بھارت کی منفی مہم اور پاکستانی سیاست

بھارتی میڈیا اور سیاستدانوں کی یہ پرانی عادت ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف مسلسل منفی مہم چلاتے رہتے ہیں۔ بار بار پاکستان کے حوالے سے جھوٹی خبریں نشر کی جاتی ہیں۔ جب سے سی پیک کا آغاز ہوا ہے‘ اس وقت سے بھارت نے اس منصوبے کے خلاف باقاعدہ اور منظم مہم چلا رکھی ہے۔ یہ بات بھی عیاں ہے کہ بلوچستان سے را کا حاضر سروس کمانڈر کلبھوشن یادیو پکڑا گیا تھا‘ بھارت بعض نوجوانوں کو بہکا کر ٹریننگ دے رہا اور ان کی فنڈنگ کر رہا تھا تاکہ بلوچستان کے امن کو تہ و بالا کیا جا سکے۔ را کے ان فنڈڈ دہشت گردوں نے نومبر 2018ء میں کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملہ کیا، اس کے بعد گوادر میں ایک ہوٹل پر حملہ ہوا، اگست 2018ء چاغی میں چینی انجینئرز کی بس پر دہشت گردوں کی طرف سے حملہ کیا گیا، اسی طرح کراچی میں پاکستان سٹاک ایکسچینج کی عمارت پر حملے کی کوشش کی گئی؛ تاہم پولیس اور گارڈز نے بروقت تمام دہشت گردوں کو جہنم واصل کر کے بڑے نقصان سے محفوظ رکھا، ان تمام حملوں میں سامنے چہرہ تو بی ایل اے کا تھا مگر اس کے پیچھے را تھی۔ اسی طرح بلوچستان میں جو سکیورٹی فورسز پر حملے ہوئے ہیں‘ ان میں بھی را ملوث پائی گئی ہے۔
بھارت نہ صرف اپنے پڑوسی ممالک میں دہشت گردی کروانے میں ملوث ہے‘ بلکہ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے اپنے شہریوں اور فوجیوں کو بھی مروانے سے گریز نہیں کرتا۔ اس کا مقصد عوام کے جذبات کو ابھارنا اور دوسرے ممالک پر الزام لگانا ہوتا ہے، ایسا ہی کچھ اوڑی اور پلوامہ میں ہوا۔ بھارت نے خود فالس فلیگ آپریشن کیے اور الزامات پاکستان پر لگا دیے۔ بھارت ہر فالس فلیگ حملے کے بعد پاکستان پر حملہ آور ہونے کی کوشش کرتا رہا۔ پلوامہ کے وقت چونکہ بھارت میں انتخابات کا موسم تھا، اس لیے اربابِ حکومت کی جانب سے پہلے سے متنبہ کیا جا رہا تھا کہ بھارت کوئی حملہ کروا کے اس کا الزام پاکستان پر لگا سکتا ہے، ایسا ہی ہوا، بھارت نے پہلے پلوامہ کا ڈرامہ رچا کر عوام کو اشتعال دلایا اور پھر عوام کو ٹھنڈا کرنے کے لیے پاکستان پر نام نہاد سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ داغ دیا۔ نجانے یہ کیسی سرجیکل سٹرائیک تھی کہ پاکستان میں کسی کو علم بھی نہ ہو سکا۔اس کے بعد فیک نیوز کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ گوئبلز بھی شرما گیا۔ بھارت کی جانب سے پلوامہ حملے کا ماسٹر مائنڈ عبدالرشید غازی کو قرار دیا گیا، وہی عبدالرشید غازی جو 2007ء میں لال مسجد آپریشن میں ہلاک ہو گئے تھے۔ جب یہ غلطی پکڑی گئی تو ایک کشمیری نوجوان کی ایک برازیلی گارڈ کے ساتھ جعلی تصویر بنا کر اسے حملہ آور بنا دیا گیا، یہ جھوٹ بھی پکڑا گیا اور بھارت کی خوب جگ ہنسائی ہوئی۔ جب یہاں بھی اس کی دال نہیں گلی تو پھر کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق پاکستان کے خلاف منظم پروپیگنڈا مہم شروع کر دی گئی۔ سی پیک، بلوچستان، مسلکی ہم آہنگی اور اہم ملکی شخصیات کے حوالے سے منفی مہم شروع ہوکر دی گئی۔ بھارت‘ جس نے فروری 2019ء میں پاکستان کی سرحدی حدود کی خلاف ورزی کی جسارت کی اور پھر بدحواسی میں بالا کوٹ میں پے لوڈ گرا کر بھاگ کھڑا ہوا، اگلے دن پاکستان ایئر فورس کے شاہینوں نے بھارت کو ایسی شکستِ فاش سے دوچار کیا کہ دنیا انگشت بدنداں رہ گئی، شاہینوں نے دو بھارتی طیارے مار گرائے اور ایک پائلٹ ابھینندن کو زندہ گرفتار کر لیا۔ اس پر بھی بھارتی جھوٹ سے باز نہیں آئے اور دعویٰ کیا کہ پاکستان کا ایف سولہ طیارہ بھی کریش ہوا ہے‘ لیکن یہ جھوٹ بھی پکڑا گیا۔ پاکستان نے عالمی امن کو اولیت دیتے ہوئے بھارتی پائلٹ کو اگلے ہی روز رہا کر دیا اور وہ جاتے جاتے پاکستانی چائے کی تعریف بھی کر کے گیا‘ جس کی قیمت ایک مگ طیارہ تھی۔
امسال جب کورونا وائرس عالمی وبا کے طور پر حملہ آور ہوا تو مارچ میں انڈین میڈیا اور ہندوستان ٹائمز نے 8 پاکستانی آرمی افسران کے کورونا میں مبتلا ہونے کی جھوٹی خبر نشر کر دی۔ اس کے لیے ایک فیک اکائونٹ کا حوالہ دیا گیا جو پاکستان کی منسٹری آف ہیلتھ کا تھا ہی نہیں۔ اس جعلی اکائونٹ اور بھارتی میڈیا کی طرف سے کہا گیا کہ 3 لیفٹیننٹ کرنل، 2 کرنل، 2بریگیڈیئر اور ایک میجر جنرل کورونا کا شکار ہو گئے ہیں، باقی خبروں کی طرح یہ بھی ایک من گھڑت خبر تھی۔ 23 اپریل 2020ء کو یہ ہوائی چھوڑی گئی کہ سپہ سالار عساکرِ پاکستان کو کورونا ہوگیا ہے۔ 10 جون کو ایک اور خبر دی گئی کہ پاکستان کا ایک ایف سولہ طیارہ کراچی میں بلیک آوٹ ہو کر گم ہو گیا ہے، یہ خبر بھی سو فیصد جھوٹ پر مبنی تھی۔ 14 جون 2020ء کو بھارتی میڈیا نے خبر دی کہ پاکستان نیوی کی آبدوز سعد نے ایک بوٹ کو ٹارگٹ کیا ہے‘ یہ خبر بھی جھوٹی تھی‘ ایسا کوئی واقعہ سرے سے وقوع پذیر ہی نہیں ہوا تھا۔ اس کے بعد انڈین میڈیا نے ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے اپنی توپوں کا رخ پاکستان کی طرف کر لیا اور ایسی ایسی بے بنیاد خبریں نشر و شائع کرنا شروع کیں جن کا نہ کوئی سر تھا نہ پیر، مقصد اس کا فیٹف کے فیصلے پر اثر انداز ہونا تھا۔ گزشتہ مہینے بھارتی میڈیا نے کراچی کے حوالے سے خانہ جنگی کی خبریں پھیلانا شروع کر دیں اور پولیس اور فوج کے مدمقامل آنے کی اپنی خواہشات پر مبنی جھوٹی خبریں نشر کیں۔ یہاں پر ایک افسوسناک حرکت یہ ہوئی کہ ہمارے بہت سے سیاست دانوں نے بھی ایسے بیانات دیے اور کچھ سوشل میڈیا اکائونٹس نے بھی ایسا مواد شیئر کیا جس سے بھارت کی جھوٹی مہم کو کمک ملی۔
اپوزیشن اتحاد کے کوئٹہ جلسے میں اویس نورانی بلوچستان کو 'آزاد ریاست‘ کہہ گئے جس پر بھارتی میڈیا میں طوفان برپا ہوگیا، وہ یہی تو چاہتا تھا، اگرچہ ان کی جانب سے اس بیان کی وضاحت آ گئی کہ یہ محض زبان کا پھسلائو تھا مگر بھارت ابھی تک اس بیان سے چمٹا ہوا ہے۔ میں سوچتی ہوں کہ اہم قومی امور پر ایسی بے احتیاطی کا مظاہرہ کیونکر ہو سکتا ہے؟ لیکن جب یہاں ڈان لیکس ہو سکتا ہے اور اس پر این آر او بھی مل جاتا ہے تو باقی سب بھی شیر ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح قومی اسمبلی میں ہوا کہ ایاز صادق نے بات شاہ محمود قریشی اور حکومت کے حوالے سے کی لیکن الفاظ کا چنائو ایسا تھا کہ بات فوج پر فٹ ہوئی۔ پاک فوج کی قربانیاں اور اس کا ملکی سرحدوں کی حفاظت کا عزم سب کے سامنے ہے، یہ بات غیر ذمہ دار سیاست دانوں کو ہمیشہ ذہن نشین رہنی چاہیے۔ اس بیان نے بھارت کو پھر موقع فراہم کیا کہ وہ پاکستان کے خلاف مہم چلا سکے اور اپنی فروری 2019ء کی شکست کو فتح میں بدل سکے مگر تاریخ کو مسخ کرنا اتنا بھی آسان نہیں ہے۔ ایاز صادق اب بھی معذرت کرنے کے بجائے اپنے بیان کی تاویلیں پیش کر رہے ہیں۔ اس طرح کے لوگوں کو اِن کیمرہ سیشن میں مدعو ہی نہیں کیا جانا چاہئے جو باہر آکر اپنے سیاسی آقائوں کی کرپشن چھپانے کے لئے ملکی سلامتی دائو پر لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے، ایسے لوگوں کو حساس اجلاسوں سے دور رکھنا ہی مناسب ہے۔
یہ سلسلہ یہاں پر رکا نہیں‘ ایاز صادق کے بیان کا جواب دیتے ہوئے فواد چودھری تقریر کر رہے تھے تو انہوں نے فروری 2019ء کی جھڑپ کو پلوامہ کا نام دے دیا اور اسے پاکستانی کارنامہ قرار دیا، اگرچہ بعد میں انہوں نے معاملہ سنبھال لیا لیکن ان کا تصحیح والا جملہ بھارتی میڈیا نے کاٹ کر ان کے بیان کو اپنے مطابق نشر کیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پلوامہ کے واقعے میں پاکستان ملوث تھا۔ یہاں میری سب سیاستدانوں سے دست بستہ گزارش ہے کہ وہ اسمبلی اجلاس میں مکمل تیاری کے ساتھ آیا کریں اور جلسوں‘ دھرنوں میں بھی تقاریر فی البدیہہ کے بجائے نوٹس بنا کر کیا کریں تاکہ بعد میں شرمندگی و خفت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ مشہور مقولہ ہے کہ پہلے تولو‘ پھر بولو لیکن شاید پاکستانی سیاستدانوں کو اس سے کوئی واسطہ نہیں، انہیں معلوم ہی نہیں کہ کچھ بھی بولنے سے پہلے یہ سوچ لینا چاہیے کہ جو ہم بول رہے ہیں‘ کیا ہم اس کا بار اٹھا سکتے ہیں۔ کچھ بھی بول دینا‘ بعد میں یہ کہنا کہ بیان توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا‘ اور اپنے الفاظ پر پشیمان بھی نہ ہونا‘ یہ طریقہ کار درست نہیں ہے۔ قومی سلامتی کے معاملے گڈا گڑیا کا کھیل نہیں‘ ان میں کچھ تو سنجیدگی دکھائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں