف پاکستانی مسلمانوں سے ہی نہیں پاکستانی ہندو برادری سے بھی دشمنی نبھا رہی ہے۔ حال ہی میں دو ہندو خاندان بھارت سے واپس آئے ہیں‘ ان کے مطابق: مودی حکومت کے جھوٹے وعدوں پر ہم بھارت ہجرت تو کر گئے لیکن وہاں ہمیں جھونپڑیوں میں بھوکا پیاسا رہنا پڑا، اب ہم بہت خوش ہیں کہ واپس پاکستان آ گئے ہیں۔ کوئی بھی ہندو مودی حکومت کے جھانسے میں مت آئے۔اسی طرح کو 9 اگست کو بھارت میں ایک ہی خاندان کے 11 پاکستانی ہندو پراسرار طور پر ہلاک ہو گئے۔ یہ سب جودھ پور میں رہائش پذیر تھے۔11 لوگ کیسے ایک ساتھ چل بسے؟ یہ سوال ہمیشہ مودی حکومت کا پیچھا کرتا رہے گا۔ یہ پاکستانی ہندو خاندان سندھ کے علاقے شہدادپور سے تعلق رکھتا تھا اور بھیل قبیلے سے تھا۔ ابتدائی اطلاعات یہی بتاتی ہیں کہ ان کو زہر دے کر مارا گیا ہے۔ اس خاندان کی ایک فرد‘ مکھی شریمتی کے مطابق ان کے خاندان کو اس لئے بھارت میں قتل کیا گیا کیونکہ انہوں نے پاکستان میں رہ کر جاسوسی کرنے اور پاکستان مخالف بیانات دینے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ معاملہ بہت حساس ہے‘ پاکستان کے ہندو اس وقت شدید اضطراب کا شکار ہیں۔ پہلے سمجھوتا ایکسریس اور اب 11 پاکستانی ہندوئوں کا قتل۔ بھارت کو اب ہر صورت جواب دینا ہو گا۔
جودھ پور کے 11افراد اور سمجھوتا ایکسپریس کے 70 افراد کا خون بھارت کے انتہا پسندوں کے ہاتھوں سے ٹپک رہا ہے۔ اس معاملے کو اب اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف میں اٹھانا ہوگا۔ اسی حوالے سے گزشتہ دنوں پاکستان ہندو کونسل کے سربراہ اور ممبر قومی اسمبلی رمیش کمار وانکوانی کی کال پر پاکستان کی ہندو کمیونٹی نے اسلام آباد میں پُرامن دھرنا دیا۔ ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی ہندو اسلام آباد میں جمع ہوئے اور سبز ہلالی پرچم اٹھا کر بھارتی مظالم کے خلاف کے مظاہرہ کیا۔ ان مظاہرین نے سمجھوتا ایکسپریس کے مجرمان کو کڑی سزا دینے کا مطالبہ بھی کیا، اور یہ کہ جودھ پور میں قتل ہونے والے پاکستانی ہندوئوں کے قاتلوں کو سامنے لایا جائے۔ یہ دھرنا بہت اہم پیغام دے رہا ہے‘ وہ یہ کہ پاکستان کے سبھی طبقات متحد ہیں اور پاکستان کی ترقی کے لئے مل کر کام کر رہے ہیں۔ پاکستان کی ہندو کمیونٹی بہت محبت وطن اور امن پسند ہے۔ اگر وہ بھارت میں قتل ہونے والے ہندوئوں کے معاملے پر خوف و اضطراب کا شکار ہے تو ہم سب بھی اس مشکل وقت میں اس کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس ظلم کے خلاف ہر فورم پر آواز اٹھائیں گے۔ ہم سب متحد ہیں اور بھارتی مظالم کا پردہ چاک کرتے رہیں گے۔ اب ہم مظلوموں کو انصاف دلا کر ہی چین سے بیٹھیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں