وہ بظاہر بالکل ٹھیک تھی‘ خوبصورت، خوش لباس، ہنس مکھ لیکن اچانک اس کی طبیعت خراب رہنے لگ گئی، اداسی اور مایوسی نے اس کو جکڑ لیا، کھانا کھانے کا دل نہیں کرتا تھا، کسی سے ملنے سے جی گھبراتا تھا، سو باہر آنا جانا بھی کم کر دیا۔ خودکشی کے خیالات آنے لگے، ڈاکٹر کو دکھایا تو اس نے جب یہ بتایا کہ یہ ڈپریشن ہے تو وہ سوچ میں پڑ گئی کہ میری زندگی میں تو سب ٹھیک ہے‘ پھر مجھے ڈپریشن کیوں ہو گیا۔ ڈاکٹر نے کہا: جیسے نزلہ‘ زکام‘ کورونا کسی بھی انسان کو ہو سکتا ہے اسی طرح ڈپریشن اور نفسیاتی امراض بھی کسی بھی انسان کو اپنی لیپٹ میں لے سکتے ہیں۔ خیر علاج شروع ہوا، ادویات اور تھراپی کے باعث آج وہ بالکل ٹھیک ہے۔
پشاور میں سانحہ اے پی ایس ہوا تو بہت سے لوگ‘ جن کے پیارے اس میں شہید ہوگئے اور وہ جنہوں نے یہ مناظر ٹی وی پر دیکھے‘ ان میں سے بہت لوگ ذہنی دبائو کا شکار ہو گئے اور جنہوں نے جائے وقوعہ کا خود معائنہ کیا، ان کو ڈپریشن، انزائٹی اور پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈِس آرڈر ہو گیا۔ میں نے اُس وقت بھی اس چیز پر آواز اٹھائی تھی کہ پاکستان نے طویل عرصہ دہشت گردی دیکھی ہے‘ لوگوں نے اپنے پیارے اس جنگ میں کھوئے ہیں، اس لئے ذہنی اور نفسیاتی صحت کی بحالی کے لئے ہمیں ایسے مراکز کی ضرورت ہے جہاں زیادہ رش نہ ہو اور علاج بھی مناسب دام میں میسر ہو اور ڈاکٹرز پوری توجہ سے مریض کی بات سن سکیں۔
اس وقت پاکستان میں معصوم بچوں پر جنسی حملے ہو رہے ہیں یہ سلسلہ وبا کی طرح پھیل رہا ہے‘ اس کا تدارک بہت ضروری ہے‘ تاہم اس کے بچوں پر کتنے بھیانک اثرات ہوتے ہیں‘ یہ معاملہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے۔ مجھے یاد ہے کہ رپورٹنگ کے دنوں میں ایک معروف ڈاکٹر‘ جو سائیکاٹرسٹ ہیں‘ کے کلینک جانا ہوا تو دیکھا وہاں پر ایک خاتون اپنے بچے کے ساتھ بیٹھی تھی۔ میں نے اس کا انٹرویو لینا تھا لیکن اپنی ٹیم کو باہر گاڑی میں ہی روک دیا کہ مریضوں کی پرائیویسی میں خلل نہ آئے۔ اس خاتون کا بچہ بہت پیارا تھا لیکن بہت خوفزدہ تھا اور وہ خاتون بار بار اپنے آنسو چادر سے صاف کر رہی تھی۔ میں نے بیگ سے ٹشو نکالا‘ اس کو دیا اور پوچھا کہ کیا ہوا ہے‘ سب خیریت ہے؟ وہ مزید رونے لگ گئی‘ میں نے اسے پانی دیا اور کہا کہ اللہ پر بھروسہ کرو۔ وہ کہنے لگی کہ بیمار میرا بیٹا ہے۔ وہ بچہ بہت گول مٹول اور پیارا تھا لیکن آنکھیں اداس اور آنکھوں کے نیچے گہرے حلقے تھے اور وہ بہت بے چین اور خوفزدہ نظر آ رہا تھا۔ اس کی والدہ نے جو کچھ مجھے بتایا‘ وہ سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے، میرے بھی آنسو بہنے لگے۔ اس بچے کو اس کے چچا نے زیادتی کا نشانہ بنایا تھا، جب یہ بات ماں کو پتا چلی اور اس نے سسرال کے سامنے تذکرہ کیا تو کہا گیا کہ اگر اس نے زبان کھولی تو اس کو طلاق دے کر گھر سے نکال دیا جائے گا۔ اس خاتون نے کہا کہ وہ جب بھی میکے آتی ہے‘ تب اپنے بچے کو علاج کیلئے لے کر آتی ہے۔ بعدازاں اس بچے کو دورے پڑنے لگ گئے‘ وہ سکول بھی نہیں جاتا تھا اور ڈر سے بستر بھی گیلا کر دیتا تھا۔ وہ خاتون چلی گئی تو میں سوچنے لگ گئی کہ یہ بچہ دوائی یا تھراپی سے کیسے ٹھیک ہوگا‘ ہر روز جب بھی اپنے چچا کو دیکھے گا تو اسی تکلیف میں چلا جائے گا، کیا پتا آگے بھی اس بچے کیلئے خطرہ منڈلاتا رہے۔
معاشرہ اکثر جن جرائم پر پردہ ڈالتا ہے‘ ان کی وجہ سے بھی بہت سی نفسیاتی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ انسانی نفسیات میں تبدیلیوں کے پیچھے بہت سے عوامل ہوتے ہیں‘ جن میں ماحول، واقعات، حادثات اور طبی وجوہات کارفرما ہوتی ہیں۔بچپن‘ بلوغت اور بڑھاپے میں رونما ہونی والی معاشرتی اور جسمانی تبدیلیاں براہ راست انسانی نفسیات پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ خاص طور پر نوجوانوں میں جسمانی، ذہنی اور جذباتی طور پر بہت اتار چڑھائو آتے ہیں، اس دوران والدین اور اساتذہ کو ان کا خیال کرنا چاہیے کیونکہ اگر ان کو مناسب رہنمائی نہیں دی جائے گی تو بیمار بھی ہو سکتے ہیں اور بری عادات کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔
اگر بچے خوف کا شکار ہو جائیں تو ان کی جسمانی صحت متاثر ہوتی ہے‘ ان کی جسمانی و ذہنی نشو و نما رک جاتی ہے اور وہ مختلف فوبیاز کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں جو عام نفسیاتی بیماریاں پائی جاتی ہیں‘ ان میں ڈپریشن، او سی ڈی، انزائٹی، پینک اٹیک، بائی پولر، پی ٹی ایس ڈی، سیلف ہارم، شیزو فرینیا، بار بار خود کشی کی کوشش کرنا، کھانے پینے کا ڈس آرڈر، ایسی چیزیں نظر آنا جن کا وجود نہ ہو اور موڈ ڈِس آرڈر وغیرہ شامل ہیں۔ اگر ان کا علاج نہ کرایا جائے تو نوبت خودکشی تک پہنچ جاتی ہے‘ اس لئے ان کا فوری علاج بہت ضروری ہے۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ جن بھوت کا سایہ ہوگیا‘ یہ غلط روش ہے۔ نفسیاتی بیماریوں کا علاج بھی بالکل ویسے ہوگا جیسے‘ دیگر امراض مثلاً بخار وغیرہ کا ہوتا ہے؛ دوائی‘ ہمدردی‘ بات چیت اور دیکھ بھال سے۔ بہت سے ڈاکٹرز نے اپنے کلینکس پر ادویات کے ساتھ ایکسرسائز انسٹرکٹرز، حجامہ ماہرین اور دینی معلم بھی بٹھا رکھے ہیں تاکہ دوائی کے ساتھ دیگر طریقۂ علاج سے بھی مریض کو جلد ٹھیک کیا جا سکے۔ نفسیاتی علاج کا اثر چند ماہ میں نظر آتا ہے‘ اس لئے ابتدا میں علاج سے مایوس نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ادویات اور کونسلنگ دھیرے دھیرے اثر کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ مریض کو اس بات کا یقین دلائیں کہ وہ پاگل نہیں ہے‘ یہ ایک عارضہ ہے جو کچھ عرصے میں ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ کسی گناہ کا نتیجہ نہیں‘ ایک بیماری ہے جو کسی کو بھی ہو سکتی ہے۔ اس کا علاج نام نہاد عاملوں اور پیروں کے پاس نہیں‘ ڈاکٹرز کے پاس ہے۔
نفسیات کے عمومی طور پر دو طرح کے ڈاکٹرز ہوتے ہیں؛ ایک سائیکاٹرسٹ، دوسرے سائیکالوجسٹ۔ پہلا دوائیوں سے علاج کرتا ہے‘ دوسرا بات چیت سے مریض کے خوف اور خدشات دور کرتا ہے۔ اگر آپ کسی شخص میں ایسی علامات دیکھیں کہ وہ اچانک بالکل خاموش ہوگیا ہے‘ زیادہ باہر نہیں جاتا، صفائی وغیرہ کا خیال نہیں رکھتا، گھر اور باہر کے کام کرنا چھوڑ دیے ہیں، بات بات پر روتا ہے، خود کو ناکارہ سمجھتا ہے اور مرنے کی باتیں کرتا رہتا ہے تو اسے تسلی دیں اور فوری طور پر ڈاکٹر کو دکھائیں، نیز اس کی بات سنیں‘ اس کو رونے دیں تاکہ دل کا غبار نکل جائے۔ یاد رکھیں! بات چیت اور توجہ سے آپ انسانی جان بچا سکتے ہیں، اس لئے ذہنی و نفسیاتی امراض میں مبتلا افراد کو اکیلا مت چھوڑیں۔ اگر آپ نفسیاتی بیماریوں سے لڑنا چاہتے ہیں تو ورزش کریں، پان، سگریٹ، تمباکو وغیرہ سے دور رہیں، زیادہ وقت ٹی وی ‘ موبائل کے سامنے یا بستر پر نہ گزاریں، ہفتے میں پانچ بار چہل قدمی کریں۔ اپنی ادویات وقت پر لیں، متوازن خوارک کھائیں، مکمل نیند لیں، اپنے گھر والوں اور دوستوں سے رابطے میں رہیں، باغبانی کریں، اچھی کتابیں پڑھیں، دوستوں کو وڈیو کالز کریں، ان کے ساتھ بات چیت کریں۔ جو چیز سب سے اہم ہے وہ یہ کہ نماز ادا کریں اور قرآن پاک پڑھیں، تلاوت بھی ضرور سنیں‘ خاص طور پر سورہ بقرہ، سورہ یٰسین اور سورہ رحمن‘ یہ ڈپریشن کو دور کرتی ہیں۔ کسی بھی شخص کو پاگل کہنے یا اس کی تضحیک سے گریز کریں۔ یاد رکھیں! ذہنی بیماریوں میں جسمانی علامات بھی ظاہر ہو سکتی ہیں‘ جیسے معدے میں درد، گیس، ڈکار، سانس میں تکلیف، خوارک کی نالی میں جلن اور جسم میں درد وغیرہ، ایسا مریض جلد تھک جاتا ہے، اس کو سکون اور آرام فراہم کریں۔ ایک دوسرے کیلئے آسانیاں پیدا کریں، گھر کا ماحول اچھا رکھیں، اس سے بھی ذہنی صحت پر اچھا اثر پڑتا ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران ذہنی بیماریوں میں اضافہ ہوا ہے، حکومت کو نئے سائیکاٹرسٹ ہائر کرنے چاہئیں، نیز ماہر نفسیات بھی بھرتی کئے جائیں اور مینٹل ہیلتھ ہیلپ لائن‘ جہاں لوگ رازداری سے اپنے مسائل بتا سکیں‘ کا اجرا کرنا چاہیے، بیس کروڑ عوام کیلئے چند سو ڈاکٹرز ناکافی ہیں۔ ضروری ہے کہ نفسیات کے شعبے پر کام کیا جائے اور نیا عملہ بھرتی کیا جائے۔